چوہدراہٹ کا خیال اب دل سے نکال دیں


جوں جوں گلوبل وارمنگ میں اضافہ ہو رہا ہے ویسے ہی دنیا میں عوام کے ذہنوں میں قوم پرستی کا لاوا بھی بڑھ رہا ہے۔ خبر نہیں دونوں باتوں میں تعلق ہے یا نہیں مگر، بہرحال سین کچھ ایسا ہی ہے۔ برطانوی وزیراعظم کا بریگزٹ پر ڈٹ جانا، بھارتی یوم جمہوریہ پر عوام کا بہت سی ریاستوں میں یوم سیاہ منانا، برازیل کے صدر کی طرف سے ماحولیاتی تنظیموں کی طرف سے مسلسل خبردار کرنے اور اس کے سنگین اثرات کے باوجود کرہ ارض کے پھیپھڑوں یعنی امیزون کے جنگلات کی کٹائی پر مصر رہنے کے پیچھے یہی عامل کار فرما ہے۔

دنیا کے عوام کی بدلتی اس سوچ کا سبب ان کے ذہنوں میں، بیداری پیدا ہونا ہے کہ ان کے خون پسینے کی کمائی سے حاصل ہوئے محصولات کو ان کے حکمران یا اسٹیبلشمنٹ مہم جوئیوں میں جھونک دیتے ہیں۔ تقریروں اور تحریروں سے شروع ہوئی اس سوچ کو پرتشدد ہونے سے روکنے کے لیے اکثر حکمران اپنی پالیسی میں تبدیلی پر مجبور ہو رہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ جیسی نابغہ شخصیت کی دریافت بھی بڑھتے قوم پرستی کے جرثوموں کا نتیجہ ہے۔ ان کی پوری الیکشن کمپین کا نچوڑ تھا کہ وہ دنیا بھر میں پھنسے امریکی سینگوں کو واپس نکالیں گے اور ان کی تمام توجہ اپنے عوام کی فلاح اور معیشیت کے تحفظ پر ہوگی۔

ان کے پیشرو بھی اگرچہ اپنے عوام کو یہی لوری سنا کر آئے تھے مگر، دنیا نے دیکھ لیا موصوف ایسے سر پھرے ہیں جو کہتے ہیں اس پر اڑیل ٹٹو کی مانند اڑ بھی جاتے ہیں۔ ایران کے ساتھ کیے ایٹمی معاہدے میں دنیا کی بڑی طاقتیں ضامن تھی لیکن جب ان کا مکرنے کا ارادہ ہوا کوئی ضمانت کام آئی نہ کوئی روک سکا۔ افغانستان سے فوجیں نکالنے پر بھی وہ اتاؤلے ہوئے بیٹھے تھے۔ حالانکہ امریکی اسٹیبلشمنٹ یہ نہیں چاہتی تھی، دفاعی امور میں مہارت رکھنے والے امریکی تھنک ٹینک رینڈ کارپوریشن کی رپورٹ میں بتایا گیا کہ پاکستان، روس، ایران، بھارت اور ازبکستان کی جانب سے افغانستان میں پشتون، تاجک، ازبک اور ہزارہ سمیت دیگر برادریوں کی حمایت کی تاریخ موجود ہے، لہذا عجلت اور بغیر کسی بندوبست انخلا سے ایک بار پھر وہاں خانہ جنگی شروع ہو سکتی ہے اور سترہ سالہ محنت پر پانی پھر سکتا ہے۔ اسی رپورٹ میں طالبان کے روس یا ایران کے ہاتھ میں چلے جانے کا خدشہ بھی ظاہر کیا، لیکن موصوف اپنے ارادے پر اٹل رہے۔

اس کے بعد پینٹاگون، سی آئی اے اور اسٹیٹ ڈپارٹمنٹ نے اچانک انخلا کی صورت شکست کے دھبے سے بچنے کے لیے ہاتھ پیر چلانا شروع کیے۔ اسی مقصد کے لیے پچھلے ہفتے امریکی جماعت ریپبلکن کے سینیٹر لنزے گراہم یہاں آئے اور انہوں نے کہا پاک فوج نے حالیہ 18 ماہ میں جو کام کیا وہ امریکا کی 18 ماہ سے خواہش تھی۔ امریکی سینیٹر نے کہا کہ افغان مسئلے کے سیاسی حل کے لیے پاکستانی وزیراعظم، افغان صدر اور امریکی صدر کو ملنے کی ضرورت ہے۔

پاکستان کی اہمیت تسلیم کرتے ہوئے ان کا کہنا تھا یہ ایک ایٹمی ملک ہے جسے مزید بہتر اور مستحکم بنانا ہمارے بھی مفاد میں ہے۔ سینیٹر لنزے گراہم نے پاکستان کے متعلق پالیسی بدلنے کو امریکی غلطی قرار دیتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ساتھ ”لو اور دو“ کے اصول کے تحت تعلقات غلط ہیں۔ انہوں نے کہا ہم برطانیہ کو یہ نہیں کہتے کہ آپ کی مدد کریں گے جواب میں آپ ہمیں کچھ دیں، یہی پارٹنر شپ ہمیں پاکستان کے ساتھ رکھنی چاہیے جس میں لین دین نہ ہو۔

