بھیڑوں کا لشکر اور چھوٹی سی دیاسلائی


نپولین نے کہا تھا کہ اگر سو بھیڑوں کی فوج کا سربراہ شیر کومقررکردیاجائے تووہ بھیڑیں شیروں کی طرح لڑیں گی اوراگر سو شیروں کا سربراہ بھیڑ کو مقررکردیاجائے تو وہ شیر بھیڑوں کی طرح جنگ کریں گے۔ ہوسکتاہے کہ نپولین کو خبر نہ ہوکہ وہ کسی ایک خاص ملک یا شہر یا ریاست کے حوالے سے یہ بات کررہے ہیں لیکن لگتایہی ہے کہ شاید مرحوم مغفور پاکستان کی بابت اتنی بڑی بات کہہ گئے کہ قیادت ہی کسی ملک کوترقی کی طرف لے جاتی ہے یا پستی کے اندوہناک اندھیروں میں لے ڈوبتی ہے اس مملکت خداداد پاکستان سے ساتھ ساتھ یا بعد میں معرض وجود میں آنیوالی سلطنتیں ہمارے سامنے مثال کی صورت موجود ہیں کہ ان مملکتوں کو حقیقی قیادتیں میسرآ گئیں اوروہ ترقی کی اس نہج پر پہنچ گئے کہ آج ہم بھی انہیں مثال کی صورت پیش کرنے میں عار محسوس نہیں کرتے۔

چین آنے والے دنوں کی ایک ایسی سپرپاور جس کی ترقی آج کسی کے وہم وگمان میں نہیں۔ کئی عشرے قبل یہی چین اورچینی قوم کس حالت میں زندگی گزاررہے تھے۔ ماؤزے تنگ جیسا رہبر میسر آیا تو چین ترقی کی وہ تمام سیڑھیاں چڑھتا چلا گیا، ماؤنے جب چینی قو م کوبیدار کرنے کی سعی کی تو سب سے پہلے قربانی اپنے بیٹے کی دی اورپھر چینی قوم سے مخاطب ہوکر کہاتھا کہ میں نے اپنے بیٹے کی قربانی دے کر ایک جنگ شروع کردی ہے کہ اب جیتے جاگتے چین کے لئے آپ بھی قربانی کو تیار ہو جائیں۔

کہتے ہیں کہ جب تحریک شروع ہوئی تو کروڑوں لوگ ماؤ کے پیچھے تھے لیکن جب وہ اپنی منزل پر پہنچاتو چند لاکھ افراد اس کے پیچھے ہاتھ باندھے کھڑے تھے۔ وہ اور چین تھا اورآج کا چین اور ہے، پھر ملائشیا کی مثال ہی لے لیں، ڈاکٹرمہاتیرمحمد کو جدید ملائشیا کا بانی کہاجائے تو بیجا نہ ہوگا۔ بہت سے پاکستانیوں کو شاید یہ خبربھی نہ ہو کہ ڈاکٹرمہاتیر محمد، سابق صدر ایوب خان کے دور میں پانچ نکاتی ترقیاتی ایجنڈا لے کر گئے اور پھر اسی پر نئے ملائشیا کی بنیاد رکھی اور آج ملائشیا ہمیں ترقی کی اس نہج پر نظرآرہا ہے کہ جہاں ہمیں دیکھنے کے لئے سرجھکانا نہیں سر اٹھانا پڑتا ہے۔

صاحبو! کسی دانشور نے کہا تھا کہ کسی بھی کام کا ارادہ ہوتو وہ کام آدھا تواسی وقت ہی ختم ہو جاتا ہے جب اسے شروع کیا جائے لیکن باقی آدھے کی خبر نہیں ہوتی کہ کب ختم ہوگا یہ تو کرنے والے کے ارادوں، قوت فیصلہ پر منحصر ہے کہ وہ کس انداز سے راستے میں آنے والی مشکلات سے نمٹ پاتا ہے۔ شاید ہماری یہی تو بدقسمتی ہے کہ کسی بھی کام کو شروع تو کر لیتے ہیں لیکن پھر سٹیمنا برقرار نہیں رکھ پاتے، جوں جوں وقت گزرتا جائے ہماری کچھ کر گزرنے کی خواہش دم توڑنے لگتی ہے اورپھر ہم آدھے راستے پر کھڑے سوچتے رہ جاتے ہیں کہ ہمیں اب آگے جاناچاہیے یا پیچھے، پھر کیا ہوتا ہے؟ یہی کہ کچھ قدم آگے کی طرف چلتے ہیں اور پھر لوٹ آتے ہیں کہ نہیں ہمیں تو پیچھے کی جانب جانا تھا۔ اسی گومگو میں ہم اپنی زندگی کے کئی سال ضائع کر دیتے ہیں۔

