وزیر اعظم کی بے بسی اور تضاد بیانی


اتوار کو میانوالی میں نمل کالج کے چھٹے کانووکیشن سے خطاب کرتے ہوئے وزیر اعظم عمران خان کی باتیں تضاد بیانی، بے بسی اور جارحیت کا عجیب و غریب آمیزہ تھیں۔ تحریک انصاف کے چئیرمین کو خود غور کرنا چاہئے کہ حالیہ سیاسی قیادت کے علاوہ ماضی کے قائدین کی سیاسی جد و جہد اور ورثہ کو مسترد کرتے ہوئے وہ ملک میں کون سی نئی سیاسی روایت قائم کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔ عمران خان کے بارے میں یہ بات عام طور سے جانی جاتی ہے کہ وہ خود پسندی کا شکار ہیں۔ کرکٹ کیپٹن کے طور پر سرخروئی ہو، اپنی والدہ کی یاد میں شوکت خانم کینسر اسپتال کا منصوبہ ہو یا نمل یونیورسٹی کا قیام ، عمران خان نے ان سب کامیابیوں کا ذکر یوں ہی کیا ہے جیسے کرکٹ میں کامیابی حاصل کرنے والے وہ دنیا کے واحد کھلاڑی ہوں یا کسی فلاحی منصوبہ کا خیال ان سے پہلے کسی کو نہیں آیا۔ تاہم اب وہ ملک کے وزیر اعظم ہیں۔ ان کے لئے بہتر ہو گا کہ اس ملک کی تعمیر و ترقی میں کردار ادا کرنے والے لوگوں اور لیڈروں کا ذکر کرتے ہوئے ، وہ خود کو بڑا ثابت کرنے کے لئے اپنے احساس کمتری کا مظاہرہ ترک کردیں۔ دوسروں کی قومی خدمت کو تسلیم کرکے ہی وہ اپنی عزت میں اضافہ کرسکتے ہیں۔

خاص طور سے یونیورسٹی کے طالب علموں سے خطاب کرتے ہوئے وہ جب ملکی سیاست کو موضوع گفتگو بنانا ضروری سمجھتے ہیں اور اپنی کامیابی اور نیک نیتی کو واضح کرنے کے لئے دوسروں کو کم تر ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو یہ نئی نسل کے سامنے ایک منفی رویہ کا مظاہرہ ہے۔ گزشتہ روز انہوں نے یہی رویہ اختیار کیا ہے اور مسلم لیگ (ن) اور پیپلز پارٹی کی قیادت کو موروثی اور آمریت کی پیدا وار قرار دیا۔ اس طرز تکلم میں سب سے تکلیف دہ پہلو یہ ہے کہ عمران خان ملک کے وزیر اعظم کے طور پر طالب علموں سے بات کرتے ہوئے، جوش خطابت میں یہ بھول گئے کہ وہ سیاست دان کے علاوہ ملک کے سب سے بڑے انتظامی عہدہ پر فائز ہیں۔ وزیر اعظم اور جمہوری لیڈر کے طور پر ، وہ صرف تحریک انصاف کے حامیوں کے لیڈر نہیں ہیں بلکہ ان لوگوں کی ضرورتوں اور سیاسی رائے کا احترام کرنا بھی ان پر لازم ہے جنہوں نے تحریک انصاف کے علاوہ دوسری پارٹیوں کو ووٹ دیئے تھے۔

عمران خان کو جمہوری لیڈر ہونے کے طور پر اس بات کا احساس ہونا چاہئے کہ جس طرح وہ کل اپوزیشن میں تھے لیکن پھر بھی ان ووٹروں کے نمائیندے کے طور پر احترام اور اپنی رائے اسمبلی میں پہنچانے کا حق رکھتے تھے جنہوں نے انہیں اپنی نمائیندگی کے لئے منتخب کیا تھا۔ اسی طرح اب انہیں ان سیاسی نمائیندوں کے اس جمہوری حق کا احترام کرنا چاہئے جو تحریک انصاف کے ایجنڈے سے مختلف رائے رکھتے ہوئے منتخب ہوکر قومی یا کسی صوبائی اسمبلی تک پہنچے ہیں۔