انہوں نے یہ بھی اعتراف کیا کہ امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کی ٹوئٹس مسائل پیدا کرتی ہیں۔ قبائلی علاقوں میں پاک فوج کی خدمات کو سراہتے ہوئے کہا پاک افغان پر بارڈر پر باڑ بہت اچھا اقدام ہے۔ ماضی قریب تک یہی امریکی حکام پاکستان کو تڑیاں لگاتے رہے لیکن اس حقیقت کا انہیں ادراک ہے کہ افغان دلدل سے اگر کوئی انہیں نکال سکتا ہے تو وہ صرف پاکستان ہے۔

دریں اثنا افغانستان کے حوالے سے بات کرتے ہوئے سینیٹر لنزے گراہم نے کہا امریکا افغانستان کو نہیں کھو سکتا، اور نہیں چاہتا کہ افغانستان دوبارہ شدت پسندوں کے ہاتھوں میں چلا جائے۔ افغان طالبان سے مذاکرات سے متعلق ان کا کہنا تھا پاکستان اس حوالے سے مؤثر کردار ادا کر سکتا ہے اور طالبان کے ساتھ مفاہمت کے بعد بھی ہمارا تعلق پاکستان کے ساتھ رہے گا۔ کیونکہ امریکا کی خواہش ہے افغانستان اور پاکستان کے لیے معاشی ترقی کے مواقع پیدا ہوں جب کہ آئی ایم ایف کے قرض سے پاکستانی معیشت بہتر ہو گی۔

یہ تھی ان کی وہ باتیں جو ہر کہانی کی ہیپی اینڈنگ ہوتی ہیں اور پھر سب ہنسی خوشی رہنے لگتے ہیں۔ تشویشناک بات جو انہوں نے آخر میں کہی وہ یہ ہے۔ داعش اور القاعدہ کے خلاف خطے میں امریکی موجودگی یقینی بنائیں گے اور طالبان کا طاقت سے افغانستان کا کنٹرول حاصل کرنا کسی کے مفاد میں نہیں۔ ان کی آخری بات جو کان کھڑے کر دینے والی ہے وہ یہ کہ پاکستان کے ساتھ مشترکہ آپریشن گیم چینجر ثابت ہو سکتا ہے۔

اسی دورانیے میں قطر میں امریکی نمائندے زلمے خلیل زاد سے طالبان نمائندوں بشمول پاکستانی قید سے رہائی پانے والے ملا عبدالغنی برادر کے ایک ہفتہ تک مذاکرات ہوئے۔ جس کے اختتام پر یہ خبر آئی کہ امریکا اور طالبان میں افغانستان سے غیر ملکی فوجوں کے مکمل انخلا، طالبان رہنماؤں سے سفری پابندیوں کے خاتمے اور قیدیوں کی رہائی پر اتفاق ہو گیا ہے۔ بدلے میں طالبان نے یقین دہانی کرائی ہے کہ وہ افغان سرزمین داعش، القاعدہ یا کسی اور دہشتگرد گروہ کے کنٹرول میں نہیں آنے دیں گے۔ مزید برآں اس بات کو یقینی بھی بنائیں گے کہ افغانستان سے دنیا کا امن متاثر نہ ہو اور نہ وہاں خانہ جنگی ہو۔ واضح رہے اس سمجھوتے کے بعد بھی اب تک طالبان ذرائع نے جنگ بندی کی تصدیق نہیں کی۔

اس امر میں تو شبہ نہیں کہ امریکا اپنا بوریا بستر گول ضرور کرے گا لیکن اس بعد ملبے سے اپنا دامن کیسے بچانا ہے یہ ہماری قیادت اور افغان طالبان کی سیاسی بصیرت پر منحصر ہے۔ یہ کسی ہمہ شمہ کا نہیں بلکہ برسوں امریکی نوازشات سے بہرہ مند ہونے والے کرزئی کا الزام ہے داعش کو خود امریکی افواج نے خطے کو مستقل شورش زدہ رکھنے کے لیے اپنے ہیلی کاپٹرز میں لا کر ٹھکانے اور دیگر لاجسٹک سپورٹ مہیا کی ہیں۔ وقت رخصت لہذا طالبان کی جانب یہ شرط ہونی چاہیے کہ گراؤنڈ سپورٹ وہ فراہم کرتے ہیں لیکن فضائی کمک امریکا دے تاکہ داعش کی سرکوبی ہو سکے۔ طالبان کو بھی یہ سمجھنا چاہیے طاقت کے ذریعے اگر انہوں نے کابل پر قبضہ جما بھی لیا تو افغانستان میں دیگر چھوٹی بڑی مسلح قومیں موجود ہیں اور اس صورت خون خرابہ جاری رہے گا۔ چنانچہ میز پر بیٹھ کسی آپشن پر تمام فریقین کو راضی ہونا پڑے گا۔

پاکستان کو بھی جاننا چاہیے اب نہ تو افغان طالبان کے دل میں ہمارے لیے وہ پہلی سی محبت باقی ہے اور نہ ہی وہ گرمجوشیاں ہیں جب ایک دوسرے کا پسینہ بھی گلاب ہوا کرتا تھا۔ جتنی معاونت فراہم کر سکتے تھے فریقین کو ایک ٹیبل پر بٹھا کر کردی۔ اب ماضی کی طرح علاقائی چوہدری بننے کے چکر میں نہ کسی فریق کے ساتھی بنیں اور نہ کسی کی ضمانت اٹھائیں۔ دنیا کی سوچ بدل چکی، جتنا جلد ہو موقع سے فائدہ اٹھائیں، ڈیورنڈ لائن پر باڑ کی تنصیب کا کام جلد از جلد مکمل کرکے اپنا گھر محفوظ بنائیں اور معیشیت کی بہتری پر توجہ دیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).