قانون کا درخت اور ہماری خود رو جھاڑیاں


ساہیوال واقعے میں بہت سے الجھاؤ پیدا ہو گئے ہیں۔ اس واقعے کے بعد سی ٹی ڈی کے طریقہ کار، حکومت کی کارکردگی اور ریاست کی عمل داری پر بنیادی نوعیت کے سوال اٹھے ہیں۔ اس کی ایک اہم وجہ یہ رہی کہ مذکورہ کارروائی دن کی روشنی میں وسطی پنجاب کی ایک بارونق سڑک پر کی گئی جہاں اتفاق سے موجود عینی گواہوں نے وڈیو اور تصویریں بنا لیں۔ سوشل میڈیا کی مدد سے جیسے جیسے اس واقعے کی پرتیں کھلتی گئیں، عوام کے غم و غصے میں اضافہ ہوتا گیا۔

عوام میں اشتعال کی شدت دیکھتے ہوئے حکومت کے کارپردازوں نے یکے بعد دیگرے معاملے کو ٹھنڈا کرنے کی کوشش میں ایسے متضاد بیانات دیے کہ سرکاری موقف کا کھوکھلا پن مکمل طور پر واضح ہو گیا۔ اگر یہ واقعہ لاہور سے صرف ڈیڑھ سو کلومیٹر دور نیشنل ہائی وے کی بجائے ملک کے کسی دور افتادہ حصے میں پیش آیا ہوتا تو ریاست نے اپنے آزمودہ ہتھکنڈوں سے اس واقعے کو ’چار دہشت گردوں کی ہلاکت اور کار سے برآمد ہونے والے مبینہ اسلحے‘ کی پامال خبر میں لپیٹ کر دفن کر دیا ہوتا۔

اس کے باوجود اس افسوس ناک واقعے کے مختلف پہلوؤں پر ایسے شکوک و شبہات پیدا کر دیے گئے ہیں کہ نہ تو کبھی مصدقہ حقائق سامنے آ سکیں گے اور نہ انصاف کے تقاضے پورے ہوں گے۔ ابھی جے آئی ٹی کی حتمی رپورٹ آنا باقی ہے لیکن تجربہ کہے دیتا ہے کہ جے آئی ٹی، جوڈیشل کمیشن اور محکمانہ انکوائری جیسے جھمیلوں سے فیصلہ کن نتائج صرف اس صورت میں سامنے آتے ہیں جب ملزمان خط اقتدار کی مخالف سمت میں کھڑے ہوں۔ کراچی کے نوجوان نقیب اللہ محسود کی موت کو ایک سال مکمل ہو گیا۔

اس ایک برس میں ہم نے خون ناحق کا حساب مانگنے والوں پر زمیں تنگ ہوتے ہوئے بھی دیکھی اور عدالت عظمیٰ میں ماورائے عدالت قتل کے بڑے ملزم (سابق پولیس افسر) راؤ انوار کی حاضری کے مناظر بھی دیکھے۔ قوم کو اس سوال کا جواب بھی نہیں مل پایا کہ ایک مہینے سے زیادہ مدت کی روپوشی کے دوران راؤ انوار کس کے سایہ عاطفت میں خیر مناتے رہے۔ سانحہ ساہیوال کے مقتولین کے بارے میں قطعی نتائج تو ایک طرف، کسی کو یہ امید بھی نہیں کہ اس دوران گوجرانوالہ میں مبینہ طور پر مارے جانے والے دو افراد کا اس واقعے سے تعلق بھی کبھی واضح ہو سکے گا یا نہیں۔ نامعلوم کن گھرانوں کے چراغ بجھا دیے گئے؟ ایسے کھردرے سوالات کو گزرتے ہوئے وقت کی دھول میں چھپانا ہمیں خوب آتا ہے۔ مناسب یہی ہو گا کہ سانحات کی ایک لامتناہی فہرست میں ایزاد ہونے والے اس حالیہ صدمے کے ذیل میں متعین سوالات اٹھانے کی بجائے وسیع تر تناظر میں کچھ نکات پر بات کی جائے۔

پاکستان کے دستور میں آرٹیکل 10 (الف) میں شہریوں کو فیئر ٹرائل کی ضمانت دی گئی ہے۔ شفاف سماعت کے اس بنیادی حق کی پاسداری کو یقینی بنانا چاہیے۔ ہمارے ملک میں پولیس کے ہاتھوں ماورائے عدالت ہلاکتوں کی تاریخ اب ساٹھ برس سے تجاوز کر چکی۔ شہریوں کو ماورائے عدالت حراست میں لے کر حبس بے جا میں رکھنا، ایذا رسانی کرنا اور قتل کرنا اسی ناشدنی روایت کی توسیع تھی جسے گزشتہ 20 برس میں پروان چڑھایا گیا ہے۔ شہریوں کے تحفظ پر مامور اداروں کی طرف سے شہریوں کی حفاظت میں یہ مجرمانہ کوتاہی نہ صرف نظام عدل کی دھجیاں بکھیرنے کے مترادف ہے بلکہ اس سے عمرانی معاہدے کی بنیادوں میں تزلزل آتا ہے۔

