معاشرہ اور سیاستدان


میں اس معاشرے کا ایک اہم حصہ ہوں، اِس معاشرے کے ہر اچھے اور برے کے برابر کا شریک ہوں۔ اِس معاشرے میں جو ظلم، جبر، ڈاکہ زنی، ملاوٹ، طبقات کی تقسیم، لالچ، حرام خوری، فحاشی، جو کچھ بھی ہو رہا ہے میں بھی اس میں شامل ہوں۔

اس معاشرے میں امیر، غریب پر ظلم کر رہا ہے، طاقتور، کمزور پر، مالک، نوکر پر تو ڈاکٹر، مریضوں پر، ڈاکٹر تو انسانیت کے قصائی بن گے ہیں، یہاں کوئی گاڑی لے لے تو سمجھتا ہے کہ اس نے سڑک بھی خرید لی ہے، یہاں جس کا بس چلتا ہے وہ اپنی کسر نکال لیتا ہے۔ لیکن جب اِسی ملک کے حکمران ہم پر ظلم کرتے ہیں تو ہمیں اعتراض ہے کیوں؟ کیا وہ کسی مہذب معاشرے سے آتے ہیں؟ نہیں جناب وہ ہم میں سے ہی ہوتے ہیں، ہمیں اپنا کیا گیا ظلم یاد نہیں ہوتا، دوسروں کا کیا گیا ظلم یاد رکھتے ہیں، جنگل کا قانون ہے ہمارے ہاں جس کی لاٹھی اس کی بھینس۔

فحاشی کے اڈے چلتے ہیں، معاشرے کی گندگی وہاں جمع ہوتی ہے، جسم فروشی بہت سادہ سی بات سمجھی جاتی ہے، غیرت کے نام پر بہن، بیٹی، بیوی، کو قتل کرنے والے طوائف کے کمروں سے ملتے ہیں، اور پھر کہتے ہیں مجبوری ہے، کیا یہاں بھی ہمارا حکمران قصوروار ہے؟

میں سرکاری نوکری کرتا ہوں، یا کسی نجی کمپنی میں نوکری کرتا ہوں، جہاں جب مجھے موقع ملتا ہے میں گھپلا مار ہی لیتا ہوں، چوری، دو نمبری آسانی سے کر لیتے ہیں، ہم اپنے لیے آسانی پیدا کرنے کے لئے ہر غلط کام کر جاتے ہیں، کیا یہ ہمیں ایک اسلامی اور مہذب معاشرے کی تربیت نے سکھانا ہے یا یہ بھی اس ملک کے سیاستدانوں نے سکھایا ہے؟ سیاستدان نے تو کرپٹ قوم دیکھ کر، اس بہتی گنگا میں ہاتھ دھوئے، وہ تو ہمیں دیکھ کر نا اہل ہوا، آگر اسے جواب دہی کا ڈر ہوتا، تو نتیجہ مختلف قسم کا ہوتا،

نسلوں میں ہم تقسیم ہیں، ذات پات میں ہم تقسیم ہیں، کوئی راجپوت ہے، تو کوئی اعوان، تو کوئی چوہدری ہے، چھوٹی ذات والے تو صرف شادی بیاہ پے کام کے لئے ہی یاد آتے ہیں۔ ایک مذہب کے ماننے والے مختلف قسم کے فرقوں میں بٹ گئے ہیں، سُنی، شیعہ، وہابی، اہلِ حدیث، میں تقسیم شدہ لوگ ایک دوسرے کے پیچھے نماز تو کیا مسجدوں میں بھی نماز نہیں پڑھتے، اسلام کے نام پر اس ملک کے کچھ علماء عوام کے ساتھ مذاق کر رہے ہیں، جمعہ کے بیانات میں لوگوں کو دین کی باتیں بتانے کی بجائے اپنے اپنے مسلک کو درست ثابت کرنے میں لگے رہتے ہیں۔

سبزی، مصالحہ جات، دودھ، اور جانے کس کس چیز میں ملاوٹ کرنا، ہم نے خود شروع کیا ہے، نسلوں کے قاتل ہم خود ہوں، اپنے ہی ہاتھوں سے اپنے آنے والی نسلوں کو قتل کر رہے ہیں، کیا یہ اسلامی تعلیمات ہیں؟

