پولیس آرڈر 2002 نافذ کرنے کا صحیح وقت


کیا سانحہ ساہیوال جیسے اندوہناک واقعے کے بعد بھی کوئی گنجائش باقی رہ گئی ہے؟ کیا اب بھی وقت نہیں آیا جو ہم انگریز دور کے فرسودہ اور عوام دشمن پولیس ایکٹ 1861 سے نجات حاصل کرے؟ 1857 میں جب انگریز نے برصغیر میں اپنا تسلط جمایا تو عوام کے دلوں میں اپنے اقتدار کی دھاک بٹھانے کے لئے پولیس ایکٹ جیسے قوانین متعارف کرائے۔ جس نے ریاستی ادارے کو بے عنان کیا جس کے نافذ العمل ہونے کے بعد امن و ا مان برقرار رکھنے یا تفتیش کے نام پرکسی کو زیر عتاب لانا پولیس کے لئے کوئی مشکل نہیں رہا۔

ستم بالائے ستم یہ کہ حکمرانوں نے اپنے غرض کی خاطر آئین میں 21 ترامیم کرڈالی جن میں اکثر ترامیم حکمرانوں کے اقتدار و اختیارات کی تقسیم کے گرد گھومتی ہے۔ کسی کو توفیق نہ ہوئی جن مسائل سے عام آدمی کو روز سامنا کرنا پڑتا ہے ان مسائل کے تدارک کے لئے قانون سازی کی جائے آج بھی ہمارے یہاں تھوڑے سے ردوبدل کے بعد 1972 کا لوکل گورنمنٹ ایکٹ اور 1861 کا پولیس ایکٹ ہی نافذ العمل ہے۔ حقیقت تو یہ ہے ہمیشہ دور آمریت میں ہی عوام کی فلاح و بہبود کے لئے عوام کے لئے قانون سازی کی گئی۔

ایوب خان نے بنیادی جمہوریت کا تعارف کرایا جس میں اختیارات کی نچلی سطح پر منتقلی کے لئے سیف گورننگ باڈیز منتخب کی گئی بھٹو آیا تو بنیادی جمہوریت کی بساط لپیٹ کر پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس متعارف کرایا یہ بات الگ کہ بھٹو کے اپنے ہی دور میں اپنے ہی جاری کردہ پیپلز لوکل گورنمنٹ آرڈیننس کے تحت الیکشن نہیں کرائے گئے پھر وقتافوقتا لوکل گورنمنٹ ایکٹ میں اپنے اپنے مفادات کی خاطر ترامیم کی گئی تاآنکہ پرویز مشرف نے 2001 میں ایک با اختیار لوکل گورنمنٹ آرڈینینس نافذ کیا ماسوائے خیبرپختونخواہ حکومت کے اقتدار کی نچلی سطح تک منتقلی ہمارے جمہوری لیڈران کو نہ بھائی اور حکومتی عنان سمبھالتے ہی ایک بار پھر عوام کو بیوروکریسی اور کمشنر ی نظام کے رحم و کرم پے چھوڑ دیا گیا۔

ایسا ہی پولیس ایکٹ 2002 بنایا گیا جو تغیر پذیر سیاسی۔ معاشرتی اور سماجی مسائل کو ملحوظ خاطر رکھ کر حقیقی معنوں میں پولیس کو عوام کا محافظ بنانے کے لئے بنایا گیا۔ پولیس آرڈر 2002 میں ضلعی سطح سے لے کر صوبائی اور قومی سطح تک پولیس کملینٹ کمیشن اور اتھارٹیز تشکیل دینے کی تجویز دی گئی جس میں لوکل پولیس سمیت وفاقی قانون نافذ کرنے والے ادارے بھی جواب دہ ہوتے۔ ضلع سطح پر پبلک سیفٹی اینڈ پولیس کمپلینٹ کمیشن کی تشکیل نو سے مقامی پولیس کو بلا واسطہ سول سوسائٹی اور مقامی منتخب نمائندوں کے آگے جوابدہ کیا گیا پولیس آرڈر کے نافذ ہونے سے تھانہ کلچر کے خطرے میں پڑنے کے خوف سے ارباب سیاست نے اس کی راہ میں روڑے اٹکانے شروع کیے اور اس کے رائج ہونے میں دیوار بن گئے موجودہ حکومت نے تبدیلی کا نعرہ لگا کر اقتدار حاصل کیا ہے اس لئے گمان کیا جا سکتا ہے کہ اٹھارویں ترمیم کے بعد صوبوں کے با اختیار بننے کے بعد کم از کم پنجاب کی حد تک جہاں تحریک انصاف کی حکومت ہے پولیس آرڈر 2002 اپنی اصل رو میں نافذ کرکے پولیس کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال ہونے اوراثر رسوخ قبول کرنے سے روکا جائے۔ تحریک انصاف کی کے پی میں دوبارہ کامیابی کی ایک بڑی وجہ وہاں کی غیر سیاسی پولیس اور عوام دوست پولیس رویہ بھی ہے۔

اب دیکھنا یہ ہے کہ عمران خان روایتی سیاستدانوں ہوتے ہوئے پنجاب پولیس میں اصلاحات لانے میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہے اگر اب بھی ارباب بست و کشاد نے پولیس اصلاحات پر مبنی پولیس آرڈر نافذ نہ کیا تو سانحہ ساہیوال جیسے واقعات رونما ہوتے رہیں گے۔ پولیس آرڈر 2002 نافذ ہونے کے بعد ہی پولیس عوام کی حکمران بننے کی بجائے حقیقی معنوں میں عوامی کی محافظ بن سکے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).