خدا کے لیے اب آ جاؤ


\"mubashir\"آہو، بالکل آ جاؤ۔ آ جاؤ اور پھر کبھی نہ جاؤ۔ ویسے بھی سنا ہے کہ ماضی کے مارکسسٹ کافر، موئے رُوسی، انسان کو ہمیشہ زندہ رکھنے کے اک پراجیکٹ پر کام کر رہے ہیں جو 2050 تک آپریشنل ہو جائے گا۔ بس صرف چونتیس سال کی ہی تو بات ہے، پھر آپ جناب بھی سلامت، آپکے چمکدار کالے بُوٹ بھی، اور ہماری زبانیں بھی۔ تب تک چمکدار کالے بوٹ چاٹ چاٹ کر زبانوں کے مسلز ویسے بھی تربیت یافتہ ہوں گے تو جناب، بوٹ اس طریقے سے چاٹے جا رہے ہوں گے کہ تاقیامت چمک قائم دائم رہے گی، مولا شہنشاہ قائم رکھے، بھاگ لگے رہن، ڈیرے وسدے رہن، جناب!

خدا کے لیے اب آ جاؤ، جانے کی باتیں جانے دو۔ قوم تو اب بھی صدر جنرل ایوب صاحب کو دل سے یاد کرتی ہے۔ ہمیں بہت سخت ضرورت ہے ایبڈو کی، پاکستان پریس اینڈ پبلیکیشنز آرڈیننس کی۔ قوم بہت مِس کرتی ہے آپریشن جبرالٹر، اور بنگالیوں کی نسل کو اپنا نطفہ دے کر ٹھیک کرنے کی۔ بائیس خاندانوں کو باقی سارے پاکستان سے امیر ترین بنانے کی، اور خود جنرل موٹرز کی پاکستان میں مینوفیکچرنگ کا لائسنس لینے کی۔ قوم کو بہت شدید ضرورت ہے کالا باغ نوابی کی، ون یونٹ کی، اور سب سے بڑھ کر پلاٹوں، پرمٹوں اور قومی خزانے سے سماجی، سیاسی اور مذہبی رشوتوں کی۔ پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو بھولتی نہیں جناب۔

خدا کے لیے اب آ جاؤ، جانے کی باتیں جانے دو۔ قوم ابھی بھی صدر جنرل یحیٰ خان صاحب کو دل سے یاد کرتی ہے۔ ہمیں بہت سخت ضرورت ہے اپنی پتلون میں پیشاب کرنے کی۔ شراب کے نشے میں دھت ہوکر مختلف سربراہان مملکت سے ملنے کی۔ اپنے مورچوں میں نرسوں کو بلانے کی، اور پان سمگل کرنے کی۔ قوم بہت مِس کرتی ہے ایوان صدر میں جنرل رانی کی موجودگی جناب، اور رقص و سرود، اور سرور کی محفلیں بھی قوم کے لیے آکسیجن کا باعث تھیں۔ قسم سے قوم کو اس آکسیجن کی اشد ضرورت ہے، میرے آقا۔ پھر وہ اک ٹیلیگرام جو جناب صدر صاحب نے جنرل اے کے نیازی کو لکھا کہ تم نے ڈٹ کر لڑائی کی، مگر اب یہ لڑائی بے فائدہ ہے، ہتھیار ڈال دو۔ قوم نے ڈھاکہ پلٹن گراؤنڈ بھی دیکھا، میرے آقا، میرے مجازی خدا، میرے ملاح۔ اور یقینا جب دوبارہ آؤ تو یہ سب ساتھ ہی لے آنا کہ قوم ان کے بغیر کیا کرے گی بھلا؟ پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو بھولتی نہیں جناب۔

خدا کے لیے اب آ جاؤ، جانے کی باتیں جانے دو۔ وہ اپنے سُرمے والی سرکار، جنرل شہید ضیاءالحق غازی، فاتح افغانستان، ہند سندھ روس \"bannaer\"امریکہ مریخ نیپچون و پلوٹو، کا دور تو پاکستان نہیں، بلکہ حضرت بابا آدم ؑ کے دور سے انسانوں کا سنہری ترین دور تھا۔ آجاؤ کہ قوم کو نظام صلوۃ کی اشد ضرورت ہے کہ جس میں ایسے ایسے لوگ ناظم صلوۃ مقرر ہوئے کہ جن کے خلاف ہم جنسیت کے لوکل مقدمات تھے۔ بالکل آ جاؤ کہ پاکستان کو ابھی مزید بم دھماکوں، ہتھوڑا گروپ، انجمنان سپاہِ صحابہ، تحریکات جعفریہ کے علاوہ مجاہدین کی اشد ضرورت ہے۔ اس ناشکری قوم نے چونکہ ابھی تک کافی خون نہیں بہایا، اس لیے لازمی آ جاؤ، کل کے آتے آج آ جاؤ کہ یہ انجمنان و تحریکات پاکستان کی گلیوں بازاروں اور گھروں میں راج کریں، خون بہائیں اور اس سارے دور میں یہ ناشکری قوم سجدہ شکر بجا لائے کہ بابا سُرمے والی جرنیلی سرکار کا سنہرا دور دوبارہ سے یاد آ رہا ہے۔ آ جاؤ کہ جنرل شہید غازی صاحب کا دور یاد آتا ہے کہ جس میں بغیر وضو نماز بھی جائز تھی کہ جنرل صاحب کے ساتھ پڑھنا تھی۔ خدا کا واسطہ ہے جلدی آ جاؤ وگرنہ جماعت اسلامی کو نان کمرشل کاموں کے لیے اسلام آباد میں پلاٹ کون الاٹ کرے گا اور کون تاریخ کے اسباق کو بدلے گا؟ کون غزنوی، غوری، ابدالی کو ہمارا ہیرو بنائے گا، کون طاہر القادری کو سیلیبس کمیٹی کا چئیرمین لگائے گا اور کون نواز شریف صاحب کو تلاش کرکے گورنر ہاؤس میں ان کی تربیت کرے گا۔ جلدی آ جاؤ کہ وگرنہ میٹھے آموں کی پیٹی کون پھاڑے گا اور بستی لال کمال سے جبڑا کیسے برآمد ہوگا اور اسلام آباد میں جبڑا چوک کیسے بنے گا۔ پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو بھولتی نہیں جناب۔

