کتوں والی


کچھ عرصہ پہلے کی بات ہے کہ ہمارے محلے میں ایک گھر تھا۔ ویسے تو ہر محلے میں ہی گھر ہوتے ہیں مگر اس گھر کی ایک خاص بات تھی۔ وہ خاص بات یہ تھی کہ اس گھر کی خاتون خانہ کو کتے پسند تھے۔ اپنے شوق کی تسکین کے لیے اس نے اعلیٰ نسلوں کے چھ سات کتے مختلف سائزوں میں پالے ہوئے تھے۔ ان کتوں کی وجہ سے وہ خاتون محلے میں کتوں والی کے نام سے مشہور تھی۔ سارا دن اس کے گھر میں سے بھونکنے کی آواز یں آتی رہتی تھی۔ بعض اوقات یہ تمیز کرنا دشوار ہو جاتا تھا کہ اس گھر میں کون بول رہا ہے اور کون بھونک رہا ہے۔ آج کل بھی یہ تمیز کرنا بہت دشوار کام ہے۔ کچھ سمجھ نہیں آتا کہ کون بھونک رہا ہے اور کون بول رہا ہے۔ سب کچھ گڈ مڈ ہو کر رہ گیا ہے۔

محلے میں اکثر چہ میگوئیاں چلتی تھیں کہ اتنا لاڈ پیار وہ سگ پرست خاتون اپنے شوہر سے بھی نہیں کرتی ہو گی جتنا وہ اپنے کتوں سے کرتی ہے۔ روز شام کو وہ چہل قدمی کے لیے نکلتی تھی تو عموماً اس کے ہمراہ کتے ہی ہوتے تھے۔ اس کے شوہر کو اس کے ہم رکاب شاذ و نادر ہی دیکھا گیا۔ محلے کے بزرگ خواتین و حضرات اکثر یہ رائے دیتے پائے گئے کہ اگر کبھی چہل قدمی میں اس کا شوہر اس کے ساتھ ہو تب بھی دیکھنے والوں کو کوئی فرق نظر نہیں آتا۔

کتا ہمارے معاشرے میں عام طور پر ایک نجس جانور سمجھا جاتا ہے۔ مگر کچھ لوگ کتوں کے عشق میں مبتلا ہیں۔ کسی نے کہا تھا کہ شادی کرنے سے بہتر ہے کہ بندہ کتا پال لے۔ ہو سکتا ہے کہ یہ بات درست ہو مگر ہمارے ہاں لوگ شادی بھی کر لیتے ہیں۔ ایسی شادیاں قابل رشک نہیں ہوتیں۔ اکثر ایسا ہوتا ہے کہ شادی کے بعد شریک حیات اور کتے میں توازن برقرار رکھنے کی کوشش میں دونوں کے ساتھ ایک جیسا سلوک روا رکھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے آپ میں سے کچھ لوگ اس بات کے عینی شاہد ہوں۔

کتا ایک وفادار جانور ہے۔ مگر کسی وفادار انسان کو کتا نہیں کہا جاتا۔ البتہ کچھ پرانے ذہن کے منفی قسم کے لوگ گھر داماد ہونے کو کتا ہونے کے مترادف سمجھتے ہیں۔ ایسے لوگوں ہم کو غلط سمجھتے ہیں کیونکہ کتا غیر مشروط طور پر وفادار ہوتا ہے۔ کچھ لوگ وفادار کو شیر بھی کہ دیتے ہیں۔ ہمیں یہ شیر والا الزام وفاداری کے تناظر میں درست معلوم نہیں ہوتا۔ کیونکہ نہ تو کتا شیر ہو سکتا ہے اور نہ ہی شیر وفادار ہوتا ہے۔

لیکن یہ پاکستان ہے اور یہاں کچھ بھی ہو سکتا ہے۔ آپ کو اگر کبھی سرکس دیکھنے کا اتفاق ہوا ہو تو آپ نے دیکھا ہو گا کہ سرکس والوں نے شیر کو بھی کتا بنا کر رکھا ہوتا ہے۔ شیر مگر شیر ہوتا ہے۔ اگر سرکس سے باہر نکل جائے تو دھاڑتا پھرتا ہے۔ اگر موقع مل جائے تو چیر پھاڑ بھی سکتا ہے۔ شیر پر کافی کچھ لکھا جا سکتا ہے مگر فی الوقت ہمارا موضوع کتوں والی ہے اس لیے شیر سے صرف نظر کرتے ہوئے ہم صرف کتوں تک ہی محدود رہتے ہیں۔

کتے کی دم ٹیڑھی ہوتی ہے۔ ہم سب اپنے محلوں، گلیوں اور سڑکوں پر ٹیڑھی دموں والے کتے دیکھتے رہتے ہیں۔ شریف لوگ ان ٹیڑھی دموں سے بچ کر رہنے کی کوشش کرتے ہیں۔ مگر ہر شریف آدمی کو اپنی زندگی میں کبھی نا کبھی ان ٹیڑھی دموں سے پالا پڑتا ہی رہتا ہے۔ کتوں والی کے کتوں کی دمیں بھی ٹیڑھی ہی تھیں۔ اکثر وہ ٹیڑھی دموں والے کتے گزرتے راہگیروں پر بھونکنا شروع کر دیتے تھے۔ ایسے میں کتوں والی اپنے پالتو کتوں کو ہشکار ہشکار کر خاموش کراتی تھی۔ کتے خاموش تو ہو جاتے تھے مگر ان کی بے چینی نہیں جاتی تھی۔ اچھی بات یہ تھی کہ کتے والی کا کنٹرول اپنے کتوں پر بہت زیادہ تھا۔ کنٹرول مضبوط نہ ہو تو کبھی کبھار پالتو کتے بھی مالکوں پر بھونکنے لگتے ہیں۔

جو کتے پالتو یا تربیت یافتہ نہ ہوں ان کو آوارہ کتے کہا جاتا ہے۔ یہ آوارہ کتے ہر گلی، محلے، شہر اور قصبے میں پائے جاتے ہیں۔ عموماً یہ چھوٹے چھوٹے گروہوں میں رہتے ہیں۔ یہ بلا تخصیص ہر ایک پر بھونکتے ہیں۔ یہ کتے فطرتاً بزدل ہوتے ہیں۔ اگر ان کو پتھر اٹھا کر مارا جائے تو یہ چیاؤں چیاؤں کرتے دور بھاگ جاتے ہیں اور دور دور سے بھونکتے رہتے ہیں۔ ایسے کتوں کے لیے ڈنڈا بہت ضروری ہے۔ ڈنڈا دیکھتے ہی ان کتوں کا بھونکنا بند ہو جاتا ہے مگر رال بہتی رہتی ہے۔ ڈنڈا ہاتھ میں رکھنے والا ہی ان کتوں کا علاج کر سکتا ہے۔

کچھ آوارہ کتے پاگل ہو جاتے ہیں۔ اگر ان کے ہتھے کوئی معصوم بچہ چڑھ جائے تو یہ اس کوبھنبھوڑ کر رکھ دیتے ہیں۔ ایسے پاگل کتوں پر گہری نظر رکھنی چاہیے۔ اگر کسی آوارہ کتے میں پاگل پن کے آثار نظر آئیں تو فوراً متعلقہ اداروں کو اطلاع کرنی چاہیے تاکہ کسی انتہائی نقصان سے بچا جا سکے۔ پاگل کتے بعض اوقات پہچانے نہیں جاتے۔ ہمارے اخباروں میں اکثر و بیشتر آوارہ کتوں کے معصوم بچوں کو بھنبھوڑ دیے جانے کی خبریں شائع ہوتی رہتی ہیں۔

کتے گھروں میں حفاظت کے خیال سے بھی رکھے جاتے ہیں۔ خود ہم نے بھی کسی زمانے میں ایک السیشئن کتا پالا تھا مگر اس کو کتے تک ہی محدود رکھا تھا۔ حالانکہ دکھنے میں وہ کسی چھوٹے موٹے شیر سے کم ہر گز نہیں تھا۔ ہم نے اس کا نام بھی ٹائیگر ہی رکھا ہوا تھا۔ وہ ایک نسلی کتا تھا مگر اس میں ایک خرابی تھی۔ اگر اس کے سامنے راتب موجود ہو اور کوئی اس سے چھیڑچھاڑ کرے تو وہ کسی کا لحاظ نہیں کرتا تھا اور اندھا دھند حملہ آور ہو جاتا تھا۔

ایک بار نادانستگی میں ہم اس کو چھیڑ بیٹھے تھے۔ نتیجہ یہ نکلا کہ اس کتے نے ہم پر حملہ کر دیا اور ہماری قمیص سامنے سے دو حصوں میں تقسیم ہو گئی تھی۔ ہماری آہنی مزاحمت کی وجہ سے کتے کے کان کے قریب ایک زخم پیدا ہو گیا جو بڑھتے بڑھتے ناسور بن گیا تھا۔ جب زخم ناسور بن جائیں تو ان کا علاج ممکن نہیں رہتا۔ ہم نے بھی کتے کو گولی مار دی تھی۔

اویس احمد

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

اویس احمد

پڑھنے کا چھتیس سالہ تجربہ رکھتے ہیں۔ اب لکھنے کا تجربہ حاصل کر رہے ہیں۔ کسی فن میں کسی قدر طاق بھی نہیں لیکن فنون "لطیفہ" سے شغف ضرور ہے۔

awais-ahmad has 122 posts and counting.See all posts by awais-ahmad