قانون ہے ہمارے ملک میں لیکن اس ملک کی بدقسمتی یہ ہے، کہ اس ملک کی عوام تو قانون اور قانون نافذ کرنے والے اداروں کی توہین کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑتے، چوک میں کھڑے ہوئے پولیس اہلکار کو گالی ہم دیتے ہیں، لیکن خود یہ عوام، ٹریفک قوانین، کو سمجھنے سے اج تک قاصر ہے، ہر غیر قانونی کام ہم کرتے ہیں، پھر بھی پولیس بُری، کیا وہ آسمان سے گِرے ہیں؟ وہ بھی ہمارے ہی بھائی ہیں، ہم میں سے ہی لوگ اٹھ کر پولیس میں چلے جاتے ہیں۔

اس ملک میں عورت صرف گھر کا کام اور بچے پیدا کرنے کے لئے رہ گئی ہے، یہاں گھر سے باہر نکلی ہر عورت کو بد چلن اور بد کردار سمجھا جاتا ہے۔ یہاں قبائل میں عورت کو ووٹ دینے کا حق نہیں ہے۔

کہیں حوا کی بیٹی کے لئے حقوق نسواں موجود ہے تو کہیں اس پر سودے بازی ہو رہی ہے۔ حوا کی بیٹی شادی کی عمر جہیز پورا کرنے میں ہی گزار دیتی ہے۔ ہم کہنے کو تو کہ لیتے ہیں کہ ہمیں کچھ نہیں چاہیے، لیکن وقت آنے پر بھول جاتے ہیں،

اسلام کے نام پر بننے والا یہ ملک صرف نام کا ہی اسلامی ملک ہے، معاشی نظام، کپڑے، زبان، فلمیں، گانے، سب کچھ تو مغرب کا ہے، اور پیسے بھی وہیں سے آتے ہیں، اپنی ثقافت کہیں کھو گئی ہے، وہ کہتے ہیں، کہ غلام قوم کی اپنی کوئی ثقافت، روایات، نہیں ہوتیں۔ ہم اج بھی انگریز کے غلام ہیں، فرق صرف اتنا ہے کہ پہلے والے انگلستان کے انگریز تھے اور یہ والے امریکی، اس ملک نے ہر ڈکٹیٹر کو آئینی، عوامی، سیاسی، طور پر تسلیم کیا، اج جس مقدس ایوان کی بات ہوتی ہے، اسی مقدس ایوان نے ہر آمر کو قانونی طور پر تسلیم کیا، تقسیمِ ہند کے بعد انڈیا کی بھی وہی فوج تھی، تعلیم، تربیت، ہر لحاظ سے ایک جیسی فوج، لیکن وہاں تو اج تک مارشل لاء نہیں لگا کیوں؟ کیونکہ عوامی نمائندے ہی بہت طاقتور اور تربیت یافتہ ہیں سیاسی طور پر، سوال یہ ہے کہ ترکی میں لوگ کیوں فوجی باغیوں کے ٹینکوں کے اگے لیٹ گے؟ کیونکہ وہاں عوام کے نمائندے کو اہمیت زیادہ دی جاتی ہے۔

یہ تو کچھ معاشرے کے اہم اشوز تھے، جن میں براہِ راست ہم سب ملوث ہیں، تو کیا کبھی ہم نے خود اپنا احتساب کیا ہے؟ اپنے اندر کبھی جھانک کر دیکھا ہے؟ ، ہمیشہ حکمران کا ہی احتساب کیوں ہوتا ہے؟ ، ان کا قصور کیا ہے، یہی کے وہ ہمارے راہنما ہیں وہ ہمارے ووٹ سے حکمران بنتے ہیں، کیا ان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے، جو قیمے والے نان اور بریانی کی ایک پلیٹ کی خاطر ہم پر نااہل حکمران مسلط کر دیتے ہیں؟ جن کے ووٹ کی قیمت چند سو روپے ہے، کیا ان کا احتساب نہیں ہونا چاہیے جو دودھ، مصالحہ جات، پانی، گھی، تیل، میں ملاوٹ کرتے ہیں، گدھے کا گوشت فروخت کرتے ہیں؟