خدا کے لیے اب آ جاؤ، جانے کی باتیں جانے دو۔ پاکستانی قوم کو ابھی بھی بغل میں دابے دو کُتوں کے برابر بننے کی ضرورت ہے۔ میں آج سے رضاکارانہ طور پر اپنا نام \”ڈاٹ\” رکھنے کا اعلان کرتا ہوں، \”بڈی\” بھی مل ہی جائے گا۔ آ جاؤ کہ وہ سات پوائنٹ ایجنڈا کون دے گا وگرنہ، وہ قومی تعمیر نو بیورو میں، خود مقدس بھائیوں کے بقول، اک کوچوان کیسے بیٹھے گا۔ وہ کانفرنسیں کون کروائے گا کہ جن کی روح رواں بیگم جو\”عنایتِ اللہ\” تھیں، اور ۔ پدرم سلطان بود کی طرز پر، کون اک \”گوہرِ نایاب\” سے صدارتی نظام کے حق میں اخبار میں کالم لکھوائے گا؟ لائن آ ف کنٹرول پر بھارت کو باڑ کون بنانے دے گا، بیرونی طاقتوں سے مناسب سودے بازی کیے بغیر، سات کی سات ڈیمانڈز\"raheelbanner\" کون پوری کرے گا؟ آ جاؤ کہ فاٹا میں کچا پکا آپریشن کون شروع کرے گا، بابے بگٹی کو کون قتل کرکے بلوچستان میں آگ بھڑکائے گا، ادارہ جاتی لڑائی میں مولوی برقعہ کی مسجد کو کون دھشتگردوں کی پناہ گاہ بننے کا مکمل موقع فراہم کرے گا؟ کون 2002 کے الیکشنز کی طرز پر ملائیت کو اک پلیٹ فارم پر بذریعہ حضرت ابنِ ضمیر اکھٹا کر کے ستر بہتر نشستیں دلوائے گا؟ کون اک صوبہ ملائیت کے حوالے کرے گا تاکہ رشوت کا نام بدل کر ہدیہ رکھ دیا جائے، اور سب سے بڑھ کر کون ملا فضل اللہ اور ملا صوفی محمد جیسی عظیم ہستیوں کو قومی دھارے میں شامل کروا کر سوات کی جنت نظیر وادی میں اسلام کا بول بالا کروائے گا؟ کون ہو گا جو جنرل یحیٰ صاحب مدظلہ سرکار کی سنت کو زندہ کرتے ہوئے ایوان صدر میں سر پر بادام کی سردائی کا گلاس رکھ کر رقص پیش کرے گا؟ اور سب سے بڑھ کر، کون ہوگا جناب جو کارگل کر کے پاکستان کو دھشتگرد ریاست بننے کے قریب تر لے آنے کا کار خیر سرانجام دے گا، اور پھر اپنی گردن بچانے کے لیے این آر او کرکے حضرتِ زرداری کو ہماری گردنوں پر بٹھائے گا؟ اور آخر میں، کون ہوگا جسکی کمر میں مسلسل درد رہے گا، جو عظیم اسلامی جمہوریہ پاکستان سے نکلنے کے بعد کمر درد سے محرومی کا معجزہ دکھائے گا؟ پاکستانی قوم اپنے محسنوں کو بھولتی نہیں جناب۔

خدا کے لیے اب آ جاؤ، جانے کی باتیں جانے دو۔ جلدی آؤ۔ یہ سر بھی حاضر ہے، جوتے بھی۔ زبان بھی حاضر ہے، بُوٹ چمکانے کے لیے تھوک بھی۔ ہاتھ بھی حاضر ہیں، بیڑیاں بھی۔ گردن بھی حاضر ہے، طوق بھی۔ وجود بھی حاضر ہے غلامی بھی۔ خدا کا واسطہ ہے، اب آ بھی جاؤ، کہ پاکستان کو بھی پھر کہیں جانا ہے۔

نعرہ تکبیر!

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

Subscribe
Notify of
guest
0 Comments (Email address is not required)
Inline Feedbacks
View all comments