نصیبوں جلی


” نصیبوں جلی“ بچپن میں یہ لفظ پڑھا اورُ سنا مگر مطلب سمجھ میں نہ آسکا لڑکپن اور جوانی کی لا اُبالی طبیعت نے تو ہنس کر اس بہت بڑے لفظ کو چھوٹا سا سمجھ کر تمسخرانہ ہنسی میں اُڑا دیا مگر آہستہ آہستہ زندگی کے مشاہدات نے اس لفظ کے معانی سکھا دیے۔

بیٹی اپنی پیدائش سے پہلے پیٹ لکھائی کی رسم کی بھینٹ چڑھتی ہے، پیدائش کے بعد بھائیوں کے لئے قربانیاں دینا اُس کی زندگی کی ابتدا کا حصہ بنتا ہے۔ بھائی کودودھ زیادہ ملتا ہے بہن کو کم، ذرا بڑی ہوتی ہے تو بھائی اور والد کو کھانا پہلے اور زیادہ ملتا ہے۔ گوشت اور پھل کی تقسیم میں بھی بیٹی بیٹوں سے پیچھے، عیدوں تہواروں کے مو قع پر بھی بیٹا پہلے بیٹی بعد میں۔

تعلیم کے حصول میں بیٹے کو اچھی تعلیم اور بیٹی کو پہلے تو سکول نہیں بھیجا جاتا اور اگر خاندان والے راضی ہو بھی جائیں تو ایک عام سے تعلیمی ادارے میں داخلہ۔ سکول سے پڑھ کر بیٹا اور بیٹی دونوں ہی ایک وقت گھر واپس آتے ہیں مگر گھر داخل ہوتے ہی حکم ملتا ہے ”بیگ رکھو یونیفارم بدلو اور بھائی کو پانی پلاؤ وہ تھک کر آیا ہے“۔ دوپہر میں سونے کی اجازت نہیں کل کے لئے بھائی اور اپنی یونیفارم استری کرو۔ پھر قاری صاحب آجاتے ہیں قرآن پاک پڑھو اور پھر دوپہر کے استعما ل شدہ بر تن دھولو۔

شام کے کھانے میں امی کا ہاتھ بٹاؤ، سکول کے جو تے پالش کرو ہاتھ دھو کر کولر میں بر ف ڈالو، فرج کے لئے بوتلوں میں پانی بھرو، ہوم ورک کرنے کے بعد بیٹی کھانا کھا کر سو جاتی ہے کیونکہ صبح جلدی اُٹھ کر معمول کے مطابق پھر کام کرنے ہیں۔ لڑکپن اور جوانی میں بیٹی کو یہ جملہ دن میں کتنی بار سننے کو ملتا ہے کہ فلاں کام سیکھ لو اور سب کچھ سلیقہ مندی سے کیا کرو، ایسے نہ بیٹھو، ایسے اٹھو آخر ”پرائے گھر“ جانا ہے۔

سوال یہ ہے کہ وہ جس گھر میں رہتی ہے وہ باپ اور بھائی کا گھر جہاں جانا ہے وہ ”پرایا گھر“ تو آخر لڑکی کا اپنا گھر کون سا ہے؟ شادی ہونے کی عمر کو پہنچی ہے تو رضامندی پوچھنا درکنار بتانا بھی گوارہ نہیں کیا جاتا کہ شادی کہاں طے ہوری ہے پھر ”پرائے گھر“ کی دہلیز پار کرتے ہی اُس کے نا تواں کندھوں پر کبھی نہ ختم ہونے والی ذمہ داریوں کا بو جھ ڈال دیا جاتا ہے۔ سسرال میں سب کی خد مت، تینوں وقت کھانا بنانا، کپڑے دھونا، صفائی کرنا، برتن دھونا، آئے گئے مہمانوں کی خاطر تواضع روزانہ کا معمول، شوہر کی خدمت اور فرمانبرداری تو ایک علیحدہ مضمون ہے۔

بچوں کی تربیت میں ظاہر ہے اولین ذمہ داری ماں کی ہے۔ بچے اچھا کام کریں تو کہا جاتا ہے کہ باپ کی طرف سے وراثت میں اچھا کام کرنا ملا ہے اور غلطیاں کریں تو سسرال اور شوہر صاحب بھی یہی کہتے ہیں کہ تم نے اچھی تربیت کی ہوتی تو آج یہ ایسا نہ ہوتا۔ اگر عورت ملازمت کرتی ہے تو دُہری ذمہ داریاں گھر کی بھی اور باہر کی بھی اور ہر شام یہ بھی سننا مقدر بن جاتاہے کہ تم نے سارا دن کیا کیا؟ بیمار ہونے پر دوائی بھی نہیں ملتی اور طعنے بھی دیے جاتے ہیں کہ تم تو ہر وقت بیمار رہتی ہو اب بہانے کرنا بند کرو یا پھر اپنی ماں کے گھر چلی جاؤ ٹھیک ہو جاؤ تو واپس آجا نا اور اگر نصیبوں جلی میکے چلی بھی جائے تو پیغام آنا شروع ہوجاتے ہیں کہ تمہیں گھر کی پرواہ نہیں جو وہاں جا کر بیٹھ گئی ہو۔ نصیبوں جلی کیا کرے؟ کہاں جائے؟

دو تین بیٹیاں پید ا ہوگئیں تو گھر والے، رشتہ دار، دوست احباب، محلہ دار شوہر کو مشورہ دینا شروع کر دیتے ہیں کہ یہ عورت تمہیں بیٹا نہیں دے سکتی دوسرا بیاہ کرو اور وہ نصیبوں جلی پھر اپنا شوہر جس کا بٹوارہ اُس کے لئے ناقابل برداشت ہوتا ہے بچانے کے لئے دن رات تڑپتی رہتی ہے۔ جہیزکم لانے پر، میکے سے جائیداد نہ لانے پر، کم تعلیم یافتہ ہونے پر اور بہت زیادہ پڑھی لکھی ہو کر ملازمت کرنے والے ادارے میں افسران بالا سے ہراساں کیے جانے پر ظلم و ستم کا نشانہ بننے والی نصیبوں جلی کسے اپنے دُکھ میں شریک کرے۔ سننے والا ہمدردی کے دو بول بولے گا اورپھر وہی روز شب، روزجینا، روز مرنا اور آخرکار ”پرائے گھر“ جسے اپنا بنانے اور اُ سکی مالکن بننے کی کوشش کرتے کرتے اپنے ”اصل گھر“ میں ابدی نیند سو جاتی ہے۔

ضرب کچھ ایسی لگی تھی ٹوٹ کر ”بکھری“ جو میں

خو د کو چُن لینے کے سارے حوصلے جاتے رہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).