قوم نے دستور کی اطاعت میں ریاست کو تشدد پر اجارہ بخشا ہے تاکہ شہریوں کا تحفظ کیا جا سکے۔ اگر ریاست قانون کو بالائے طاق رکھتے ہوئے امانت کے طور پر بخشی گئی طاقت کو شہریوں ہی کے خلاف استعمال کرتی ہے تو ریاست کی اساس ہی ختم ہو جاتی ہے۔ اس جرم میں ہماری منتخب اور غیر منتخب حکومتیں یکساں طور پر شریک رہی ہیں۔ غیر معمولی حالات کو جواز بنا کر قانون کی رٹ ختم کی گئی ہے۔ جاننا چاہیے کہ ملک کا کوئی ادارہ اور کوئی اہل کار قانون سے بالا نہیں ہو سکتا۔ افسوس کہ نچلی سطح پر قانون سے روگردانی کا رجحان اب اعلیٰ ترین مناصب تک سرایت کر چکا ہے۔ اس ناقابل قبول روایت سے جرائم پر قابو نہیں پایا جا سکتا بلکہ قانون کے نام پر مزید جرائم کا راستہ کھلتا ہے۔

2015 کے ابتدائی مہینوں میں انسداد دہشت گردی سے متعلقہ ذمہ داریاں ملنے کے بعد سے سی ٹی ڈی کی بیشتر کارروائیاں اخفا کے گہرے پردوں میں کی گئی ہیں۔ قانون کا مسلمہ اصول ہے کہ اخفا کی تاریکی میں نا انصافی جنم لیتی ہے۔ اگر شہریوں کو قانون پر عمل درآمد کی کارروائی تک رسائی نہیں تو قانون کے تقاضے پورے ہونے کی ضمانت نہیں دی جا سکتی۔ کراچی سے کوئٹہ تک اور لاہور سے پشاور تک، مختلف حیلوں سے شہریوں کو قانون کے تحفظ سے محروم کیا گیا ہے۔

انتظامی بندوبست کا یہ نمونہ بنیادی طور پر سیاسی مزاحمت کو کچلنے کے لئے اختیار کیا جاتا ہے۔ تاہم تجربے سے معلوم ہوا کہ اس سے دراصل معاشرے کے غریب افراد، کمزور طبقات اور پچھڑے ہوئے گروہ متاثر ہوتے ہیں۔ قانون کی خلاف ورزی کو روا سمجھنے والی حکومت شہریوں کا تحفظ نہیں کر سکتی۔ خوفزدہ اور سہمے ہوئے شہریوں پر مشتمل قوم اپنی تمدنی توانائی سے محروم ہو جاتی ہے۔ ریاست اور اس کے اعلیٰ ترین منصب دار اپنی ساکھ کھو بیٹھتے ہیں۔ ہمیں قانون پر عمل درآمد میں شفافیت کو ہر سطح پر یقینی بنانے کی ضرورت ہے۔

ہم نے مختلف اصطلاحات کو جواب دہی سے ماورا قرار دے رکھا ہے۔ کبھی ہنگامی حالات اور کبھی قومی مفاد کے نام پر سوال کو کچلا جاتا ہے۔ کبھی مذہب کو ڈھال بنایا جاتا ہے تو کبھی نظریاتی نصب العین کے نام پر شہریوں سے اظہار کی آزادی چھینی جاتی ہے۔ اب اس فہرست میں دہشت گردی کی اصطلاح بھی شامل کر لی گئی ہے۔ غضب خدا کا، دہشت گردی کے پشت پناہ عناصر دہشت گردی ہی کے نام پر شہریوں کو ان کے حقوق سے محروم کرنا چاہتے ہیں۔

دہشت گردی کی حقیقی مزاحمت ان شہریوں نے کی جو نائن الیون سے پہلے اور بعد میں دوٹوک نمونے پر دہشت گردوں کے بنیادی مفروضات کو جھٹلاتے رہے۔ پاکستان کے عوام نے ستر ہزار جانوں کی قربانی کسی ریاستی منصب دار کی فرمائش پر نہیں دی۔ پاکستان کے شہری اپنی جان ہتھیلی پر رکھ کے اس وقت بھی دہشت گردی کی مخالفت کرتے رہے جب انہیں معلوم تھا کہ کچھ طاقتور حلقے دہشت گردوں کو اثاثہ سمجھتے ہیں۔ ہمارے شہریوں کو دہشت گردی کے نام پر ان کے آئینی اور قانونی حقوق سے محروم کرنا دراصل ریاستی استبداد کے تسلسل کا ایک ڈھنگ ہے۔ اس کی حمایت نہیں کی جا سکتی۔

ذرائع ابلاغ کی آزادی کچھ حلقوں کو بے طرح کھٹک رہی ہے۔ عبدالولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کا قتل ہو یا کراچی میں نقیب اللہ محسود کا ماورائے عدالت قتل، قصور کی کم سن بچی کا قتل ہو یا ساہیوال میں حالیہ سانحہ، ذرائع ابلاغ نے قوم کے احساس اور شعور کو بیدار کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا ہے۔ جاننا چاہیے کہ میڈیا پر قدغن لگا کر ملک میں جمہوریت کو استحکام دیا جا سکتا ہے اور نہ قانون کی بالادستی کو یقینی بنایا جا سکتا ہے۔ مگر یہی تو بنیادی سوال ہے۔ کیا ہم واقعی جمہوریت کے استحکام اور قانون کی بالادستی میں دلچسپی رکھتے ہیں۔ جسٹس رستم کیانی ایسے موقع پر کہا کرتے تھے ’ملک پنچایتی نظام کی طرف جا رہا ہے، آپ بھی اس کے ساتھ ہو لیں۔ میں البتہ یہیں بیٹھنا چاہوں گا‘ ۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).