پی ٹی آئی کام کب شروع کرے گی؟


کیا پاکستان تحریک انصاف اور وزیر اعظم عمران خان کو احساس ہے کہ وہ اب تک عوام کی توقعات پر پورے نہیں اترے اور وقت تیزی سے ان کے ہاتھ سے نکلتا جا رہا ہے؟

ان کو یہ تو معلوم ہی ہوگا کہ سابقہ حکومتوں کے دوران اپنی باتوں اور دعوٶں کی وجہ سے انہوں نے خود سے وابستہ عوامی توقعات بلند ترین سطح تک پہنچانے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے اور اب ان توقعات پر پورا اترنے کے لیے انہیں اور ان کی ٹیم کو مثالی حکمرانی اور کارکردگی دکھانا ہوگی۔

پی ٹی آئی کو معلوم ہونا چاہیے کہ حکمرانی میں مثبت تبدیلی اوربہتری لانے میں اس کی ناکامی صرف اس کے لیے ہی نہیں بلکہ یہ ملک میں جمہوریت اور پرامن سیاسی تبدیلی کے امکانات کے لیے بھی خطرناک تضمنات رکھتی ہے۔

اس حکومت کی ناکامی کا مطلب یہ ہوگا کہ پی ٹی آئی کے حامی نوجوانوں کی بہت بڑی تعداد جمہوری تبدیلی سے مایوس اور دست بردار ہوکر انتہاپسندی کی راہ پر گامزن ہو جائے گی۔ یہ ایک تباہ کن پیش رفت ہوگی۔

خان صاحب مانیں یا نہ مانیں ان کے بلند باہنگ دعوٶں اور ان کے نتیجے میں اونچے عوامی توقعات سے شروع ہونے والی پی ٹی آئی حکومت ابھی تک کسی بھی کارکردگی اشاریے پر سابقہ حکومتوں سے خود کو مختلف اور اچھی دکھانے میں ناکام ثابت ہوئی ہے۔

ٹیکس اور بر آمدات میں اضافہ اور معیشت کی بہتری کی بات ہو، پولیس کو سیاست سے پاک کرنے اور دیگر اصلاحات کا معاملہ ہو، صحت اور تعلیم کو بجٹ میں زیادہ رقم اور ترجیح دینے کی بات ہو، پارلیمنٹ میں قانون سازی ہو یا اپنی پارٹی میں نچلی سطح تک جمہوریت رائج کرنے کا معاملہ، بیرونی قرض کا حصول ہو یا انڈیا سے تعلقات، سیاسی مخالفین کے بجائے سب کے بے لاگ احتساب کا اصول ہو یا حکومتی وزرإ اور حکومتی پارٹی سے وابستہ ملزمان کے خلاف میرٹ پر قانونی کارروائی کا معاملہ ہو، قابلیت اور ایمانداری کے بجائے محض پارٹی سربراہ کے ذاتی دوستوں میں حکومتی عہدے بانٹنے کی بات ہو یا اپنے منشور پر عمل درآمد کا معاملہ، چہیتے وزیروں مشیروں کی فوج بنانا ہو یا سربراہ حکومت کے بیرونی دوروں کا معاملہ یا وزیر اعظم اور وزرإ کی جانب سے پارلیمان کی توقیر اور اس میں باقاعدہ حاضری کی بات ہو، ان سب اوردیگر کارکردگی اشاریوں پر حقیقت یہ ہے پی ٹی آئی حکومت کی تاحال کارکردگی سابقہ حکومتوں کا تسلسل بلکہ بعض مدات میں تو ان سے بھی مایوس کن رہی ہے۔

خیال یہ تھا کہ پی ٹی آئی نے اصلاحات کا ایک جامع پیکج اور ایک مثالی حکومتی ٹیم تیار کی ہوئی ہے۔ قوم سے اپنی پہلی اور دوسری تقریر میں بھی عمران خان نے بہت اونچے اونچے ارادوں اورمقاصد کا اعلان کیا لیکن ابھی تک اس حکومت کی کارکردگی اپنے اعلانات اور عوامی توقعات کے برعکس کافی فروتر رہی ہے۔

