عمران خان کو ناکام کرنے کے لئے سیاسی اتحاد اور عوام


رائج الوقت سیاسی نظام میں اعداد و شمار کو بڑی اہمیت حاصل ہے کہ جس کسی سیاسی جماعت کے پاس زیادہ نشستیں ہوں وہ ”بادشاہ“ اور جس کو کم نشستیں حاصل ہوں وہ اقتدار سے محروم ہو جاتی ہے!

پی ٹی آئی کو عام انتخابات میں چونکہ دونوں بڑی سیاسی جماعتوں پی پی پی اور مسلم لیگ نون سے زیادہ نشستیں مل گئیں لہٰذا اس نے حکومت قائم کر لی اور اپنا کام شروع کر دیا مگر اس کی مخالف جماعتیں تنقید کر رہی ہیں کہ وہ امور مملکت چلانے میں مہارت نہ رکھنے کی بنا پر مزید مسائل کو جنم دے رہی ہے۔ معیشت کو سنبھال نہیں پا رہی انتظامی معاملات میں بھی اس کو کچھ سمجھ نہیں آ رہی جس کے نتیجے میں عوام میں بے چینی بڑھنے لگی ہے اور وہ پریشان ہوتے جا رہے ہیں لہٰذا وہ ایک اتحاد کے ذریعے حکومت کو متحرک کرنا چاہتے ہیں اگر وہ پھر بھی صورت حال کو جوں کا توں رکھتی ہے تو وہ اسے ”ہلا جلا“ بھی سکتے ہیں۔

 بہت اچھی سوچ رکھتی ہیں یہ جماعتیں اور ان کے سربراہان ۔ ان کا حق بھی ہے کہ وہ اتحاد کریں حکومت کو عوامی مفادات کے برعکس عمل پیرا ہونے سے روکنے کی اپنی آئینی و قانونی کوشش کریں مگر وہ یہ کیوں نہیں بتاتیں کہ ان کے خلاف احتساب کا شکنجہ جو روز بروز تنگ ہوتا جا رہا ہے اس سے بھی محفوظ رہنے کی خاطر انہیں بغلگیر ہونا پڑا ہے کیونکہ کہتے ہیں کہ اتفاق میں بڑی برکت ہے لہٰذا وہ یک جان ہو کر عمران خان کے ”ہتھکنڈوں“ کا مقابلہ کرنا چاہتی ہے اور جونہی انہیں یہ یقین ہو جائے گا کہ وہ اکثریت میں ہیں اس انصاف پسند حکومت کو چلتا کریں گی۔

بات سمجھ سے باہر ہے کہ وہ یہ کیسے طے کر چکی ہیں کہ انہیں دوبارہ اقتدار مل سکتا ہے جس سے انہیں اپنے اعمال کی بنا پر محروم ہونا پڑا اربوں کھربوں کی اڑانیں اڑ یں جو یورپ و مغرب میں جا بیٹھیں شاہی نظم و نسق اور طرز بودو باش سے لطف اٹھایا گیا اب تفصیل سے بتانا ضروری نہیں سماجی رابطے کی ویب سائٹس میں طوفان برپا ہے ان کے ادوار کے حالات و واقعات کا ۔ اب جب پی ٹی آئی کی حکومت معیشت و معاشرت کو سدھارنے کی جانب بڑھ رہی ہے تو اسے روکنے کی حکمت عملی اختیار کی جا رہی ہے۔

شور مچایا جا رہا ہے کہ اگر یہ حکومت رہتی ہے تو ملک کا بیڑہ غرق ہو جائے گا ان سے پوچھا جا سکتا ہے کہ کیا وہ ”بیڑہ تار“ کر گئے تھے۔ انہوں نے تو پورے ملک کو ایک طرح سے عالمی مالیاتی اداروں کے ہاتھوں یرغمال بنا کر رکھ دیا تا کہ وہ اقتدار میں تاحیات رہ سکیں ۔ قصے کہانیاں بے شمار زبان زد عام ہیں مگر اب وقت عمل کا ہے جو جیسے بھی ہو رہا ہے ۔ بس یہ بات اکثر اپنے کالموں میں کہتا ہوں کہ ان دو جماعتوں نے ایک ایسا کلچر پیدا کیا جو قانون کو خاطر میں ہی نہیں لاتا تھا۔ سینہ زوروں کو تقویت ملی لینڈ مافیا نے خوب عوام کی کھال ادھیڑی اب بھی وہ سلسلہ جا رہی ہے مگر ذرا رُک رُک کر ۔ جعل ساز و قبضہ گروپوں نے خوف و دہشت پھیلائے رکھی، سرکاری اراضی کو بغیر کسی رکاوٹ کے ہتھیایا گیا اور بھتہ خوری کا رواج عام ہوا ۔

