حج کی ادائیگی بنیادی انسانی حق نہیں


وزیر اطلاعات فواد چوہدری کی اس بات سے اختلاف کی کوئی گنجائش نہیں کہ ’حج اور زکوٰۃ دو ایسی عبادات ہیں جو استطاعت رکھنے والوں پر واجب ہیں۔ سبسڈی کا مطلب یہ ہے کہ حکومت غریب لوگوں سے رقم لے کر حج کرائے۔ یہ حج عبادت کے بنیادی فلسفے سے ہی متصادم ہے‘ ۔ وفاقی وزیر اطلاعات نے یہ بات ایک ٹوئٹر پیغام میں کہی ہے۔ اس دوران سینیٹ اور قومی اسمبلی میں اپوزیشن کے لیڈروں نے حکومت کی طرف سے حج پر سبسڈی ختم کرتے ہوئے اس کے مصارف میں ساٹھ فیصد تک اضافہ پر شدید احتجاج کیا ہے۔

اپوزیشن لیڈر جن میں مسلم لیگ (ن) کے صدر شہباز شریف بھی شامل ہیں، حکومت کے خلاف اس بنیاد پر طعن و تشنیع کر رہے ہیں کہ مدینہ ریاست بنانے کا دعویٰ کرنے والی حکومت لوگوں کو حج جیسی عبادت سے محروم کرنے کا سبب بن رہی ہے۔ تاہم فواد چوہدری کی طرح وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے بھی اس نکتہ چینی کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ’ریاست مدینہ کا مطلب یہ نہیں کہ لوگوں کو مفت حج کروایا جائے‘ ۔

گزشتہ روز وفاقی کابینہ نے نئی حج پالیسی کا اعلان کرتے ہوئے سال رواں کے دوران حج کی ادائیگی پر حکومت کی طرف سے فراہم کی جانے والی رعایت ختم کرنے کا فیصلہ کیا تھا۔ اخبارات میں یہ خبر شائع ہوئی تھی کہ وزیر مذہبی امور نور الحق قادری کی طرف سے 70 ہزار روپے فی حاجی رعایت دینے کی تجویز دی گئی تھی اور جب وفاقی کابینہ نے وزارت مذہبی امور کی تجویز کو منظور کرنے سے انکار کیا تو نور الحق قادری ناراض ہو کر کابینہ کے اجلاس سے چلے گئے اور انہوں نے حج پالیسی کے بارے میں پریس کانفرنس کرنے سے بھی انکار کر دیا تھا۔

حکومت کے فیصلہ کے مطابق سال رواں کے دوران سرکاری کوٹہ میں حج کرنے والوں کو ساڑھے چار لاکھ کے لگ بھگ رقم ادا کرنا پڑے گی۔ یہ لاگت گزشتہ برس وصول کی جانے والی تین لاکھ روپے کے مقابلے میں 63 فیصد زیادہ بتائی جا رہی ہے۔ گزشتہ برس پاکستان کے ایک لاکھ 80 ہزار افراد نے حج کا فریضہ ادا کیا تھا۔ تاہم ان میں سے ایک لاکھ 20 ہزار لوگ سرکاری انتظامات کے تحت حج کی ادائیگی کے لئے گئے تھے۔

ان اعداد و شمار کو رہنما مانا جائے تو گزشتہ برس کی قیمت پر حج کی سہولت فراہم کرنے سے حکومت کو 20 ارب روپے سرکاری خزانہ سے فراہم کرنے پڑتے۔ اور اگر وزارت مذہبی امور کی تجویز کے مطابق 70 ہزار فی کس سبسڈی فراہم کرنے کا اصول تسلیم کرلیا جاتا تو حکومت کو 8 سے 10 ارب روپے اضافی خرچ برداشت کرنا پڑتا۔ سینیٹ میں اپوزیشن کے احتجاج کا جواب دیتے ہوئے پارلیمانی امور کے وزیر مملکت علی محمد خان نے بتایا ہے کہ ’حکومت تو مدینہ ریاست کے مقصد میں سنجیدہ ہے لیکن اس سال سعودی عرب میں اخراجات بڑھنے کی وجہ سے حج مصارف میں اضافہ ہؤا ہے۔

