تو نشان عزم عالی شان ارض نیا پاکستان


تین موقر اخبارات کے صفحہ اول میرے سامنے ہیں۔ شہ سرخی افغانستان سے امریکہ کی واپسی کی خبر سنا رہی ہے جبکہ تین کالمی خبر میں طالبان کو مذاکرات کی میز پر لانے کی سفارتی کامیابی کے دعوے موجود ہیں۔ چار کالمی خبر میں ادھار پر ساڑھے چار ارب ڈالر کا تیل ملنے کی نوید ہے۔ نیچے دو کالموں پر مشتمل خبر میں پیٹرولیم مصنوعات کے دس روپے تک سستا ہونے کے امکانات کو ظاہر کیا جا رہا ہے۔

عدالت کی جانب سے سول اپیلوں کو تین ماہ میں نمٹانے کا عزم ہے اور صفحے کے درمیان میں 51 فیصد عوام کی جانب سے عمران خان کی حکومت کی کارکردگی پر اطمینان ظاہر کرنے کے سروے نتائج ہیں۔ سب کچھ بہت اچھا نظر آ رہا ہے۔ آج کا اخبار دیکھ کر یوں محسوس ہوتا ہے جیسے پاکستان بلکہ نیا پاکستان اچانک چھلانگ لگا کر مسائل کے گڑھے سے باہر نکل آیا ہے اور اب ہر طرف ستے خیراں ہو رہی ہے۔

گزشتہ روز نئے پاکستان میں کوئی سانحہ نہیں ہوا۔ کسی نابالغ بچی کے ساتھ جنسی زیادتی کر کے اسے قتل نہیں کیا گیا۔ کسی بچے کو بہلا پھسلا کر ساتھ نہیں لے جایا گیا۔ پولیس نے ناکے پر کسی کے نا رکنے پر فائرنگ نہیں کی۔ کوئی احتجاج نہیں ہوا۔ کوئی لڑکی آشنا کے ساتھ فرار نہیں ہوئی اور کسی غیرت مند مرد کی غیرت نہیں جاگی اس لیے بالغ لڑکیاں زندہ سلامت رہیں۔ کسی صاحب ثروت نے اپنے کم سن ملازم یا ملازمہ پر تشدد نہیں کیا۔ شوہر نے بیوی پر تشدد نہیں کیا اور اولاد نے ماں باپ کو گھر سے نہیں نکالا۔

ان اخبارات کو دیکھتے ہوئے کافی دن کے بعد فشار خون اپنی مقررہ حدود کے اندر ہی رقصاں ہے۔ نیوز پرنٹ کی درآمد پر چھوٹ نے شاید اخبارات پر اچھا اثر ڈالا ہے جس کی وجہ سے راوی نے عیش ہی عیش لکھنا شروع کر دیا ہے۔ حکومت پر تنقید کرنے والے حضرات نے سابقہ حکومتوں کے لتے لینے شروع کر دیے ہیں اور سابقہ حکومتوں کے مداح موجودہ حکومت کی اچھائیاں اجاگر کرنے میں مصروف ہیں۔ ایک جہان حیرت ہے۔

تینوں اخبارات کے صفحہ اول پر مگر ایک سرخی نے منہ کا ذائقہ کڑوا کر دیا۔ یہ سرخی سانحہ ساہیوال سے متعلق تھی۔ بڑی کوفت ہوئی کہ انتہائی مثبت خبروں کے ہنگام اس فضول سے واقعے کے ذکر کی کیا ضرورت تھی۔ لوگ تو مرتے رہتے ہیں۔ ریاست کے ہاتھوں مارے جائیں تو یہ تو عین سعادت ہے۔ اس کے علاوہ ریاست تو معاوضہ بھی ادا کر دیتی ہے۔ حادثے میں مارے جاتے تو کسی نے پوچھنا بھی نہیں تھا۔ انتہائی بیزاری کے عالم میں خبر کی تفصیل دیکھی تو سیدھا ہو کر بیٹھ گیا۔ یہ تو ایک انتہائی مثبت خبر تھی۔

خبر کے مطابق سانحہ ساہیوال میں مرنے والوں کے لواحقین کو اسلام آباد کی سیر کروائی گئی۔ سرکاری خرچے پر انہیں لاہور سے اسلام آباد لایا گیا اور پورا دن ارض نیا پاکستان کے دارالحکومت کی شان و شوکت دکھائی گئی۔ نئے پاکستان کی جانب سے اپنے شہریوں کے لیے یہ ایک شاندار قدم اٹھایا گیا تھا۔ یقینی طور پر غم و الم کے مارے خاندان کو تفریح کی اشد ضرورت تھی۔ روز روز میڈیا کی یلغار اور آس پڑوس کے لوگوں کی بھانت بھانت کی باتوں نے یقیناً خلیل اور ذیشان کے لواحقین کو مایوسی اور ڈپریشن کی گہرائیوں میں دھکیل دیا ہو گا۔

حکومت نیا پاکستان نے اس بات کو فوراً محسوس کر لیا چناچہ پولیس نے ان دونوں خاندانوں کے لیے پکنک کا بندوبست کیا اور انھیں صدر مملکت اور سینیٹ کے چیئرمین سے ملاقات کا جھانسہ دے کر اسلام آباد لے آئی۔ ان بے چاروں نے اس سے پہلے اسلام آباد کب دیکھا ہوگا۔ اس سیر کے بعد اب وہ فخریہ طور سے ملنے جلنے والوں کو یہ بتا سکتے ہیں کہ انھوں نے سرکاری خرچے پر وفاقی دارالحکومت کی تفصیلی سیر کی ہے اور اب وہ ذہنی اور جسمانی طور پر بہت اچھا اور پرسکون محسوس کر رہے ہیں۔

مجھے اس بات کا یقین ہے کہ دوران سفر پولیس والوں نے دونوں خاندانوں کو اچھے اچھے لطیفے بھی سنائے ہوں گے جس سے ان لوگوں کو اپنا غم بھلانے میں بہت مدد ملی ہو گی۔ ان دونوں خاندانوں کو حکومت نیا پاکستان کا از حد شکر گذار ہونا چاہیے اور مستقبل میں بھی ایسے تفریحی دورے کے لیے سرکاری خرچ پر تیار رہنا چاہیے۔

ایک فلاحی مملکت میں اپنے شہریوں کا بہت خیال رکھا جاتا ہے اور جب کوئی ریاست ایک عالی شان عزم کے ساتھ اپنے شہریوں کی خدمت کے جذبے سے سرشار ہو تو ایسی مثبت خبریں ہی اخبارات کے صفحہ اول پر جگہ پاتی ہیں۔

حفیظ جالندھری اگر زندہ ہوتے تو یقیناً پاکستان کے قومی ترانے میں ایک لفظ کا اضافہ کرتے ہوئے اس مصرعے کو یوں تبدیل کر دیتے۔ ”تو نشان عزم عالی شان ارض نیا پاکستان مرکز یقین شاد باد۔ “

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad