اخباری وارداتیں اور حقائق کی گمشدگی


مارشل لاء حکومت کے صوبائی گورنر جو ایک سرونگ جنرل بھی تھے نے نوجوان کپتان کو ستائش بھری نظروں سے دیکھا اور اسے اپنا اے ڈی سی بننے کی ”پیشکش“ کی کپتان نے پیشکش کو والد کے مشورے سے ”مشروط“ کیا لیکن دوسرے دن والد نے جنرل کے خاندان پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا تم اس پر چھتری تانے کیسے لگو گے۔ سو دوسرے دن جنرل کو پیغام دیا گیا کہ پیشکش مسترد کردی گئی ہے۔

یہ ایک مشہور کالم نگار کے کالم کا ایک حصہّ تھا، جو کئی سال پہلے ایک قومی روزنامے میں چھپا اورجس جس صاحب عقل نے پڑھا تو سر پیٹ کر رہ گیا کہ وہ کون سی فوج ہے جس میں ایک جنرل کپتان سے درخواست کرتا ہے اور پھر حقارت کے ساتھ اسے مسترد بھی کیا جاتا ہے۔ کیونکہ پوری دنیا میں رائج دستور ہے کہ فوج میں سخت ڈسپلن کے ساتھ حکم اور تعمیل کا سلسلہ ہی چلتا ہے۔ پیشکش، والد، مشورہ اور خاندانی حوالہ نہیں چلتے۔

لیکن المیّہ یہ ہے کہ اس طرح کی صحافت اور صحافتی مسخروں سے ہمیں طویل عرصے سے واسطہ پڑا ہے سو تمام صاحب عقل اور دانش مسلسل اس طرح کے کالم اور خبریں پڑھتے اور سر پیٹتے رہ جاتے ہیں۔ دراصل بعض اوقات تیسرے درجے کی صحافت کرنے والے بعض اخبارات مقبولیت بہت حاصل کر لیتے ہیں۔ لیکن ان اخبارات کا پیشہ ورانہ معیار چونکہ انتہائی پست ہوتا ہے۔ اس لئے گھٹیا اخبار نویسی سے کام چلایا جاتا ہے۔ جس کی وجہ سے پیسہ کرپشن اور بلیک میلنگ عروج پر ہوتا ہے۔ اور یہیں سے صحافت کی آڑ میں غلاظت کا بازار گرم ہو جاتا ہے اس طرح کے اخبارات ا ور میڈیا ہاوسز اخبار نویسی کی بجائے اس منڈی کا روپ دھارنے لگتے ہیں جہاں بات گاہک اور دلال جیسی ہو جا تی ہے۔

کچھ عرصہ پہلے جب میں پشاور سے نکلنے والے صوبے بھر میں مقبول اسی طرح کے ایک روزنامے میں کالم لکھتا تھا تو مجھے اپنے قارئین کی آراء سے پتہ چلتا رہتا کہ بعض سنجیدہ لوگ بھی یہ اخبار پڑھتے ہیں اور ”پیسہ پھینک تماشا دیکھ“ ٹائپ خبروں پر نہ صرف ان کے تحفظات ہیں بلکہ اس ڈرامہ بازی سے بھی پوری طرح آگاہ ہیں جو پس منظر میں ہو رہا ہے۔ اس لئے ایک دن میں نے اخبار کے مشکوک خدوخال والے ایڈیٹر کو مشورہ دیا کہ مبالغہ آمیز خبروں اور خبر چھا پ ٹائپ لوگوں سے گریز کی پالیسی اختیار کی جائے کیونکہ طاقتور اور با اثر سوشل میڈیا اس طرح کی اخبار نویسی پر اب جھپٹ پڑتا ہے جس سے اخبار کی کریڈیبیلٹی بری طرح مجروح ہو رہی ہے۔ لیکن میری حیرت کی انتھا نہ رہی جب ایک خبیث مسکراہٹ ایڈیٹر کے چہرے پر پھیل گئی اور اس نے ایک مجرمانہ بے پروائی کے ساتھ کہا کہ چھوڑیں جی چلتا رہتا ہے۔