بات قیادتوں کی چھڑی ہے تو بعض اوقات مملکتوں، افواج پرایسا وقت آن پڑتا ہے کہ اسے اپنی ساری کشتیاں جلا کر واپسی کی امید توڑدینا ہی پڑتی ہے۔ جیسا کہ تاریخ کے حروف پر بکھری وہ کہانی بھی ہے کہ طارق بن زیاد نے اندلس کو فتح کرنے کے لئے چند ہزار فوجیوں کے ساتھ کشتیوں پر سفرکر کے سمندر طے کیا اور پھر جب وہ ”جبل طارق“ (جسے آج بھی جبرالٹر کے نام سے یاد رکھا جا رہا ہے ) جب یہ عظیم کمانڈر سمندر پار اتر ا تو اس نے اپنی فوج کو حکم دیا تھا کہ کشتیاں جلا دو، فوجیوں نے سبب پوچھا تو جواب ملا کہ ہم نے واپسی کا ارادہ ترک کر دینا چاہیے کیونکہ یہ کشتیاں واپسی کی امید تھیں اس لیے جلا دیا کہ مومن کے لئے واپسی کا کوئی راستہ نہیں ہوتا۔

ہم آج دعوے سے کہتے ہیں بلکہ اس کے لئے مرنے مارنے پر تل جاتے ہیں کہ ہم سے بڑا مومن کوئی اور ہو ہی نہیں سکتا لیکن کیا ہے کہ آج ترقی کی رفتار میں دیگر قوموں سے پیچھے رہ گئے، وجوہات یقینا ہمیں بھی پتہ ہے اورسب بخوبی جانتے ہیں کہ آج نپولین کی بات درست ثابت ہوتی دکھائی دیتی ہے کہ پاکستانی قوم شیروں کی طرح تھی جسے بھیڑ نما قیادتوں نے آج اس حال تک پہنچا دیا کہ بیرونی دنیا یہاں تک کہنے پر مجبورہو گئی کہ پاکستانی قوم بھیڑوں کا ریوڑ ہے جس کے لئے سمت کا تعین نہیں ہو سکا۔ پہلی بھیڑ جس سمت کی طرف جا نکلے باقی اس کے پیچھے پیچھے چل نکلتی ہیں۔ یہ دیکھے بنا کہ پہلے والی بھیڑ اندھے کنویں میں گر گئی بلکہ پیچھے آنے والی دیکھنے کے باوجود بھی گرتی چلی جاتی ہیں۔

یقینا یہ لمحہ فکریہ ہے کہ ہم آج تک اچھی قیادت کا انتخاب نہیں کر سکے جو ہمارے لئے راہ متعین کرسکے جس میں قوت فیصلہ اتنی مضبوط ہو کہ وہ ترقی کا سفر شروع کرنے سے پہلے واپسی، مایوسی کی کشتیاں جلا کر ہی آگے بڑھتا چلا جائے، وہ مہاتیر محمد تو ہو نہیں سکتا لیکن ان کے عمل کو سامنے رکھ کر چل تو سکتا ہے۔ یقینا ایسی قیادت ہی ملک کو ترقی کی راہ پرڈال سکتی ہے۔ سیانے کہتے ہیں کہ جب اندھیرا گھٹا ٹوپ ہو جائے تو پھر چھوٹی سی دیا سلائی بھی جلائی جائے تو اندھیروں کا سینہ پھٹ جاتا ہے اور پھر امید کی نئی نئی کرنیں وجود میں آتی جاتی ہیں۔ یقینا آج پاکستان پر گھٹا ٹوپ اندھیروں کا قبضہ ہے اور بس انتظار ہے اس وقت کا جب کوئی چھوٹی سی دیا سلائی جلائے گا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).