عمران خان جمہوریت کے نام پر ہی مرکز اور پنجاب میں حکومت کرنا اپنا حق سمجھتے ہیں حالانکہ ان کی پارٹی کو قومی اور صوبائی اسمبلی میں واضح اور فیصلہ کن اکثریت حاصل نہیں ہے۔ ان کی حکومتیں آزاد ارکان یا چھوٹے سیاسی اتحادیوں کے رحم و کرم پر کھڑی ہیں۔ عمران خان کو باور کرنا چاہئے کہ ان کی اور ان کے سیاسی ساتھیوں کی سخت کلامی سے ان کی بدحواسی کے علاوہ اب تحریک انصاف کے احساس ناکامی کا اظہار ہونے لگا ہے۔ ملکی سیاست کی اونچ نیچ سمجھنے والے تحریک انصاف کےحامی اور مخالف یکساں طور سے موجودہ حکومتوں کو کامیاب ہوتے دیکھنا چاہتے ہیں۔ یہ کامیابی دراصل ملک کے کمزور جمہوری نظام کی کامیابی سمجھی جارہی ہے۔ کمزور حکومت کے خلاف سازش کرنے اور اسے گرانے کی کوشش سے ایک خاص پارٹی کے علاوہ ملک میں جمہوری انتظام کو بھی شدید نقصان پہنچ سکتا ہے۔

 ملک کی غیر جمہوری قوتیں ماضی میں سیاسی لیڈروں اور پارٹیوں کی ناکامی کو نظام کی ناکامی میں تبدیل کرنے میں سرگرم رہی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد بار ملک کا آئین منسوخ یا معطل کیا گیا اور اتنی ہی بار ملک کی اعلیٰ ترین عدالتوں نے اس ناجائز فیصلہ کو ’وقت کی ضرورت‘ قرار دے کر ملک میں جمہوری روایت کو پامال کیا ہے۔ ملک کی سیاسی جماعتوں اور لیڈروں کو مسلسل جمہوری نظام کو کمزور کرنے کا طعنہ دیا جاتا ہے ۔یہ الزام کسی حد تک درست بھی کہا جاسکتا ہے کیوں کہ ملک کے مختصر سیاسی ادوار میں ان لیڈروں اور جماعتوں نے جمہوریت اور سیاسی لیڈروں پر اعتبار کو پختہ کرنے کی بجائے اس تاثر کو مضبوط تر کیا ہے کہ سیاسی لیڈر ملکی انتظام چلانے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔

تاہم اس وقت تحریک انصاف اقلیت میں ہونے کے باوجود اگر مرکز اور پنجاب میں حکومت چلانے میں کامیاب ہے تو اس کی بنیادی وجہ اس پارٹی کے سیاسی انقلابی اقدامات نہیں ہیں بلکہ اس کی ایک وجہ اسی ’ایک پیج والی قوت‘ کی سرپرستی ہے جو ابھی تک حوصلہ مندی سے تحریک انصاف کو تجربے کرنے کا موقع دے رہی ہے تاکہ وہ امور حکومت سے آشنا ہوجائے اور نظام کسی نہ کسی طرح چلتا رہے۔ البتہ اس کی دوسری بڑی وجہ اپوزیشن پارٹیوں کا یہ اعتراف حقیقت بھی ہے کہ موجودہ حکومت کی غلطیوں اور ناکامیوں کے باوجود ، اسے اپنی مدت پوری کرنی چاہئے تاکہ ملک کا بھلا برا جمہوری نظام کام کرتا رہے۔ اپوزیشن پارٹیوں میں باہمی اختلافات بھی موجود ہیں اور ان میں سے بعض عناصر ’طاقت کے مراکز‘ کی نظر التفات کے منتظر بھی ہوں گے لیکن اس کے باوجود اپوزیشن کی سیاسی قیادت کی اس وسیع النظری کو یک سر مسترد نہیں کیا جاسکتا کہ وہ نظام کی خاطر تحریک انصاف کی کمزوریوں کو نظر انداز کرتے ہوئے اسے اپنی مقررہ مدت پوری کرنے کا موقع دینا چاہتی ہے۔

 اس لئے ضروری ہوگا کہ تحریک انصاف اور اس کے لیڈر خود بھی خوف کا شکار نہ ہوں اور ان اندیشوں سے باہر نکلیں کہ مخالف سیاست دانوں کو نیچا دکھانے کا واحد طریقہ انہیں مقدمات میں الجھانا اور ان کے خلاف تلخ اور سخت بیان بازی کرنا ہی ہے۔ عمران خان کو معلوم ہونا چاہئے کہ اقتدار سنبھالنے کے بعد اب یہ ان کی حکومت اور پارٹی کا فرض ہے کہ وہ ملک میں بہتر سیاسی ماحول پیدا کرنے ، احترام کا ماحول قائم کرنے، جمہوری اداروں کو مضبوط بنانے کو اجتماعی ذمہ داری سمجھنے اور اپوزیشن کو اسمبلیوں میں کام کرنے کا موقع فراہم کرنے کا اہتمام کرے۔

