انگریز سامراج نے ایمپرس مارکیٹ کیوں بنوائی؟


تاریخ مسخ ہوئی، مزاحمت کے استعارے مٹائے گئے، تذلیل ہوئی، علماء کو پھانسیاں ہوئیں، حتیٰ کہ انگریز کے خلاف لڑی جانے والی جنگ آزادی کی باقیات تک کو مٹایا گیا۔ انگریز کو اس جنگ کو شکست میں بدلنے کے لیے پنجاب میں، سندھ میں، بنگال میں، دکن میں میر جعفر و میر صادق خاندانوں کی صورت میں میسر آئے۔ اس جنگ کی شکست نے خطہ برعظیم کی غلامی کو 90 سال تک کے لیے دوبارہ مسلط کر دیا۔ آزادی کی تحریکوں کی شناخت کو پاکستان میں بذریعہ نصاب بدل دیا گیا، جو کریکولم ڈیزائن کیا گیا اس میں سے انگریز مخالف مواد کو شامل ہی نہیں ہونے دیا گیا، تاریخ کو عبرت میں بدلا گیا اور ہم 71 سال بعد بھی صم بکم کی کیفیت کا شکار ہیں۔

وڈیروں، جاگیرداروں اور بیوروکریسی نے انگریز سامراج کے ساتھ پوری پوری وفا داری کی اور آج انہی خاندانوں کو وفاداری کے عوض پاکستان کے برسر اقتدار طبقات کا حصہ بنایا جاتا رہا ہے۔ پنجاب رجمنٹ نے جنگ آزادی کے مجاہدین کو روندنے کا کام کیا، دہلی، بنگال، سندھ، بلوچستان تک اسی رجمنٹ کے فوجی جوانوں نے قتل و غارت کی۔ انگریز نے پہلی عالمی جنگ کے بعد مارشل ریس یعنی فوجی نسلوں کا جو تصور پیش کیا تو اس میں پنجاب کو سرفہرست رکھا گیا۔

میرٹھ سے مئی 1857 ء سے شروع ہونے والی بغاوت سندھ تک پہنچ گئی اور انگریز کے مظالم کے خلاف نفرت سندھ میں کینٹ تک داخل ہوگئی چنانچہ 13 اور 14 ستمبر کی درمیانی شب کو حوالدار رام دین پانڈے نے 44 سپاہیوں کی مدد سے جنگ آزادی کا حصہ بننے کے لیے انگریزوں پر حملہ کی منصوبہ بندی کی، دو سپاہیوں نے غداری کرتے ہوئے اس پلان کی مخبری انگریز فوجی افسروں کو کر دی۔ 14 ویں پیدل فوج کے یہ سپاہی جب کراچی کینٹ سے فرار ہونے لگے تو ان پر گولیاں برسا دی گئیں اور موقع پر ہی 8 سپاہی مارے گئے، 30 سپاہیوں کو گرفتار کر لیا گیا اور باقی 6 سپاہی فرار ہوگئے۔

ان ہندستانی سپاہیوں کو انگریز جج کے سامنے پیش کیا گیا اور دو ہفتے تک عدالت میں مقدمہ چلنے کے بعد 8 سپاہیوں کو پھانسی کی سزا سنائی گئی جبکہ 23 سپاہیوں کو کالا پانی جیل میں بھیج دیا گیا جو سپاہی فرار ہوئے تھے وہ بھی چند روز میں پکڑے گئے۔

جنگ کا حصہ بننے کی کوشش میں انگریز جج کے حکم پر 23 ستمبر 1857 ء کو انھیں پھانسیاں دے دی گئیں لیکن اس بغاوت کے ماسٹر مائند سوراج بالی اور رام دین پانڈے کو نشان عبرت بنانے کا فیصلہ ہوا۔ چنانچہ انھیں ایک گراؤنڈ میں توپوں کے سامنے کھڑا کر کے ان کے جسموں کو ہی اُڑا دیا گیا اور اسی گراؤنڈ میں ان کی باقیات کو ایک گڑھے میں پھینک دیا گیا، پھانسی کا یہ منظر عوامی تھا جس کا مقصد ہندستانیوں میں انگریز کا خوف پیدا کرنا تھا۔ سر بارٹل فریرے اپنی سوانح حیات میں لکھتا ہے کہ کہ پھانسیوں سے پہلے سپاہی ایک دوسرے کو مبارکباد دے رہے تھے اور وہ مطمئن تھے کہ اپنے ملک کی آزادی کے لیے وہ جان دے رہے ہیں۔

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اس گراؤنڈ میں مجاہدین آزادی کو خراج تحسین پیش کرنے کے لیے پھول رکھے جانے لگے، چراغ روشن کیے جانے لگے، انگریز راج کے لیے یہ قابل قبول نہیں تھا، 1886 ء تک یہ جگہ انگریز کے خلاف مزاحمت کا استعارہ بن گئی جسے اب مٹانا مقصود ٹھہرا۔

گویا گورنر بمبئی جیمز فرگوسن نے 1884 ء میں اس گراؤنڈ کی جگہ پر مارکیٹ بنانے کا اعلان کیا اور پھر اس کا سنگ بنیاد رکھا گیا اور جن مجاہدین جنگ آزادی کی عقیدت شہریوں میں پیدا ہوچکی تھی ان کی ہڈیوں و جسم کی راکھ کو پیروں تلے روندنے کے لیے اسی جگہ ایک مارکیٹ کھڑی کر دی گی۔ چیف میونسپل انجینئر جیمز سٹریچن نے اسے ڈیزائن کیا، برطانوی کنسٹرکشن کمپنی اے۔ جے ایٹفیلڈ فاؤنڈیشن کو ٹھیکہ دیا گیا اور محمود نیوان اینڈ ڈلو کھیجو کی کمپنی نے اس مارکیٹ کی تعمیر کی۔

اس مارکیٹ پر جو سُرخ پتھر لگا ہے یہ جودھ پور سے منگوایا گیا تھا، مغل اور وکٹورین طرز تعمیر پر مارکیٹ میں شامل 280 دکانوں اور 120 فٹ بلند مینار کی تعمیر پر چار سال لگے جس پر ایک لاکھ 20 ہزار روپے خرچ ہوئے۔

ملکہ برطانیہ نے 1837 ء میں تاج پہنا تھا اور 1887 ء میں سلطنت برطانیہ میں شامل دُنیا بھر کے محکوم ممالک میں ملکہ برطانیہ اور قصر ہند کی گولڈن جوبلی منائی گئی چنانچہ جنگ آزادی کے مجاہدین کی ہڈیوں پر تعمیر کی گئی اس مارکیٹ کو ایمپرس مارکیٹ کا نام دیا گیا، ابتداء میں ایمپرس مارکیٹ کراچی میں اشرافیہ کو داخل ہونے کی اجازت تھی اس مارکیٹ کے ارد گرد اشرافیہ کے گھر، کیتھولک چرچ، انگریزوں کے سکولز بھی قائم تھے۔

ایمپرس مارکیٹ کی تاریخ پر جمی گرد کو صاف کرنا جنگ آزادی کے مجاہدین کو خراج تحسین پیش کرنے کے مترادف ہے۔ اب سوال یہ اُٹھتا ہے کہ پاکستان جنگ آزادی کی تقریبات کیوں نہیں مناتا؟ اور ریاست سرکاری طور پر اس آزادی کی جنگ کی یاد کو تازہ رکھنے کے لیے اقدامات کیوں نہیں کرتی؟ اس تاریخ کو مسخ کرنے کی منصوبہ بندی کا پردہ چاک کرنا ضروری ہے۔ پاکستان کا اشرافیہ خاندان کے اولین خانوادوں نے غداریوں کے عوض اور جنگ کو شکست میں بدلنے کے لیے مراعات لیں تھی، جاگیریں لیں، وظیفے مقرر کرائے، انگریز سے خطابات وصول کیے، درباروں کی گدی نشینیاں لیں۔

سر سکندر حیات خان کے دادا کی غداری ہو یا پھر ملتان کے قریشی، گردیزی، گیلانی اور سید خاندان ہوں ”سیالکوٹ کے خاندان ہوں، مظفر گڑھ کے ہوں، ریاست بہاولپور کے نواب ہوں یا پھر چکوال کے راجے ہوں، اگر پاکستان میں جنگ آزادی کی تقریبات منائی گئیں تو ان کی غداریوں کی داستانیں بیان ہوں گی، ان کی انگریزوں کے ساتھ وفاداریاں عیاں ہوں گی جس سے ان کا پاکستان میں سیاسی مستقبل تاریک ہونے کا اندیشہ ہے اور عوامی سطح پر بے نقاب ہونے کے بعد ان کے خلاف نفرت انگیز جذبات پیدا ہوسکتے ہیں۔

ایمپرس مارکیٹ میں گزشتہ کئی مہینوں سے آپریشن جاری ہے، قبضے ختم کرائے جارہے ہیں، ایمپرس مارکیٹ کو دوبارہ بحال کیا جارہا ہے، سندھ کی عوام جنہیں انگریز استعمار نے 1843 ء میں زیر کیا تھا اب اس ایمپرس مارکیٹ کی بحالی پر کم ازکم اس جگہ کی تاریخ سے متعلق تختی آویزاں کی جائے جس پر مجاہدین کو سیلوٹ پیش کیا جائے اور مسخ شدہ تاریخ کو زندہ کر دیا جائے۔ آج ہمیں اپنے حکمران طبقات اور اشرافیہ سے یہ سوال بھی کرنا چاہیے کہ وہ جنگ آزادی کو غدر ثابت کرنے والے گروہوں کے جانشین ہیں یا پھر انگریزوں کے خلاف آزادی کی جنگ لڑنے والے مزاحمتی استعاروں کے ماننے والے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).