جندر: اختر رضا سلیمی کا نیا ناول


اختر رضا سلیمی کا دوسرا ناول ہے۔ اس سے پہلے وہ “جاگے ہیں خواب میں” کی صورت میں اُردو ناول کی دنیا میں اپنی آمد کا اعلان کر چکا ہے۔ پہلا ناول تجرباتی ناول تھا جس میں سلیمی نے بہت سے تصورات لے کر ان کو مہارت کے ساتھ ایک بیانیے میں پرو دیا۔ زمان، مکان، ماضی، حال، مستقبل، شعور، لاشعور، اجتماعی لاشعور، تاریخ، لوک روایت غرض ایک ایسی لڑی بنائی جس میں پڑھنے والے کے لیے بہت کچھ تھا۔
یہی وجہ تھی کہ محمد سلیم الرحمٰن نے ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘ کے بارے میں ریویو لکھتے ہوئے اس تشکیک کا اظہار کیا کہ سلیمی نے ’’جاگے ہیں خواب میں‘‘، میں اتنا کچھ کھپا دینے کی کوشش کی ہے کہ اگلے ناولوں کا موضوع تلاش کرنا مشکل ہو سکتا ہے۔ سلیمی نے اس بات کو کان دھر کر سنا اور اپنے لیے ایک اچھوتا موضوع چن لیا، زندگی۔ جی ہاں، ہر دم رواں موضوع۔
سلیمی نے جندر کی مدد سے زندگی کی آر جار کے آفاقی موضوع کو کمال دانائی سے بیان کیا ہے۔ جندر ایک چکی کو کہتے ہیں جو پانی کی مدد سے چلتی ہے۔ یہاں جندر وقت کی رفتار کا استعارہ ہے۔ وقت گزر رہا ہے اور اس کی لپیٹ میں کئی سجل جوانیاں آتی چلی جا رہی ہیں۔ ایک وقت تو ایسا لگتا ہے کہ ہم سب جندر کے پاٹ میں آئے ہوئے وہ دانے ہیں جنھیں وہ پیس رہا ہے اور ایک کے بعد دوسری نسل گزرتی چلی جا رہی ہے۔
یہاں صورت حال یہ ہے کہ جندر کی نسل جس سے خود ناول نگار کا تعلق ہے ختم ہو رہی ہے اور نئی نسل میں جندر کے لیے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہی دبدھا ناول نگار کے سامنے بڑا سوال ہے۔ ہم تبدیلی کو روک بھی نہیں سکتے اور ہم تبدیل ہونا بھی نہیں چاہتے۔ یہ سوال بڑا معما بن کر سامنے آتا ہے۔ نئی مشین پرانے آلات پر غالب آ رہی ہے اور پرانے لوگ پرانی چیزوں کو سینے سے لگا کر رکھنا چاہتے ہیں۔ نہ نگلتے بن پڑتی ہے نہ پھینکتے۔
اس پیچ دار صورت کو ناول نگار نے پُراثر منظروں اور کفایت شعار زبان کی مدد سے بیان کیا ہے۔ فکشن میں کسی بھی لکھاری کی کامیابی کے مواقع اس وقت زیادہ بڑھ جاتے ہیں جب وہ چیزوں کو بتانے کی بجائے دکھاتا ہے۔ جندر میں اپنی بیتی کو سنایا نہیں بلکہ منظر دکھائے گئے ہیں جن کی مدد سے قاری خودبخود اپنی مطلوبہ کیفیت تک پہنچ جاتا ہے۔
جندر مشاقی سے بنا ہوا بیانیہ ہے۔ چوکس بیانیہ۔ سلیمی باخبر لکھاری کی طرح لکھتا ہے۔ ایسی لکھائی جس میں ساتھ ساتھ تجزیہ بھی چلتا رہتا ہے، جس طرح کوئی لکھنے والا اپنی ناکامیوں اور کامیابیوں سے روشناس ہونے کا ہوکا رکھتا ہو۔ اردو فکشن میں اکیسویں صدی کے آغاز میں جن توانا آوازوں نے اپنا کوئی رنگ دکھایا ہے اختر رضا کا رنگ بلاشبہ چوکھا اور گوڑا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس نے بہت جلد ہماری توجہ اپنی طرف مبذول کروا لی ہے۔ دیکھیں اگلے ناول میں وہ ہمیں کس دنیا میں لے کے جاتا ہے۔ یہ دنیا جو اس نے دکھائی ہے اس میں دیر تک رہنے کو جی چاہتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).