حکومت حج کے انتظامات سے منافع کمانے کا ارادہ نہیں رکھتی‘ ۔ تاہم اس کے باوجود اپوزیشن نے سینیٹ کے اندر اور باہر حکومت پر الزام لگایا کہ وہ مدینہ ریاست قائم کرنے کے دعوے کرتی ہے لیکن ایک اہم عبادت میں رکاوٹ ڈالی جارہی ہے۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے یہ معاملہ قومی اسمبلی میں اٹھانے کا اعلان بھی کیا ہے۔ فی الوقت حکومت اپنے فیصلے پر قائم ہے لیکن اگر اپوزیشن کی طرف سے شور و غل میں اضافہ ہوتا ہے اور سنسنی خیزی کی تلاش میں ملکی میڈیا بھی اس مطالبے کو لے کر حکومت کے خلاف مہم جوئی کرتا ہے تو اس بات کا امکان موجود ہے کہ حکومت یو ٹرن لیتے ہوئے حج مصارف میں کچھ رعایت دینے کا اعلان کردے۔ تاہم اس قسم کا اعلان وزیر اطلاعات کی طرف سے بیان کردہ حج کی عبادت کے بنیادی اصول سے متصادم ہی ہو گا۔

اپوزیشن نے آج حج پالیسی کی بنیاد پر حکومت کو جس طرح مدینہ ریاست کا طعنہ دیا ہے وہ سراسر سیاسی ہتھکنڈہ ہے۔ اس کا مذہبی معاملات یا دینی احکامات سے کوئی تعلق نہیں۔ اسلام آباد میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے وزیر مذہبی امور نورالحق قادری نے بھی اصرار کیا ہے کہ ’ریاست مدینہ کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ حج پر سبسڈی دی جائے۔ حج ایک دینی فریضہ ہے۔ جس پر حج فرض ہے، وہ قوم کے پیسوں سے اس فریضے کو کیوں انجام دینا چاہتا ہے؟ ‘ ۔ لیکن اس کے ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ’سبسڈی دی جاتی تو اچھی بات تھی لیکن ہماری معاشی صورتحال بہتر نہیں ہے۔ ہر حج گزشتہ حج سے مہنگا ہوتا ہے۔ یہ سستا تو نہیں ہوتا۔ وہی لوگ حج ادا کرتے ہیں جو اس کی استطاعت رکھتے ہیں‘ ۔

حج فرض ہونے کے بارے میں حکومتی ترجمانوں کے بیانات کو درست ماننے کے باوجود یہ کہنا ضروری ہے کہ جب کوئی حکومت مذہبی علامتوں اور اشاریوں کو مقبول سیاست کا حصہ بنانے کی کوشش کرے گی تو اپوزیشن یا معاشرے کے دیگر عناصر ان نعروں کی بنیاد پر حکومت کو زچ اور شرمندہ کرنے کی کوشش کرتے رہیں گے۔ تحریک انصاف اور وزیر اعظم کی طرف سے مدینہ ریاست کے نعرے کو سیاست چمکانے اور کمزوریوں پر قابو پانے کے لئے استعمال کرنے سے گریز کرنا چاہیے تھا۔

وزیر مذہبی امور جس طرح لوگوں کو یہ مشورہ دے رہے ہیں کہ مدینہ ریاست میں حج کروانا حکومت کی ذمہ داری نہیں ہو سکتی اسی طرح وہ اپنے لیڈر اور وزیر اعظم عمران خان کو بھی یہ مشورہ دیں کہ سیاست میں مذہبی جذبات کو انگیختہ کرنے سے وہ خود ہی اپوزیشن اور دیگر مخالفین کے ہاتھ میں ایک مؤثر ہتھیار دینے کا سبب بنے ہیں۔

تحریک انصاف اگر مدینہ ریاست کو سیاسی سلوگن بنانے پر اصرار کرے گی جس کا اظہار متعدد وزیروں کے بیانات سے آج بھی ہؤا ہے تو اسے یہ بھی تسلیم کرنا پڑے گا کہ سیاسی لیڈر اور حکومت کے فیصلوں پر رائے دینے والا ہر شخص بھی مدینہ ریاست کی وہی توجیہ کرے گا جو اس کے سیاسی مقاصد کے مطابق ہو گی۔ حکومت پھر یہ توقع نہیں کرسکتی کہ دوسرے بھی مدینہ ریاست کے حوالے سے اس کی رائے اور مجبوریوں کو تسلیم کر لیں گے۔ حج کے سوال پر جس طرح حکومت کو مدینہ ریاست کا طعنہ سننا پڑا ہے، وہ اس کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہیے۔ بصورت دیگر مستقبل میں یہ نعرہ بار بار تحریک انصاف اور اس کی حکومت کے راستے کی دیوار بنے گا۔

