کیا ہم سیاحتی معیشت کے لئے تیار ہیں؟


تحریک انصاف کی حکومت نے ملک میں سیاحت کے فروغ کے لئے نئی ویزا پالیسی کا اعلان کیا ہے۔ اس پالیسی کے مطابق 175 ممالک کے شہری آن لائن ویزا کے حصول کے لئے درخواست دینے کے اہل ہوں گے۔ 50 ممالک کے شہریوں کو ائرپورٹ آمد پر ہی ویزا جاری کر دیا جاِے گا۔ اور 96 ممالک کے شہریوں کے لئے اب آسان کاروباری ویزے کا حصول ممکن ہو گا۔ بس انہیں اب بورڈ آف انویسٹمنٹ کے ایک خط کی ضرورت ہو گی، جس کے سات سے دس دن کے اندر ان کو ویزا جاری کر دیا جائے گا۔

اسی طرح طلباء کے ویزے اور مذہبی زیارات کے ویزا کے عمل کو بھی آسان بنایا گیا ہے۔ مذہبی ویزے میں قیام کی مدت کو بڑھا کر 45 دن کر دیا گیا ہے۔ ہندوستانی نژاد مغربی ممالک کے پاسپورٹ کے حامل ہندو اور سکھ بھی اس سہولت سے فائدہ اٹھانے کے اہل ہوں گے۔ تاہم پڑوسی ملک ہندوستان کے شہریوں کو یہ سہولت حاصل نہیں ہوگی۔

بادی النظر میں تو ایسا لگتا ہے کہ حکومت کے اس عمل سے ملک میں غیر ملکی سیاحوں کا سیلاب آ جائے گا۔ پوری دنیا سے لوگ پاکستان کی طرف امڈ پڑیں گے۔ لیکن کیا حقیقت میں بھی ایسا خوش کن منظر تخلیق ہو پائے گا؟

میرا ذاتی خیال ہے کہ ابھی ایسا کچھ ہونا بہت مشکل ہے۔ اگرچہ پاکستان کے پاس دنیا کو دکھانے کے لئے بہت کچھ ہے۔ مگر اس کے لئے مناسب تیاری نہیں کی گئی ہے۔ یہ کچھ ایسا ہی ہے کہ آپ کسی کو کھانے پر بلا لیں اور اس کے بعد اس کی ضیافت کے لئے مرغی پکڑنے دوڑ پڑیں۔ ظاہر اتنی دیر مہمان یا تو بیٹھ کر پلیٹ بجاتا رہے، یا پھر اٹھ کر واپس چل دے۔

دنیا بھر میں سیاحت میں سر فہرست ساحلی سیاحت، شہری سیاحت، قدرتی مناظر وتاریخی مقامات کی سیاحت، مذہبی سیاحت اور تیزی سے پھلتی پھولتی حلال سیاحت شامل ہیں۔

سب سے پہلے ساحلی سیاحت کی طرف آتے ہیں۔ ہمارے پاس ایک طویل ساحلی پٹی اور مختلف جزائر موجود ہیں۔ لیکن ہمارے پاس ایک بھی ترقی یافتہ اور جدید سیاحت کے تقاضوں سے ہم آہنگ ساحل موجود نہیں، جہاں پر جدید طرز کے ٹورسٹ ریزارٹ، ہوٹل، ریستوران، بار، کیفے، اور مارکیٹس ہوں۔ ترقی یافتہ انفراسٹرکچر ہو۔ سیکیورٹی کا اعلیٰ نظام ہو، اور ایسے مقامات سڑک، ریل، سمندر یا پھر کسی ائرپورٹ کے ذریعے سے غیر ملکی سیاحوں کے لئے قابل رسائی ہوں۔

رہی بات جزائر کی تو مشرف دور حکومت میں ایک اماراتی کمپنی نے کراچی سے کچھ دور دو جزائر ”بنڈال اور منڈاوا“ کو ڈیویلپ کرنے اور ان پر نئے سیاحتی شہر بسانے میں دلچسپی ظاہر کی تھی، لیکن ان جزائر کی ملکیت پر صوبائی اور وفاقی حکومتیں آپس میں لڑتی رہیں اور وہ سرمایہ کاری کہیں اور چلی گئی۔ تو موجودہ صورتحال میں ان ویران اور سنسان غیر آباد ساحلی مقامات تک غیر ملکی سیاحوں کو لانا ناممکن امر ہے۔ مالدیپ، سری لنکا، انڈونیشیا اور کئی دوسرے ممالک ساحلی سیاحت سے بہت کچھ کما رہے ہیں۔

شہری سیاحت میں دبئی، قطر، سنگاپور اور ہانگ کانگ جیسے شہر و ممالک ہیں جن کے پاس تاریخی ورثہ تو زیادہ نہیں لیکن بہترین انفراسٹرکچر، ائرپورٹس، ہوٹل، اورشاپنگ مالز وغیرہ ہیں۔ ان ملکوں میں امن و امان اور صفائی کی بہترین صورتحال اور ڈیوٹی فری شاپنگ جیسی سہولیات غیر ملکی سیاحوں کے لئے کافی پرکشش ہیں۔ اس معاملے میں بھی ہم شاید ان جیسے ممالک کا مقابلہ نہ کر سکیں۔ کیونکہ ہمارے شہر بے ترتیب اور گندگی سے اٹے ہوئے ہیں۔

اور امن و امان کی صورتحال انتہائی مخدوش ہے۔ باہر سے آنے والے مہمانوں کے ساتھ پیش آنے والا کوئی بھی نا خوشگوار واقعہ ہمیں پھر سے کئی سال پیچھے دھکیل سکتا ہے۔ باقی لے دے کے شمالی پاکستان کے پہاڑی علاقے، کچھ تاریخی عمارات و آثار اور کچھ ہندو اور سکھ مذہب کے ماننے والوں کے مقدس مذہبی مقامات رہ جاتے ہیں۔ ان مذاہب کے ماننے والوں کی اکثریت پڑوسی ملک ہندوستان میں آباد ہے۔ ان مذہبی مقامات میں سیاحت کے فروغ کے کافی مواقع ہیں۔

لیکن اس میں بھی مشکل یہ ہے کہ سالہا سال سے بگڑتے ہوئے باہمی تعلقات کے سبب ہندوستان سے مذہبی سیاحت کے لئے آنے والوں کی بالکل معمولی تعداد کو ہی ویزے جاری ہوتے ہیں۔ اس پر بھی دونوں اطراف میں محدود نقل و حرکت کی اجازت ہوتی ہے۔ اور پاکستان کی نئی ویزا پالیسی میں ہندوستان کو شامل نہیں کیا گیا۔ اگرچہ ہندوستانیوں کا پاکستانیوں کو ویزے جاری کرنے کا ریکارڈ ہم سے بھی زیادہ خراب ہے۔ لیکن اس وقت ہمارے لئے غیر ملکی سیاحوں کی آمد بہت فائدہ مند ہے۔

اس لئے ہمیں ہندوستان کے لوگوں کے لئے بھی ویزا شرائط نرم کرنی چاہییں۔ کم از کم اتنا ہی کر لیں کہ 50 سال سے اوپر کے شہریوں، گروپس کی صورت میں آنے والوں کے لئے، طالبعلموں کے لئے اور فیملی سمیت آنے والوں کے لئے ویزا بارڈر پر ہی فراہم کر دیا جائے۔ باقی ہمارے شمالی علاقہ جات کی سیاحت کے لئے دنیا بھر سے کافی لوگ آ سکتے ہیں، لیکن ان علاقوں میں بہترین سڑکوں، ہوٹلوں اور دیگر سہولیات کو تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔

مقامی لوگوں اور پولیس وغیرہ کی مناسب تربیت، ان علاقوں کی صفائی ستھرائی اور خاص طور پر ہمارے ائرپورٹس پر تعینات لوگوں کی بھی تربیت کی سخت ضرورت ہے۔ کہیں ا یسا نہ ہو کہ ان لوگوں کے رویے سے لوگ بد دل ہو کر آنا ہی چھوڑ دیں۔ اور سب سے اہم بات یہ کہ دنیا بھر میں حلال سیاحت کی مارکیٹ بڑھ رہی، اگر ہم صرف امیر خلیجی مسلم ممالک کے لوگوں کو ہی اپنے بچوں سمیت پاکستان آنے پر مائل کر لیں تو یہ بہت بڑی کامیابی ہو گی۔

اس وقت حلال سیاحت کی مارکیٹ میں سے 80 % حصہ صرف ملائشیا لے رہا ہے۔ اس قسم کی سیاحت میں حلال خوراک، عبادت کے لئے مناسب جگہوں کی فراہمی اور مناسب سیکیورٹی اور رہائشی سہولتوں کی فراہمی بہت اہم ہے، اور یہ کچھ بھی مشکل نہیں ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ ہمیں علاقائی سیاحت کو بھی فروغ دینا چاہیے۔ یہاں سے بہت بڑی تعداد میں لوگ ایران، عراق اور سعودی عرب وغیرہ جاتے ہیں، لیکن وہاں سے پاکستان کوئی نہیں آتا۔ تمام پڑوسی ملکوں کے ساتھ سڑک اور ریل کے روابط بہتر بنانا ہوں گے۔ اور تعلقات بھی بہتر کرنا پڑیں گے۔ سیاحت کے فروغ سے ان سب ملکوں کے لوگ ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ اور ہمیں معقول آمدنی ہونے کے ساتھ ساتھ ہماری عالمی تنہائی بھی ختم ہو گی۔ لیکن اس بڑی تعداد میں لوگوں کو خوش آمدید کہنے کے لئے ہمیں بھر پور تیاری کرنا ہو گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).