کون کسے قبول نہیں یہ فیصلہ کون کرے گا


مشہور فرانسیسی فلسفی والٹیئر نے کہا ہے کہ ”اگر آپ جاننا چاہتے ہیں کہ اصل میں آپ پر حکمران کون ہیں، تو اس بات کو جاننے کی کوشش کریں کہ آپ کو کن طبقات پر تنقید کی اجازت نہیں ہے“ وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی صاحب نے نجانے کس پیرائے میں یہ بات کہی ہے کی میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری غیبی قوتوں کے لئے قابل قبول نہیں ہیں، کیا بادی النظر میں وہ یہ قبول نہیں کر رہے ہیں کہ ملک پاکستان پر تحریک انصاف کی نہیں بلکہ کسی اور کی حکومت ہے۔

بدقسمتی سے تحریک انصاف کے وزیراعظم سمیت کوئی بھی وزیر عہدیدار ابھی تک یہ بات عملی طور بھی سمجھنے سے قاصر ہے کہ اس وقت وہ مسند اقتدار پر براجمان ہیں۔ والٹیئر کے فلسفے کے مطابق اگر ہم یہ جاننے کی جستجو میں لگ جائیں کہ آخر ہم پر حاکم ہے کون تو میں سمجھتا ہوں کہ زیادہ تگ و دو کرنے کی ضرورت نہیں پڑے گی کیونکہ ملک کا بچہ بچہ، ہر ذی ہوش اس حقیقت بلک تلخ حقیقت سے واقف ہے کی وہ کون سی قوتیں ہیں جن پر تنقید آپ کو گمشدہ افراد میں شامل کرسکتی ہے، کن کے خلاف تنقید آپ کو نہ ختم ہونے والے مسائل و مشکلات سے دوچار کرسکتی ہے۔

کن قوتوں اداروں کے خلاف بولنے کی اجازت ملک پر مسند اقتدار طاقتور افراد کو بھی نہیں ہے۔ پاکستان اور بھارت کی جمہوریتوں کا اگر تقابلی جائزہ لیں تو یہ حقیقت عالم آشکار ہے کہ انگریزوں سے آزادی حاصل کرنے کے بعد سے لے کر آجتک ہندستان میں کبھی کسی قوت نے غیرآئینی طور پر اقتدار پر قبضہ نہیں کیا، جبکہ پاکستان کی آزادی کے باہتر سالوں میں سے تین چوتھائی عرصہ ملک پر طالع آزما قوتوں کا آمرانہ و غاصبانہ قبضہ رہا ہے۔

ملک کے اقتدار اعلیٰ پر قابض ان آمروں کے غیرآئینی و غیرقانونی تسلط ظلم و جبر، مارشل لاء کی سختیوں کوڑوں اور پھانسیوں کے خلاف عوامی تحریکیں بھی چلائی گئیں ملک کے عالمی سیاسی مدبر شہید ذوالفقار علی بھٹو نے پھانسی قبول کی، ان کی قابل فخر دختر اسی غیرآئینی تسلط کے خلاف جنگ کرتی رہیں اور بل آخر ایک عوامی مجمع میں راستے سے ہٹا دی گئیں۔ سینکڑوں سیاسی کارکنوں نے جیلیں کاٹیں پھانسی کے پھندے ہنستے مسکراتے اپنے گلوں میں ڈالے مگر پھر بھی ہم پر جنات کے روپ میں حکمران ان قوتوں کو ملک اور ملک کی عوام پر رحم نہیں آیا۔

پاکستان کے اقتدار اعلیٰ کے پس پشت مزے لوٹنے والی ان قوتوں نے مختلف وقتوں میں مختلف لاڈلے اپنے غیبی اقتدار کو مستحکم رکھنے کے لئے پروان چڑھائے، پہلے میاں نواز شریف سب سے پیارے لاڈلے تھے جن کی انگلی پکڑ کے جنرل ضیاءالحق نے جنرل چشتی کے حوالے کیا جن کی ٹیم نے ان کی نوک پلک سنوار کر ان کو کار سیاست میں اتارا اور پھر دنیا نے نظارہ کیا کہ ان سے وہ وہ کام لئے گئے جو شاید حقیقی عوامی پذیرائی اور خوف خدا رکھنے والا سیاسی رہنما کبھی نہ کرتا۔

پھر ایک وقت آیا جب میاں نواز شریف نے اپنے آقاؤں کو آنکھیں دکھانا شروع کیں تب ملک کے اقتدار اعلیٰ پر ہمیشہ سے قابض غیبی طاقتوں نے اپنے پٹارے سے عمران نیازی نام کا ایک اور مہرہ نکالا اور اسے عوامی پذیرائی اور طاقت دینا شروع کی۔ تحریک انصاف کا بنیاد 1996 میں رکھا گیا کئی سالوں تک نیازی صاحب پانچ سؤ ایک ہزار سے زیادہ ووٹ کبھی نہ لے سکے۔ پھر 2002 میں ان کے آقاؤں میں سے ہی ایک کی مرہون منت وہ منتخب کروا کر پارلیمنٹ میں بھیجے گئے۔

