پولیس اصلاحات ۔ مبادا دیر ہو جائے


محکمہ پولیس کی نوکری کرنا دراصل پیچ و خم سے بھرپور پگڈنڈی پر سفر کرنے کے مترادف ہے جس پر جابجا خار بکھرے پڑے ہیں جس پر شوقین راہرو گلاب چننے آتے ہیں مگر کانٹوں سے دامن بھر لیتے ہی اور کچھ زخم تو ایسے کاری لگتے ہیں کہ جسم کے ساتھ روح بھی گھائل ہو جاتی ہے۔ آ پ اس محکمے کی دگرگوں صورت حال کی ذرا سی کھوج میں جائیے آپ کو کئی مسند نشینوں کے قبیح چہرے بے نقاب ہوتے نظر آئیں گے اس محکمے پر ظلم کرنے والوں کی فہرست میں سب سے اوپر اسی محکمہ کے اعلیٰ افسران اور سیاست دان ہیں۔

افسران نے لوٹ مار کا بازار گرم کر رکھا ہے اور سیاست دانوں نے پولیس کو اپنی رکھیل سمجھ رکھا ہے۔ اب جب اصلاحات کی باتیں کثرت سے ہو رہی ہیں تو میں سوچ میں پڑ گیا ہوں کہ انہی دو طبقوں نے تو اصلاحات کا فیتہ کاٹنا ہے کیا وہاں پر بھی کسی کی نظر جائے گی جہاں پر مسائل کا جمگھٹا ہے کیا وہ بھی موضوع گفتگو بنے گا جس نے اس بوجھ کو پشت پر لادا ہوا ہے۔ پچھلے دنوں ایک سپاہی سے ملاقات ہوئی جو اپنی ریٹائرمنٹ پر اپنا سامان اٹھائے نم آنکھوں کے ساتھ گھر کو جارہا تھا کہ کسی نے سامان تک نہ اٹھوایا نہ کوئی گیٹ تک چھوڑنے آیا۔ تیس سال بیلٹ باندھ کر عوام کا تحفظ کیا لیکن اس بیچارے کو سروس کے آخری دن بھی ذرا سا پروٹوکول نہ دیا گیا، ایک اے ایس آئی کی بیوی کو کینسر کا مرض لگ گیا علاج کے لئے بہت دروازے کھٹکھٹائے مگر بے سود، مریضہ تین معصوم بچوں کو سسکتا، بلکتا چھوڑ کر ملک عدم کو کوچ کرگئی۔

ایک کانسٹیبل نے اپنے نوجوان بیٹے کو محنت مزدوری کی غرض سے عرب کو بھیجا اس بچے نے کچھ رقم بھیجی کچھ اس نے پیٹ کاٹ کر بچائی اور ایک دکان خرید لی مگر دکان قبضہ گروپ کے ہتھے چڑھ گئی دکان کا قبضہ لینے کی تگ ودو میں بات ضلعی پولیس افسر تک جا پہنچی جس نے قبضہ گروپ کو کرسیوں پر بٹھا کر اور غریب کانسٹیبل اور اس کے بیٹے کو مجرموں کی طرح کھڑا رکھ کے موقف سنا اس پیشی کے بعد وہ کانسٹیبل اپنے بچے سے اپنی نم آنکھیں ملا نہیں پا رہا تھا اور بچے کی آنکھوں میں ایک ہی سوال تھا کہ ابا آپ نے اس محکمے میں پچیس سال گذار دیے؟

شاید اپنے بچے کو پیشی پر اپنے ساتھ لانا اس کی سنگین غلطی تھی، اس بے بھرمی کا نتیجہ یہ نکلا کہ قبل از وقت پنشن کی درخواست دے دی۔ یہ حقیقت بالکل واضح ہے کہ یہ محکمہ اعتماد سے عاری ہوچکا ہے، عوام کے جان اور مال کے تحفظ کے لیے محکمہ پولیس کوہراول دستہ مانا جاتاہے، لیکن یہ محکمہ اس بلند تر مقصد کو خاطر خواہ انداز میں پورا نہیں کرپا رہا، اس کی ایک بہت بڑی وجہ یہ ہے کہ پولیس کے ہاتھوں میں کاسہ پکڑا دیا گیا، ایف آئی آر کے اندراج سے لے کر چالان پیش عدالت کرنے تک کے سفر میں تفتیشی افسر کو تفتیش کے دوران اٹھنے والے اخراجات کی مد میں ایک روپیہ بھی نہیں دیا جاتا وہ ان اخراجات کو پورا کرنے کے لیے مدعی کی طرف دیکھتا ہے اور یہیں سے پولیس کی بدنامی کا غلغلہ بلند ہونا شروع ہو جاتا ہے۔