ایسے مسائل نے عوام کو کیسے خوشحال ہونے دینا تھا لہٰذا وہ آنسو بہانے پر مجبور ہو گئے ۔ اب بھی ایسا ہو رہا ہے کیونکہ پی ٹی آئی دو دھڑوں میں تقسیم ہے ایک وہ ہے جو چند برس پہلے شمولیت اختیار کرنے والوں پر مشتمل ہے اور بڑی حد تک عمران خان کے خیالات سے متفق ہے اور اصلاحات کا خواہاں ہے مگر دوسری جانب موقع پرست ہیں جو اس خیال سے پی ٹی آئی میں شامل ہوئے کہ وہ اپنے ”مخصوص“ پروگرام کو آگے بڑھائیں گے اور قانون کی گرفت میں بھی نہیں آئیں گے لہٰذا وہ اب بھی ویسے کے ویسے نظر آتے ہیں جیسے پہلے دوسری جماعتوں میں تھے شاید ان کی ہی وجہ سے عمران خان کو شرمندگی اور ہزیمت کا سامنا ہے ایک تاثر یہ بھی ہے کہ ان کے ساتھ عمران خان کے دیرینہ ساتھی بھی چل پڑنے کو تیار ہو چکے ہیں کیونکہ ان کا اپنی خواہشات کو پورا کرنے کے لیے سڑک سے پگڈنڈی کی طرف آنا ضروری ہے لہٰذا وہ اپنے کارکنوں کو نظر انداز کرنے لگے ہیں ان لوگوں کو بھی جو کسی نہ کسی شکل میں ان کے ہمقدم رہے۔

دوبارہ آتے ہیں اصل موضوع کی طرف حزب اختلاف کا اتحاد ایک ایسا منظر ابھرتا ہوا دیکھ رہا ہے جو انہین زندگی کی رعنائیوں سے ہمکنار کر سکتا ہے مگر سوال یہ بھی ہے کہ اگر اتحادی جماعتوں کا خواب پورا ہو جاتا ہے تو کیا وہ کسی تبدیل شدہ ایجنڈے کے تحت معاملات چلائیں گی اور جو اس پر الزامات عائد کیے گئے ہیں وہ ان سے بری الذمہ قرار پائیں گی؟

وارث شاہ عادتاں نا جاندیاں نیں
کٹیے پوریاں پوریاں

مشکل ہے ان کے لیے کہ وہ اپنی سرشت کو تبدیل کر لیں اور تجوریوں سے ساری دولت نکال کر قومی خزانے میں ڈال دیں لہٰذا کہا یہی جا رہا ہے کہ ایسے اتحاد جب بھی ہوئے وہ عارضی مفادات کے لیے ہوئے یہ اتحاد بھی وقتی ہے جس کا مقصد ہے کہ کسی نہ کسی طرح حکومت و ریاست پر دباؤ ڈالا جائے کہ وہ ہتھ ہولا رکھے، ہو سکے تو اسے پوتر ہونے کی سند عطا کر دے اس کے بدلے وہ مکمل تعاون کرنے کی یقین دہانی کرا سکتا ہے ۔ !

جاوید خیالوی ایم اے فلسفہ کا نقطۂ نظر یہ ہے اس حوالے سے کہ یہ اتحاد کس لچک کے کی بنا پر وجود میں آیا ہے کہ اپنے دل کا ابال نکالتا رہے اپنی سیاست کاری جاری رکھے عین ممکن ہے وہ حقائق کو مدنظر رکھتے ہوئے کل اجتماعی اعتبار سے مفید ثابت ہو سکے۔ رہی یہ بات کہ وہ حکومت کو متاثر کر سکتا ہے تو یہ محض اس کی خام خیالی ہے کیونکہ آنے والے دنوں میں نیب کی کارروائیاں تیز اور سخت ہونے کا امکان ظاہر کیا جا رہا ہے جو بڑے بڑوں کو قانون کے کٹہرے میں کھڑا کر کے پوچھے گا کہ پہاڑ کے پہاڑ دولت کہاں سے آئی ۔ ؟ جواب اس کا جو بھی دیا جائے گا وہ غیر مطمئن ہو گا لہٰذا آساں نہیں حکومت کو گھر بھجوانا ۔ !

خیر یہ تو آنے والے دنوں میں معلوم ہو جائے گا کہ کون سیاست کے اکھاڑے میں بہتر داؤ پیچ لڑاتا ہے فی الحال مسلم لیگ نون اور پی پی پی باہم شیر و شکر ہو چکی ہیں اور عمران خان کو ناکام ثابت کرنے پر اپنی ساری توانائیاں صرف کر رہی ہیں تا کہ وہ اقتداری و سیاسی منظر سے جلد از جلد غائب ہو جائیں شاید یہ ناممکن ہے وہ اپنا مقررہ وقت پور اکریں گے اور پچاس ساٹھ فیصد اپنے پروگرام پر عمل درآمد کر کے ملک کو گھمبیر مسائل سے چھٹکارا دلائیں گے۔

اگرچہ انہیں ابھی بے شمار مصائب و مشکلات نے گھیرے میں لے رکھا ہے مگر وہ ضرور کامیاب ہوں گے کیونکہ ان کے ساتھ مخلص اور دیانتدار لوگ بھی ہیں جو واقعی تبدیلی چاہتے ہیں اور پھر ریاست بھی یہی چاہتی ہے کہ عوام کو امن، سکون اور آسائشیں میسر ہوں جو ان کے زاویہ نگاہ کو بدل دیں اپنی دھرتی سے لگاؤ میں اضافہ کر دیں کیونکہ اب وہ بد دل و بد گماں دکھائی دیتے ہیں انہیں مختلف النوع و سوسوں اور اندیشوں نے پریشان کر رکھا ہے جن میں ایک یہ ہے کہ قانون اہل زر اور اہل اختیار کو چھوتا تک نہیں مگر غریبوں کی ہڈیاں توڑ کر رکھ دیتا ہے لہٰذا احتساب سے خائف لوگ آپس میں جپھیاں ڈالیں یا انواع و اقسام کے دستر خوان پر بیٹھے قہقہے لگائیں وہ طلوع ہوتے سورج کے آگے اپنی خواہشات کی سیاہ چادر نہیں تان سکتے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).