ان تینوں کو اڑانے پر بچوں کا احتجاج


” ڈوز“ کی گونج دار آواز آئی اور میرے ہاتھ چاہے پیالی میں ڈالتے ڈالتے رک گئے۔ میں نے سوالیہ نظروں سے مڑ کر بچوں اور شوہر کی طرف دیکھا تو وہ بھی اپنی اپنی جگہوں پر ساکت ہوے مجھے دیکھ رہے تھے۔ لمحے بھر کے توقف کے بعد میں اور میرے شوہر سامنے بڑی کھڑکی کی جانب بڑھے۔ گھر کے سامنے سڑک کی دوسری جانب موجود باغ میں مشرق کی طرف کے درختوں پر سے بے شمار پرندے اچانک شور مچاتے ہونے اڑے۔ پھر دو افراد سادہ کپڑوں میں سامنے بھاگتے نظر آیے ایک کے ہاتھ میں رائفل تھی۔

ہم نے ان پر نظریں گاڑ دیں۔ وہ درختوں میں گم ہو گئے۔ میرے شوہر پریشان چہرے کے ساتھ واپس مڑ کر موزے پہننے لگے اور بچے بھی جو اپنا ناشتہ چھوڑ کھڑکی کے پاس پہنچ چکے تھے حیرت سے واپس مڑ گئے۔ اتنے میں وہی دونوں آدمی سامنے کی سڑک سے چلتے ہونے آے اور اسی لمحے دائیں جانب سے آنے والی گاڑی میں سوار ہو کر بائیں طرف چلے گئے۔ یہ سرکاری گاڑی تھی۔ اب بات ہم پر کچھ واضح ہوئی۔ میں نے اپنے شوہر سے کہا لگتا ہے ان میں سے کسی ایک کو اڑا دیا ہے انہوں نے۔ ”ہوں“ انھوں نے میرے تائید کی۔

”مگر سامنے تو کچھ نظر نہیں آ رہا اور فائر بھی ایک کیا ہے وہ تو تین تھے“ میں نے حیرت سے کہا۔ اس دوران بچے جو ناشتہ کر رہے تھے ان کے رنگ فق ہو گئے اور ہاتھ روک گئے۔ میری 11 سالہ بڑی بیٹی آنکھوں میں آنسو لئے بولی ”نہیں ماما“ ”یہ کیا بات ہوئی“

”وہ تینوں بہت خطرناک تھے بیٹا۔ پورے محلے کو تنگ کر رکھا تھا۔ آخر کوئی سد باب تو کرنا تھا نا“ اس کے والد نے وضاحت کرتے ہونے کہا۔

”لیکن پاپا۔ ۔ ! “ آنسو اس کے حلق میں پھنس گئے۔ ہم ابھی بچی کی کیفیت کے مطابق الفاظ ڈھونڈ رہے تھے کہ پھر سے آواز آئی۔ ”ڈوز“ اور پرندے ایک بار پھر اڑے مگر اس بار باغ کے باہر کی جانب کوئی حرکت تھی۔ سامنے کوئی نا آیا۔ اب تو بچے پھٹ پڑے۔ ”یہ بھی کوئی انسانیت ہے۔ “ ”کوئی کسی کے ساتھ ایسا کیسے کر سکتا ہے“

چھوٹی بیٹی بولی ”ماما میں ان لوگوں کو ماروں گی اور اللہ‎ تعالیٰ بھی گناہ دیں گے“ ”لیکن بچے آپ کو پتا ہی نہیں چند روز قبل رات کے وقت ان تینوں نے مل کر ایک لڑکے پر ہمارے گھر کے سامنے حملہ کیا تھا۔ وہ تو لوگ آ گئے تو وہ بیچارہ بچ گیا۔ ورنہ انھوں نے تو کوئی کسر نا چھوڑی تھی“ والد نے بچوں کو سمجھا تے ہونے کہا۔ ”اور نہیں تو! بیچارہ لڑکا سڑک پر لوٹ پوٹ ہو گیا۔ موبائل کہیں، پرس کہیں، جوتا باغ کے پاس اور کپڑے بھی خراب ہو گنے۔ “ میں نے بھی تفصیلات سے آگاہ کرکے اس ”عمل“ کی حمایت کا اعلان کیا۔ ”لیکن پھر بھی ان لوگوں کو کس نے حق دیا ماما کسی کو اس طرح، اتنی بیدردی سے مارنے کا۔ وہ انھیں پکڑ سکتے تھے، بند کر سکتے تھے۔ مگر۔ ، ۔ مگر۔ ۔ انہوں نے تو ان کو مارنا شروع کر دیا۔ “

”میں ابھی نیچے جا کر ان لوگوں سے بات کرتی ہوں“ میری بڑی بیٹی بمشکل تمام ناشتہ کر پا رہی تھی اور ساتھ ساتھ آنسو پی رہی تھی۔

ہمارا گھر اوپر کی منزل پر واقع تھا لہٰذا تمام مناظر صاف نظر آ سکتے تھے۔ ہم سب سامنے کی کھڑکی سے بار بار باہر بھی دیکھ رہے تھے اور ساتھ ساتھ تیار بھی ہو رہے تھے۔

دل تو ایک دم میرا اور میرے شوہر کا بھی بھاری سا ہو گیا مگر ہم بچوں کے سامنے مضبوط بن رہے تھے۔ اس دوران اچانک ان میں سے ایک بھاگتا ہوا آیا اور باغ کے قدرے نچلے حصّے میں بیٹھ گیا اور پھر ادھر ادھر دیکھ کر لیٹ گیا۔ میرے بچے خوش ہو رہے تھے کہ ایک تو زندہ ہے۔ اور دور دور تک کوئی نظر نہیں آ رہا۔ اچانک وہ اٹھ کر دوڑآ اور درختوں میں گم ہو گیا۔ اور لمحے بعد پھر آواز آئی ”ڈوز“ اور ہم سب نے ایسے ایک دوسرے کی جانب دیکھا کہ کہہ رہے ہوں ”کہانی ختم“