جس پولیس افسر کی اپنی تنخواہ چالیس ہزار روپے ہو کیا وہ اپنے بچوں کا پیٹ کاٹ کر یہ اخراجات پورے کرے، یہ حقائق روز روشن کی طرح عیاں ہیں لیکن بجائے ان معاملات پر غور و فکر کر کے ٹھوس اور جامع اقدامات اٹھانے کے انتہائی بودے اور مضحکہ خیز فیصلے کر کے اس محکمے سے کمال پروفیشنل ازم اور بلند پروازی کی توقع کر لی جاتی ہے۔ او عقل کے اندھو، اگر کچھ ٹھیک کرنا ہے تو ایک کانسٹیبل کی حالتِ زار پر تحقیق کرو۔ اس کو سمجھنے کی کوشش کرو کیونکہ وہ اس محکمے کی بنیادی اکائی ہے، اگر تبدیلی کے نعرے کو عملی جامہ پہنانے کا ارادہ رکھتے ہو تو ایک اے ایس آئی اور ایس آئی کے کام اور اس کو ملنے والے معاوضے میں مطابقت پیدا کرنے کی کوشش کرو۔

پولیس کے اعلیٰ افسران سے پولیس کی اصلاحات بارے مت پوچھو کیونکہ پولیس کے اعلیٰ افسران کی اکثریت محکمہ پولیس میں اصلاحات کی حامی نہیں۔ میری رائے ہے کہ پنجاب کی جامعات میں سوشل سٹڈیز کے ڈیپارٹمنٹس سے پولیس کے مسائل اور ان کے حل، پولیس سے عوام کی شکایات اور ان کا حل، پولیس کی کرپشن اور اس کے سد باب کی ممکنہ صورتیں، پولیس کے تربیتی امور کو جدید خطوط پر استوار کرنے کی ممکنہ صورتیں اور ان جیسے بے شمار موضوعات پر ریسرچ کروائی جائے اور ان تحقیقات کی روشنی میں پولیس کی اصلاحات کی بنا رکھی جائے۔

آپ یقین کریں یہ محکمہ اعتماد سے عاری ہوچکا ہے، عوام کے اس محکمے پر اعتماد کا اندازہ ہم ان روز افزوں خبروں سے لگا سکتے ہیں جو میڈیا کی زینت بنتی ہیں، اس محکمے کے افسران اور ماتحتان کے مابین اعتماد کا شدید فقدان ہے، کانسٹیبل جو اس محکمے کی بنیادی اکائی ہے اس کی حالتِ زار کسی سے ڈھکی چھپی نہیں ہے، بعض حالات میں تو ایسا لگتا ہے کہ بیچارے کانسٹیبل کو انسان بھی نہیں سمجھا جاتا، ڈیوٹی کا کوئی ٹائم فریم نہیں، سونے آ رام کرنے کا کوئی انتظام نہیں، ڈیوٹی کے مقام تک جانے اور واپس آنے کا کے ذرائع کی کوئی خبر نہیں، بیلٹ پہنا کر ڈسپلن کا درس تو دیا جاتا ہے مگر بیمار بیوی کے علاج کی کوئی سبیل مہیا نہیں کی جاتی، بچے کی تعلیم کے لیے سکول کے بارے میں رہنمائی کی جاتی ہے نہ اخراجات مہیا کیے جاتے ہیں، اور اس پر مستزاد یہ کہ اس کو ٹریننگ کے نام پر خوش اخلاقی اور اعلیٰ ظرفی کے کے لیکچر دے کر اپنا فرض پورا کرنے کی کوشش کی جاتی ہے، اس کی وردی کو بدل کر اس کے کردار کو بدلنے کی سعی لا حاصل کی جاتی ہے، مگر سب بے سود، انھی وجوہات کی بنا پر پولیس نان پروفیشنل رویے کی حامل ہوتی چلی گئی اور مزید ہوتی جارہی ہے۔

اور اس کے قصور وار ہم سب ہیں کیونکہ ہم اپنے ماضی سے سبق حاصل کرنے میں ناکام رہے ہیں ہم ماتم کر کے خود کو مزید مجروح تو کر لیتے ہیں مگر سابقہ زخم کے اندمال بارے نہیں سوچتے، ہم یہ بات کیوں فراموش کر دیتے ہیں کہ قوموں کی زندگی میں آ نے والے واقعات کتنے ہی تلخ اور کریہہ کیوں نہ ہوں ان سے ہمیشہ تعمیر اور رفعت کی صورتیں نکلتی ہیں بشرطیکہ نیت صالح اور عزم مصمم ہو۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).