اس حکومت کی خوش قسمتی کہ ہیئت مقتدرہ بھی مکمل طور پر اس کی پشت پر کھڑی ہے اور حزب اختلاف بھی موجودہ حکومت کو عوامی احتجاج سے زچ کرنے کے کئی مواقع ملنے (مثلاً تحریک لبیک کے دھرنے، ساہیوال سانحے، روپے کی قدر میں کمی، مہنگائی میں اضافہ، پاک پتن پولیس مداخلت، اعظم سواتی معاملہ، علیمہ خانم اثاثہ جات وغیرہ) کے باوجود پی ٹی آئی کے اپوزیشن والے طرزعمل کے برعکس ان معاملات پر سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے مجتنب رہی اور حکومت کو موقع دینا چاہتی ہے لیکن اگر حکومتی کارکردگی یوں مایوس کن جاری رہی تو ہیئت مقتدرہ بھی جلد ہی مایوس ہو سکتی ہے اور حزب اختلاف بھی اس کے خلاف میدان میں نکل آئے گی۔

پی ٹی آئی خیبر پختونخوا، پنجاب اورمرکز میں موجودہ حکومتی ٹیم اور کارکردگی کے ساتھ عوامی توقعات پر پورا نہیں اتر سکی اوران ٹیموں میں تبدیلی ناگزیر ہوچکی۔

یہ کوئی سیاسی دانائی نہیں کہ نا اہل ثابت شدہ وزرإاعلیٰ اور وزرإ کی حمایت جاری رکھی جائے اور انہیں موجودہ حکومت کی رہی سہی ساکھ بھی ملیامیٹ کرنے کا موقع دیا جائے۔ سچ پوچھیں تو خان صاحب کے لیے یوٹرن تو اس معاملے میں ہی لینا بنتا ہے۔

کیا یہ امر حیران کن نہیں کہ پنجاب پولیس ریفارمز کے لیے لائے گئے ناصر درانی نے جب ایک قابل اور نیک نام آئی جی پنجاب محمد طاہر کو پنجاب حکومت کی طرف سے ہٹائے جانے کے بعد استعفٰی دیا تو کسی نے انہیں منانے اور عدم مداخلت کی یقین دہانی کرواکر واپس لانے کو کوشش ہی نہیں کی کہ جیسے سب بس ان سے جان چھڑانے کے انتظار میں تھے۔

وزیر اعظم ہوں یا پی ٹی آئی کے وفاقی اور صوبائی وزرإ، ابھی تک سابقہ حکومتوں پر تنقید اور اپوزیشن کو غیر ضروری الزامات لگا کر اکسانے کا کام ہی کرتے رہے ہیں۔ کیا حکومت کے لیے اپوزیشن سے معمول کے تعلقات رکھنا بھی گناہ ہیں؟ اور اگر یہ ”چوروں اور ڈاکوٶں“ سے میل ملاپ اور سمجھوتے کے مترادف ہے تو پھر پنجاب میں وہاں کے ”سب سے بڑے ڈاکو“ اور کراچی کے ”دہشت گرد گروہ“ سے سیاسی اتحاد چہ معنی دارد؟

یہ کوئی قابل فخر بات نہیں کہ پی ٹی آئی اور اس کی وفاقی اور پنجاب حکومتیں ساہیوال سانحے میں زیادتی کے مرتکب اعلیٰ پولیس افسران کے خلاف ایکشن لینے کے بجائے مظلوم مقتولین کے خلاف ہی بے بنیاد پروپیگنڈہ میں مصروف ہیں۔

وزیر اعظم ہاٶس، گورنر ہاٶسز اور صدر ہاٶس چھوڑنے، بیرونی دورے نہ کرنے اور قرضے نہ لینے جیسے بلند باہنگ دعوے کیے گئے جن کی بعد میں دھڑلے سے خلاف ورزی کی گئی۔ اب کھلے بندوں اعتراف کیا جائے کہ ماضی میں ان محلات کے پر تعیش استعمال کے حوالے سے مخالفین پر تنقید غیر ضروری اور مبالغہ آمیز تھی۔ ان اثاثوں سے فائدہ لیا جانا چاہیے اور ہم بھی ان سے استفادہ کریں گے۔

اگر اپنے قریبی دوستوں کو سرکاری عہدے دینا اِن کے لیے درست ہے تو پھر یہ بھی اعتراف کیا جائے کہ مخالفین پر عہدوں کی بندر بانٹ، دوست نوازی اور اقرباپروری کے الزامات لگانا غلط تھا۔

اور اب اگر آئی جی پنجاب محمد طاہر کو مبینہ طور پر وزیر اعظم کا کہا نہ ماننے، آئی جی اسلام آباد کو ایک وزیر کا فون نہ اٹھانے اور ڈی پی او پاکپتن کو ایک چہیتے کے ڈیرے پر جاکر معافی نہ مانگنے پر عہدے سے ہٹانا درست ہے تو پھر پی ٹی آئی اور عمران خان نے آخر کیوں ماضی میں پولیس افسران کو حکومت وقت کی غلامی کرنے کے طعنے دیے اور انہیں حکومت کے احکام بجا لانے اور ڈیوٹی کرنے پر سڑکوں پرگھسیٹنے کی دھمکیاں دیں؟ کیا اس حوالے سے بھی انہیں معافی نہیں مانگنی چاہیے؟