اب تو میری دونوں بچیاں پھٹ پڑیں۔ شدید الفاظ میں اس بے رحم عمل کی مذمّت کرنے لگیں اور میں اور میرے شوہر انھیں سمجھآتے رہے کہ ”وہ“ بے حد نقصان دہ تھے۔ لوگوں کو تکلیف پہنچا رہے تھے۔ سارا دن سب کو خوف زدہ کرتے تھے۔ بچے ان کی وجہ سے گراؤنڈ میں کھل نہیں پا رہے تھے۔ اور یہ کہ آپ ابھی بچے ہو۔ آپ لوگ چیزوں کی نزاکت اور تفصیلات سے نا واقف ہو۔ مگر وہ کسی طرح سمجھنے اور بہلنے کو تیار نہیں تھیں۔ اور بس ایک ہی بات کر رہی تھیں۔

یہ کوئی طریقہ نہیں۔ یہ کوئی حل نہیں۔ ان کی اصلاح کی جا سکتی تھی۔ انھیں بند کیا جا سکتا تھا۔ مگر جان لے لینے کا حق کسی نے نہیں دیا۔ اور میں سوچ رہی تھی ہمارے بچے ذہنی طور پر کتنے بڑے ہو گئے ہیں۔ اسی بحث کے ساتھ ہم سیڑھیاں اتر کر مین گیٹ پر پہنچے تو میری چھوٹی 6 سالہ بیٹی امید بھرے لہجے میں دروازے میں کھڑی ہو کر بولی ”ادھر آ جاؤ“ ”ان سے بچ جاؤ۔ “ ”دیکھو دروازہ کھلا ہے ہم آپ کو کچھ نہیں کہیں گے۔ “ جبکہ سامنے دور دور تک کوئی نہیں تھا۔

بچے اسی تذبذب میں والد صاحب کے ساتھ اسکول چلے گئے اور اثنا میں میری پالتو بلیوں میں سے سب سے لاڈلا پھٹی آنکھوں کے ساتھ دروازے سے اندر آیا۔ میں اس کو پیار دلار کرتی اوپر لے آئی۔ بوٹی اور دودھ سے تواضع کی مگر وہ خوفزدہ اور پریشان تھا۔ شاید فضا میں موجود موت کی چاپ کو سن سکتا تھا۔ میں نے اس کی دل جوئی کی۔ پیار کیا اور چند لمحوں بعد وہ صوفہ پر سو گیا۔

اس دوران میں سوچتی رہی ”وہ تین“ اگر انھیں بھی کوئی ایسا گھر ملا ہوتا۔ کوئی لاڈ کرتا۔ اہمیت کا احساس دلاتا۔ تربیت کرتا تو ان میں کڑواہٹ پیدا نا ہوتی۔ وہ اپنے اندر معاشرے اور وقت کی طرف سے دی جانے والی دھتکار اور تلخیوں کو اس طرح واپس نہ لوٹاتے۔

”وہ تین“ وہ تین آوارہ کتے جو چند روز قبل ہی اچانک ہمارے علاقے میں آ گئے اور وہ جو پہلے سے ہی ستم رسیدہ تھے یہاں بھی ان کو پتھر اور گالیوں کا سامنا رہا لہٰذا تلخیاں مزید بڑھ گئیں اور وہ لوگوں کو جھپٹنے لگے بعض اوقات ضرورتوں کے طفیل اور بعض اوقات تفریحآ۔ کل بھی وہ ساری رات شور مچاتے رہے اسی لئے کسی نے سٹی ڈسٹرکٹ گورنمنٹ کی سرویلنس ٹیم کو فون کیا اور ان کی ”کارروائی“ میں وہ تینوں مارے گئے۔

میرے دماغ میں بچوں کے الفاظ گونج رہے تھے اور میں سوچ رہی تھی۔

کہ ان معصوموں کو کیا معلوم جس معاشرے میں انسان کی قدرو قیمت نہیں۔ انھیں بے توقیر کیا جاتا ہے۔ معاشرے کی بے حسی اور حکومتوں کی لاپرواہی انھیں آوارہ کتے بنا دیتی ہے اور پھر وہ اہل حیثیت پر جھپٹتے ہیں تو انھیں ”surveillance teams“ مار ڈالتی ہیں اسی طرح گلی گلی بازار بازار۔ وہاں ان بے چارے تین کتوں کو کون پکڑنے اور اصلاح کرنے کی زحمت کرتا۔ کاش کسی نے ان کو بھی پیار دیا ہوتا۔ احساس کیا ہوتا تو وہ آج آوارہ کتے نا ہوتے اور یوں بے دردی سے نہ مارے جاتے یقینآ سوچنے کے لئے بہت کچھ ہے مگر بنیادی بات صرف یہی ہے کہ ہمیں بحیثیت کل سوچنا ہے۔ اپنی اپنی انفرادی حیثیت میں اجتماعی طور پر بڑھانا ہے۔ گرتوں کو سمبھالنا ہے۔ اپنے اردگرد پھرتے ان معصوم پھولوں کو انسان سے آوارہ کتوں میں بدلنے سے بچانا ہے۔ کچھ اپنی اصلاح کرنی ہے اور کچھ ان کی مدد اور بتدریج اصلاح کرنی ہے۔ تبھی اس ملک سے ”ڈوز“ ”ڈوز“ کی آوازوں کا خاتمہ ممکن ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).