کچھ دن بعد ایک با خبر رپورٹر نے میرے کان میں کہا کہ آپ چپ کیوں نہیں رہ سکتے؟ پچھلے مہینے اسی ایڈیٹر کی بیٹی کی شادی کا خرچہ انھی لوگوں نے اٹھایا ہے جن کی خبروں کو آپ بے مقصد اور غیر پیشہ ورانہ سمجھتے ہو۔ میرا سا تھی یہ کہہ کر تو نیوز روم میں گھس گیا اور میں شرم اور حیرت کے سمندر میں غرق ہو گیا۔

بعض لوگ تو اس ہنر کے خصوصی ماہر سمجھے جاتے ہیں۔ اور یہ حضرات چونکہ ”برانڈ مشہوری“ کے بہت شوقین ہوتے ہیں اس لئے نہ صرف اس طرح کے اخبارات پر گہری نظر رکھتے ہیں بلکہ اس سے متعلق دوسرے معاملات کی بھی پوری جا نکاری رکھتے ہیں مثلا انہیں پتہ ہوتا ہے کہ اخبار کی سرکولیشن کیا ہے اخبار میں سب سے با اثر آدمی کون ہے فلاں رپورٹر اور فلاں کالم نگار کی ذہنی استعداد اور جذبا تی توازن کس پوزیشن پر ہے اور اس پر کتنی اور کیسی انویسٹمنٹ کر کے کام نکالا جا سکتا ہے۔ یہ بات تو مجھے بہت دیر سے سمجھ آئی کہ شہرت کی آڑ میں واردات کرنا بہت سہل ہو جاتا ہے۔

کچھ عرصہ پہلے شعبہ صحافت کے ایک پروفیسر دوست سے کہا کہ اس موضوع پر کسی طالب علم سے پی ایچ ڈی کر والیں، کم از کم سنجیدہ اخبار ی قارئین اور صحافیوں کے سامنے ایک قابل دید ریسرچ تو آجائے گی۔ پروفیسر نے میرے آئیڈیا کو سراہا بھی اور وعدہ بھی کیا کہ وہ اس تجویز کو آگے بڑھائیں گے اور بوقت ضرورت آپ سے مدد بھی لیں گے۔

کہنے کا مطلب یہ ہے کہ اس طرح کی وارداتی صحافت کا ملبہ نہ صرف تمام اہل قلم اور صحافت پر پڑتا ہے بلکہ عوامی رائے عامہ کو بھی غلط سمت میں موڑ کراجتماعی دانش اور رائے سازی کو نا قابلِ تلافی نقصان پہنچا دیتا ہے۔ لیکن بد قسمتی سے اس مکروہ عمل کو روکنے کے لئے کوئی موثر قا نو ن سازی بھی نہیں ہوئی ( کیونکہ پیمرا سے پریس کونسل تک تمام متعلقہ ادارے غنودگی کی کیفیت میں ہیں ) اور اس حوالے سے کسی نے عوامی بیداری پر توجہ بھی نہیں دی۔

میرا خیال ہے کہ سوشل میڈیا اس حوالے سے کافی حد تک موٹی ویشن کر رہی ہے اور پھر اس کی با خبری بھی غضب کی ہے سو فی الحال اسی پر ہی اکتفا کرنا پڑے گا کیونکہ ”آج“ کی صحافت ”واحد“ غلاظت بھی تو نہیں بلکہ آوے کا آوا ہی بگڑا ہوا ہے لیکن اگر صرف صحافت ہی راہِ راست پر آجائے تو میں اب بھی اپنی اس بات پر قائم ہوں کہ اس معاشرے کو درپیش مسائل میں حیرت انگیز کمی ہو سکتی ہے۔

حماد حسن
Latest posts by حماد حسن (see all)

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).