جب تحریک لبیک نے سڑکیں بند کیں تو خان صاحب نے درست کہا کہ ریاست اپنی رٹ قائم کرے گی اور کسی کو بھی راستے بند کرنے کی اجازت نہیں دے گی۔ لیکن اس سے پہلے تو انہوں نے خود مہینوں سڑکیں بند کی تھیں، ریڈ زون میں دھرنے دیے تھے، عوام کو بل نہ دینے، ہنڈی استعمال کرنے، ٹیکس نہ دینے اور سول نافرمانی شروع کرنے کی ترغیب دی تھی۔ کیا وقت نہیں آیا کہ ان حوالوں سے بھی قوم سے معافی مانگی جائے اور آئندہ ایسا نہ کرنے کا عہد کیا جائے؟

سربراہ حکومت کے لیے مخالفین کی غمی شادی میں شرکت کرنا اور تجربہ کار ماہرین اور اپنے پیش رو مخالفین سے رابطے برقرار رکھنا اور ان سے مشورے لینا لازم ہوتے ہیں لیکن ان حوالوں سے بھی عمران خان صاحب کوئی قابل فخر مثال قائم نہیں کر سکے حتیٰ کہ آپ اپنے پیش رو نواز شریف کی شریک حیات کی وفات پر بھی ان سے با المشافہ مل کر یا فون پر تعزیت کرنے سے مجتنب رہے۔ سربراہ کو فراخ دل اور تعصبات سے بلند ہونا چاہیے۔

خان صاحب ہوں یا کوئی اور، ملک کو درپیش مسائل حل کرنا کسی ایک فرد اور پارٹی کے بس میں نہیں۔ یہ اعتراف جتنا جلد ہو بہتر ہوگا۔ میں تو کہوں گا خان صاحب سب سیاسی مذہبی جماعتوں اور ماہرین کو خود باضابطہ دعوت دیں کہ آئیے حکمرانی اور معیشت کی بہتری کے لیے ہمیں تجاویز اوررہنمائی دیں۔ بلکہ سب پارٹیاں ماضی میں کی گئیں غلطیوں کے اعترافات اور معیشت و حکمرانی میں درکار اصلاحات پر مشتمل ایک دس سالہ میثاق پر بھی اتفاق رائے پیدا کر لیں۔

عمران خان کو اگر احتساب اور انصاف کرنا ہی ہے تو آغاز اپنے وزرإ سے کریں اور سابقہ حکومتوں کی طرح اسے اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف ہتھکنڈے کے طور پر استعمال کرنے کا تاثر پیدا نہ کریں۔

پی ٹی آئی یاد رکھے کہ سیاست میں دوسروں سے تعاون کرنا یا لینا پڑتا ہے۔ چنانچہ اپنے سیاسی مخالفین کے خلاف وہ زبان استعمال نہیں کرنی چاہیے جس کے بعد ان کے ساتھ تعاون کرنا یا لینا یا اتحاد وغیرہ کرنا ناممکن ہو جائے یا اگر ممکن ہو توگالی اور طعنہ بن جائے۔

مان لیں کہ اپنے سیاسی مخالفین کو چور، ڈاکو، لٹیرا وغیرہ کہنا اور ان پر ملک دشمنوں سے ساز باز کرنے کا الزام لگانا غلط تھا۔ ان سب سے معافی مانگ لیں اور اپنے پیروکاروں کو بھی اس عمل سے منع کر دیں۔

پی ٹی آئی پیپلز پارٹی کی سندھ حکومت کے درپے تھی لیکن سپریم کورٹ نے اس کو روک دیا۔ جمہوریت اور آزادی رائے اپنی مرضی کے رہنما کے انتخاب اور اس کی حمایت کی اجازت و موقع کے بغیر کچھ بھی نہیں۔ اس لیے صرف اپنی ہی پارٹی کا عوامی مینڈیٹ ماننا اور اپنے مخالفین کا تسلیم نہ کرنا مناسب اور جمہوری طرزعمل نہیں ہے۔

یہ بھی لازم ہے کہ پی ٹی آئی نوجوانوں کے سامنے خود کو ایک انقلابی اور فوری ”عوامی انصاف“ کی علم بردار تنظیم کے طور پر نہیں بلکہ آئین و قانون کے تحت پرامن اور مرحلہ وار سیاسی اصلاح کے لیے کوشاں تنظیم کے طور پرمتعارف کروائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).