لیکن نہیں جی ہم سب ٹھیک ہیں صرف ہمارے راہنما، حکمران ہی غلط ہیں۔ کیا ایسا ممکن ہے کہ اس ملک میں انقلاب آ سکتا ہے؟ نہیں کیونکہ انقلاب متحد قوموں میں آتے ہیں، تقسیم شدہ قوموں میں تو صرف زوال آتے ہیں۔ یہاں تو ایک گھر سے آپ کو ہر پارٹی کا ووٹر ملے گا، ہماری اپنی کوئی سمت ہی نہیں ہے تو کیا حکومت کوئی صحیح سمت لے گی؟ ہم بحیثیت قوم، مفلوج اور معذور ہو چکے ہیں، کیا ہمارے اندر اتنی بھی اہلیت نہیں کہ پانچ سال بعد ووٹ کے لیے آئے سیاستدان سے پوچھ سکوں کہ اپ نے کیا کیا ہے؟ ہمیں حکمران اچھے چاہیں، لیکن خود جو مرضی کریں، ہم معاشی طور پر پسماندہ نہیں، ذہنی طور پر پسماندہ ہیں، یہ حکمران بھی ہم میں سے سے جانتے ہیں، ان کی تربیت بھی ہمارا معاشرہ کرتا ہے، گلی، محلے کی صفائی بھی حکومت کرائے، پھر ہم پان کی تھوک گلی کی نکروں میں، کوڑا سامنے والے چوک میں اور گرین بیلٹ کے پھول تک بھی نہیں چھوڑتے، گھر، دوکان، ہسپتال بنا کر اگے دو، تین گز بھی اپنے گھر میں شامل کر لیں گے اور جب حکومت وہ تجاوزات گرانے آتی ہے تو وہ غلط۔ ون ویلنگ ہم نے خود شروع کی۔ پولیس یا حکومت کے کہنے پر تو شروع نہیں کی تو ختم بھی ہمیں ہی کرنی ہے۔ جب تک ہم خود معاشرتی اور سماجی طور پر ٹھیک نہیں ہوں گے، تو معاشرے میں ایسے لوگ پیدا ہوتے رہیں گے، جو قیمے والے نان، بریانی کی پلیٹ، کی خاطر اپنا ووٹ بیچتے رہیں گے، اور بھٹو کی تصویر، ووٹ کو عزت دو، احتساب اور تبدیلی، کو ہم پر مسلط کرتے رہیں گے۔

میرا مقصد سیاستدانوں کی مکمل حمایت نہیں ہے، میں اپنے محدود علم سے یہ نتیجہ اخذ کر رہا ہوں ک جب تک اس ملک کی عوام، لوگ اور معاشرہ ٹھیک نہیں ہوں گے، حکمران کبھی نہیں بدل سکتے، ہر چیز حکومت کے ٹھیک کرنے والی نہیں ہوتی، بہت کچھ ایک ایک فرد یا قوم بن کر ٹھیک کر سکتے ہیں، پھر اس ملک کے حمکران بھی سنجیدہ ہو جائیں گے۔

جو قوموں خود اپنا احتساب نہیں کیا کرتیں، ان کا احتساب وقت اور زمانہ کرتا ہے پھر وہ قومیں تباہی کی طرف جاتی ہیں خوشحالی اور انقلاب کبھی اس قوم میں نہیں آتے۔ اگر ہم اپنے اپ کو ٹھیک کر لیتے ہیں، تو کسی پولیس کی ہمت نہیں کہ روڈ پر چار لوگوں کو دہشت گرد کہ کر مار دے، کیسی مسیحا کی ہمت نہیں کہ وہ غریب کے جعلی بنک اکاؤنٹ میں چوری کے پیسے رکھ، کر کہے کہ ثابت کرو کہ یہ میں نے رکھوائے ہیں، کسی کی ہمت نہیں کہ وہ کہے کہ اگر میرے اثاثے میری آمدنی سے زائد ہیں تو تمہیں کیا، کسی کی ہمت نہیں کہ وہ کہے کہ مجھے کیوں نکالا؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).