تصادم سے گریز حکومت اور برسر اقتدار پارٹی کی سیاسی کامیابی کے لئے اہم ہوتا ہے لیکن اگر وہ استحکام کی بجائے انتشار اور مفاہمانہ طرز عمل کی بجائے جارحانہ پیرایہ بیان اور رویہ اختیار کریں گے تو اس کا خود ہی نقصان اٹھائیں گے۔ ان پر ہر دم اپنی معمولی اکثریت کے خلاف ہونے والی ’سازشوں ‘ کا اندیشہ لاحق رہے گا اور اس اضطراری کیفیت میں ان کی حکومتیں نتائج دینے میں ناکام رہیں گی۔ یہ ناکامی ایک طرف مستقبل میں تحریک انصاف کی انتخابی کامیابی کا راستہ مسدود کرے گی تو دوسری طرف غیر جمہوری قوتوں کو کوئی انتہائی اقدام پر آمادہ کرسکتی ہے۔ کوئی بھی سیاسی پارٹی اقتدار حاصل کرنے کے بعد اگر توقعات پر پورا اترنے میں کامیاب نہ ہو تو غیر تو کیا اپنے بھی بیگانے ہونے لگتے ہیں۔

نمل کالج میں عمران خان کی تقریر سیاسی مخالفین کے خلاف جارحانہ ہونے کے علاوہ ان کی بدحواسی کا نمونہ بھی تھی اور اس سے یہ تاثر بھی ملتا ہے گویا وزیر اعظم اپنی ناکامی کا اعلان کررہے ہوں۔ ورنہ انہیں طالب علموں کے سامنے یہ ’اعتراف‘ کرنے کی کیا ضرورت تھی کہ وہ اسمبلی میں تقریر نہیں کرسکتے کیوں کہ اپوزیشن انہیں بات کرنے کا موقع نہیں دیتی۔ کسی قائد ایوان کے لئے اس سے بڑی توہین کی اور کیا بات ہوسکتی ہے کہ وہ اسی ایوان میں بات کرنے سے خود کو عاجز محسوس کرتا ہو جس سے ووٹ لے کر وہ ملک کے سب سے بڑے عہدے تک پہنچا ہے۔

اسی بدحواسی میں خود کو جمہوریت کی ’پیداوار‘ ثابت کرنے کے لئے انہوں نے شہباز شریف سے لے کر آصف زرادری تک کو ہدف تنقید بنایا۔ حتی کہ وہ ملک کو متفقہ آئین دینے کا کارنامہ سرانجام دینے والے ذولفقار علی بھٹو پر بھی طعن زنی سے باز نہیں آئے۔ عمران خان نے کہا کہ بھٹو کو ایوب خان نے وزیر خارجہ بنایا تھا جبکہ نواز شریف کو ضیا الحق لے کر آیا تھا۔ لیکن وہ یہ بتانا بھول گئے کہ ایک دوسرے فوجی آمر ضیا الحق نے ہی بھٹو کو پھانسی دی تھی جبکہ ایک فوجی آمر پرویز مشرف نے نواز شریف کی حکومت کا تختہ الٹا تھا کیوں کہ وہ فوج کے سیاسی اختیار کے لئے خطرہ بن رہے تھے۔ ان کے برعکس خود عمران خان وزیر اعظم بننے کے بعد بھی ایوب خان کے ’سنہرے دور‘ کی مثالیں دیتے ہیں اور پرویز مشرف کی آمریت کا ساتھ دے چکے ہیں۔ اس وقت بھی ان کی حکومت کا جائزہ لیا جائے تو وہ پرویز مشرف کے ’نورتنوں‘ سے آراستہ دکھائی دے گی۔ اس بولعجبی کی وجہ تسمیہ عمران خان سے بہترکون جانتا ہوگا۔

عمران خان نے اس تقریر میں احتساب کو کامیاب جمہوریت کی کنجی قرار دیا ہے۔ لیکن حیرت ہے کہ وہ اپنے سیاسی مخالفین کی ’بدعنوانی‘ کا حساب خود کرنا چاہتے ہیں جبکہ اپنی حکومت کو احتساب کے لئے عوام کی عدالت میں پیش کرنے کی بات کرتے ہیں۔ عمران خان یہ بات سمجھ کر ہی کامیاب ہو سکتے ہیں کہ سیاست دانوں کا احتساب کرنے کا حق عوام کو ہی حاصل ہے۔ قانونی کارروائیوں کے ذریعے ہراساں کرنے کا طریقہ جمہوریت کی اساس کے خلاف ہے۔  

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2772 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali