سکھر کے معصوم شاہ مینار کو قبضہ گیروں سے آزادی کب ملے گی ؟


معصوم شاہ کا مینارہ سکھر شہر ہی نہیں پورے سندھ بلکہ ملک کا لینڈ مارک ہے۔ سندھ کے تقریبا ہر تعلیمی ادارے یا بہت سے سرکاری کھاتوں کے مونوگرام اور لوگو پر یہ مینار پوری آب و تاب کے ساتھ نظر آتا ہے۔ 1617ء کے لگ بھگ لال اینٹوں سے بنائے گئے اس مینار کی اونچائی 31 میٹر ہے مگر شہر کی سب سے اونچی جگہ پر بننے کی وجہ سے اس کی اونچائی بلندی کی معراج کو چھوتی محسوس ہوتی ہے۔ اس مینار کی زمینی چوڑائی 26 میٹر ہے جو اوپر جاتے جاتے کم ہوتی جاتی ہے۔ مینار کی سیڑھیاں 84 قدموں پر مشتمل ہے جو مینار کے اندر گولائی میں گھومتی جاتی ہے جس میں ایک وقت میں صرف ایک آدمی ہی اوپر یا نیچے جا سکتا ہے مگر مینار کے اندر سیڑھیوں میں ایسے مقامات بنے ہیں کہ اگر اوپر یا نیچے جانے والے ایک دوسرے کے سامنے آ جائیں تو اُس پوائنٹ پر ایک دوسرے کو گزرنے کی جگہ دے سکیں۔ اس جگہ کو ہم ریسٹ پوائنٹ یا سیڑھیاں چڑھتے ہوئے وقفہ لینے کی جگہ بھی کہہ سکتے ہیں

معصوم شاہ کا مینارہ کسی بھی طرح اٹلی کے پیسا ٹاور، استنبول کے گلاٹا ٹاور یا انڈیا کے قطب مینار سے کم نہیں ہے، مگر جس طرح ہم نے اپنے ملک میں کسی چیز کی قدر نہیں کی اسی طرح معصوم شاہ کا مینارہ بھی آج کل لاوارث ہے اور اس کی ارد گرد قبضہ گیروں نے ایسا قبضہ کیا ہوا ہے کہ اس مینارے کا تقریبا چار سو سال پرانا دروازہ بھی نظر نہیں آتا جو صرف چند برس قبل ہی ایک کلو میٹر دور سے بھی نظر آتا تھا۔ اب اس کے دائیں بائیں قبضہ کی دکانیں بنی ہوئی ہیں۔

ابھی کل ہی کی بات ہے۔ صرف دس بارہ سال پہلے معصوم شاہ کا مینارہ، اس کا داخلی دروازہ دور سے نظر آتا تھا مگر دیکھتے ہی دیکھتے دروازے کے دونوں اطراف دکانیں بننا شروع ہو گئیں اور اب وہ داخلی گیٹ ڈھونڈنا پڑتا ہے کہ کس جگہ ہے، اس تاریخی جگہ کے اطراف میں دکانیں اور قبضے بلکل ایسے ہی ہیں جیسے ایمپریس مارکیٹ کراچی کے چاروں طرف تھے، ان قبضوں کو خالی کرانے کے بعد آپ ایمپریس مارکیٹ جا کر دیکھیں تو ایسا محسوس ہوتا ہے کہ اس عمارت کا دم گھٹا ہوا تھا اور اب جا کے اس خوبصورت بلڈنگ نے سانس لی ہے۔ اسی طرح معصوم شاہ کے مینارے کا قبضہ گیروں نے دم گھونٹ رکھا ہے اس کو بھی ایمپریس مارکیٹ کی طرح آزاد کروا کر سانس لینے دیا جائے۔ اس کے دائیں بائیں قبضہ کی زمین پہ بنی دکانیں ایک دم گرائی جائیں،

یہ تاریخی عمارت صرف شو پیس ہی نہیں بلکہ سیاحوں کے لیئے ایک شاندار تفریحی جگہ ہے جو اگر ٹھیک طور پر چلائی جائے تو ٹکٹ کے طور پر کافی ریونیو کما کر دے گی مگر قبضہ مافیا نے اس جگہ کو ایسا بنا دیا ہے کہ ارد گرد کا ماحول ایسا رہا ہی نہیں کہ بچوں یا فیملی کو وہاں لے جایا جائے اور سونے پہ سہاگہ یہ کہ پتہ نہیں کہ کس کم علم نے ان کو بتایا ہے کہ اس مینار پر جانے کے لیئے آپ کو جوتیاں اتار کر جانا پڑے گا، جیسے کوئی مقدس جگہ ہو۔ (کم از کچھ سال پہلے تک ایسا ہی تھا، اب کیا ہے پتہ نہیں)۔ اس عمل کی وجہ سے سینکڑوں لوگ وہاں نہیں جاتے۔ یہ ننگے پائوں جانے کی پابندی صرف عام اور غریب لوگوں کے لیے ہے، کوئی طاقتور آتا ہے تو چوکیدار کو جرات نہیں کہ اس کو جوتے اتارنے کے لیے کہہ سکے اور آخر ننگے پائوں کوئی جائے بھی تو کیوں؟

بہرحال، معصوم شاہ کے مینار کو استنبول، ترکی کے گلاٹا ٹاور کی طرح، جدید کر کے کروڑوں روپے کمائے جا سکتے ہیں اور پورے ملک کو ایک شاندار تاریخی تفریحی مقام میسر آ سکتا ہے۔ گلاٹا ٹاور استنبول کو ٹاور آف جیزس بھی کہا جاتا ہے جس کا لاطینی زبان میں مطلب ہے، یسوع کا مینار۔ گلاٹا ٹاور کی اونچائی سکھر کے معصوم شاہ مینار کی اونچائی سے دگنی یعنی 61 میٹر ہے مگر زمینی چوڑائی اس سے کم ہے پھر بھی اس میں دو شاندار لفٹ لگا کر اوپر چھوٹا سا ریسٹورنٹ بھی بنا دیا گیا ہے۔ ٹکٹ خریدیں اور بذریعہ لفٹ اوپر جا کر پورے استنبول کا دلفریب منظر دیکھیں۔ اسی طرح اٹلی مں پیسا ٹاور اور انڈیا میں قطب مینار نہ صرف اپنے ملکوں کی شان اور پہچان بنے ہوئے ہیں بلکہ ہر سال کروڑوں روپے کما کر دے رہے ہیں مگر ایک ہم بد نصیب ہیں کہ چند قبضہ گیر دکاندار معصوم شاہ کے مینارے کو انکروچ کر کے بیٹھے ہوئے ہیں اور کوئی کم عقل اور کم علم مجاور مینارے پر جانے کے لیئے بھی لوگوں سے جوتیاں اترواتا پھرتا ہے۔

ہماری حکومت سے پرزور اپیل ہے کہ کراچی کی ایمپریس مارکیٹ کی طرح معصوم شاہ مینارہ سکھر کو بھی انکروچمنٹ مافیا سے آزاد کرا کر اس کی بیس سال پہلے والی پوزیشن بحال کروائی جائے اورمین گیٹ کے دائیں بائیں قبضے مسمار کر کے وہاں پارک بنایا جائے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).