2011 میں ان کی اقتدار کی جانب پیش قدمی شروع کروائی گئی۔ اور پھر 2013 میں انہیں پہلے خیبر پختون خواہ کا اقتدار سونپا گیا اور آخر میں 2018 میں انہیں مرکز سمیت، کے پی کے اور پنجاب میں مسند اقتدار کیا گیا۔ جن طاقتوں پر ہمارے ملک میں تنقید کی اجازت بالکل نہیں ہے وہ تحریک انصاف کو اقتدار میں تو لے آئی ہیں مگر اب تک کے حالات بتا رہے ہیں کہ لانے والے حیران و پریشان ہیں کہ یہ کیا غلطی کر بیٹھے ہیں۔ جولائی 2018 کے انتخابات کو ترتیب دینے والے اور عمران خان صاحب کے سر پہ وزارت عظمیٰ کا ہما بٹھانے والے فرشتوں کو شاید بہت جلد ہی اپنی فاش غلطی کا احساس ہوگیا ہے اسی لئے خان صاحب کے انٹلیکچوئل ساتھیوں کی بھی زبانیں لڑکھڑانے لگی ہیں۔

قومی اسمبلی میں منی بجٹ پیش کرتے ہوئے ٹیلنٹڈ وزیر خزانہ فرمانے لگے کہ 2023 میں اپنی مثالی پالیسیوں کی بنا پر خان صاحب کو انتخابات خریدنا نہیں پڑیں گے۔ اس کا مطلب تو بالکل واضح ہے کہ خان صاحب 2018 کے انتخابات خرید کر برسر اقتدار آئے ہیں اور اس کی قیمت کیا اور کس شکل میں انہوں نے ادا کی ہے انشاءاللہ وہ بھی ان ہی عقلمندوں میں سے کسی کی زبان سے پتہ لگ جائے گا۔ ایک اور ارسطو وزیر محترم شاہ محمود قریشی صاحب ایک تقریب میں فرما رہے تھے کہ ”جو طاقتیں ملک میں اقتدار کے فیصلے کرتی ہیں ان کے تاثرات میں جان چکا ہوں، وہ اپنا ذہن بنا چکے ہیں انہیں نہ نواز شریف قبول ہیں نہ ہی آصف علی زرداری“ اب ان ناعاقبت اندیش غلام ذہنیت لوگوں سے ذرا پوچھیں کہ ملک کے اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ کسے کرنا ہے آیا یہ فیصلہ آزادانہ عوامی ووٹ کے ذریعے ہونا ہے یا خلائی مخلوق کے خفیہ بیلٹ کے ذریعے۔

تحریک انصاف بڑے بلند و بانگ دعوے کرکے اقتدار میں آئی تھی کہ انہیں عوام نے مینڈیٹ دیا ہے مگر ان کے اس دعوے کو قومی اسمبلی میں اسد عمر اور ایک عوامی اجتماع میں شاہ محمود قریشی نے فراڈ ثابت کر دیا۔ تحریک انصاف کے دونوں رہنماؤں کی جانب سے جوش خطابت اور بغض اپوزیشن میں کہے گئے سچ نے اصولی طور پر تحریک انصاف کی حکومت کے اخلاقی جواز کو ہی ختم کردیا ہے۔ ان دونوں رہنماؤں کے اس سچ پر خان صاحب اپنی غیراخلاقی اور ایک جیسی بے وقتی راگنیوں کے ذریعے مہر ثبت کر دیتے ہیں۔

آج مخدوم شاہ محمود قریشی صاحب کے ہوشربا اور تہلکہ خیز انکشافات کو سنجیدگی سے لینے کی ضرورت ہے کہ اگر میاں نواز شریف اور آصف علی زرداری کسی کی پسند یا ناپسند کا مسئلہ ہیں بھی تو اس سے پاکستان کے اقتدار اور عوامی مینڈیٹ کا کیا تعلق ہے اور کیوں شاہ صاحب بڑے فخریہ انداز میں لوگوں کو یہ کہہ رہے تھے کہ ملک کے اقتدار اعلیٰ کا فیصلہ کرنے والی طاقتوں کو ملک کی مقبول ترین سیاسی جماعتوں کے قائدین ناپسند ہیں۔

انہیں اپنی اس غلامی پر بھلے ہی فخر ہو مگر پاکستان کی عوام کے ووٹ کے ذریعے اقتدار حاصل کرنے والوں کو اس پر یقینن شرمندگی محسوس ہوگی۔ کیا پاکستان کے اقتدار کا فیصلہ واقعی انہیں طاقتوں کی ایما پر ہوتا ہے؟ اگر ہاں تو پھر یہ روز روز انتخابات کا ڈرامہ رچا کے قوم کے اربوں روپے اور انتہائی قیمتی وقت کا ضیاع کیوں کیا جاتا ہے۔ اس سے تو بہتر ہے جس سے دل بھر جائے یا جو آپ کے مفادات کے تحفظ میں ناکام ہو جائے نیا گڈا لا کر کرسی پہ بٹھا دیں کام تو اس نے آپ ہی کی مرضی اور منشاء کے حساب سے کرنا ہے۔ اور اگر واقعی پاکستان کی ترقی و خوشحالی اور استحکام کی خواہش ہے تو خدارا عوام کو اپنے نمائندے چننے کا آزادانہ، منصفانہ اور غیرجانبدارانہ موقع فراہم کریں اور کسے قبول کرنا ہے اور کسے نہیں اس کا فیصلہ پاکستانی عوام پر چھوڑ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).