زندگی میں ایک بار ہر اس مسلمان پر حج فرض ہے جو صاحب نصاب ہو۔ یعنی مالی طور سے اس کے پاس اتنی استطاعت ہو کہ وہ اپنی دیگر ذمہ داریاں پوری کرنے کے بعد اس سفر اور عبادت پر اٹھنے والے مصارف برداشت کرنے کی مالی حیثیت رکھتا ہو۔ پاکستان میں حج کے مصارف میں رعایت دے کر حکومتیں سیاسی فائدہ اٹھانے کی کوشش کرتی رہی ہیں۔ لیکن حج کرنا صرف صاحب استطاعت مسلمانوں پر فرض ہے۔ یہ کوئی بنیادی انسانی حق نہیں۔ اور نہ ہی ایسی عبادت ہے جس کا اہتمام کرنا کسی بھی مسلمان یا غیر مسلم حکومت کی ذمہ داری ہو۔

یوں بھی 22 کروڑ آبادی کے ملک میں سے صرف سوا لاکھ کے لگ بھگ لوگ سرکاری انتظامات میں حج کے لئے جاتے ہیں۔ اس طرح ایک محدود تعداد کو اس عبادت کے لئے کثیر وسائل فراہم کر کے دراصل باقی آبادی کی حق تلفی کا اہتمام کیا جاتا ہے۔ قومی وسائل کو ایسے منصوبوں پر صرف ہونا چاہیے جو سب کے لئے پایہ تکمیل تک پہنچیں اور جس سے رفاہ عام کا مقصد پورا ہوتا ہو۔ حج انفرادی عبادت ہے جو مسلمانوں پر اجتماعی نہیں بلکہ انفرادی حیثیت میں فرض کی گئی ہے۔ سیاسی نعرے بازی کرتے ہوئے اس فرق کو ملحوظ خاطر رکھنے کی ضرورت ہے۔

یوں بھی کچھ عرصہ سے پاکستان میں حج اور عمرہ کو خود نمائی کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ حج زندگی میں ایک بار فرض ہے لیکن لوگ بڑے فخر سے اپنے نام کے ساتھ الحاج لکھتے ہیں تاکہ پتہ چل سکے کہ انہوں نے ایک سے زیادہ بار حج کیا ہے۔ اسی طرح متعدد ایسے لوگ مل جائیں گے جو یہ بات فخریہ بیان کرتے ہیں کہ انہوں نے گزشتہ اتنے برس میں ہر سال حج ادا کیا ہے۔ نہ جانے اسلام کی کون سی تعلیم اور رسول پاکﷺ کی کون سی سنت کے تحت یہ رویہ اختیار کیا جاتا ہے۔

اسی طرح عمرہ کو بھی اصراف اور دینی برتری ظاہر کرنے کا ذریعہ بنا لیا گیا ہے۔ پاکستان میں ایسے لوگ بھی موجود ہیں جو ہر جمعہ کو حرمین شریفین جاتے ہیں اور بڑے فخر سے اس کا اعلان کرتے ہیں۔ اسی طرح سال میں دو تین بار عمرہ کرنے والوں کی بھی کمی نہیں ہے۔ مقدس مقامات پر حاضری کی حرمت و تقدس سے قطع نظر پاکستان جیسے غریب ملک کے لوگوں کی طرف سے اس قسم کا رویہ اصراف اور فضول خرچی شمار ہو گا۔ یہ وسائل ملک میں تعلیمی یا بہبود کے منصوبوں کے لئے فراہم کر کے انسانوں اور مسلمانوں کی خدمت کا اہتمام کیا جا سکتا ہے۔

اسلامی عبادات کے نام پر خود نمائی اور اصراف دونوں ہی اسلام کے بنیادی مقصد کو نظر انداز کرنے کے مترادف ہے۔ پاکستان جیسے معاشرے میں بدنصیبی سے اسلامی تعلیمات کی روح کو سمجھنے کی بجائے ان کی نمائشی صورت کو اہمیت دینے کا چلن فروغ پا چکا ہے۔ یہ مزاج دن بدن بدتر ہوتا جا رہا ہے۔ حکومت اور مذہبی رہنماؤں نے یکساں طور سے اس منفی رویہ کی روک تھام کی ضرورت محسوس نہیں کی۔

پاکستان میں عقیدہ کے نام پر شدت پسندانہ جذباتی رویہ کی حوصلہ افزائی کی گئی ہے۔ یہ شدت پسندی کبھی انسانوں کو دوسروں کے خون کا پیاسا بناتی ہے اور کبھی عبادت کے نام پر سرکاری وسائل حاصل کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ اگر یہ سمجھنے کی کوشش کی جائے کہ کسی بھی قسم کا شدید رویہ اسلام کی روح، قرآنی احکامات اور اسوۃ حسنہ کے برعکس تو شاید مثبت سماجی مزاج سازی کا آغاز ہو سکے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali