سر دھنیں یا پیٹیں


کتے کی دم کے متعلق تو سنا تھا کہ وہ بارہ سال تک پائپ میں رہی لیکن جب پائپ نکالا گیا تو وہی ٹیڑھی کی ٹیڑھی، لیکن معلوم ہوا کی امریکیوں کی دموں کا اس سے بھی برا حال ہے۔ 17 برس افغانستان کے پائپ میں پھنسی رہنے کے باوجود بھی جب جب پائپ نکالا گیا ہے دمیں ٹیڑھی کی ٹیڑھی ہی نظر آئی ہیں۔

میں متعدد بار لکھ چکا ہوں یہ منافقین کا ٹولہ ہے اور بے غیرتی کی اس حد پر ہے جہاں آگے جانے کی ایک ملی میٹر کی بھی گنجائش نہیں رہتی۔ وقت پر سب کو باپ بنانے والا وقت نکل جانے پر خود سب کا باپ بننے میں لمحہ نہیں لگاتا۔ یہی وہ امریکا ہے جو پاکستان اور طالبان کے آگے سجدوں پر سجدے کیے جارہا تھا لیکن جب اپنی مرضی و منشا میں کامیاب نہیں ہو سکا تو کہتا ہے کہ میں نے ساری نمازیں بلا وضو ہی پڑھیں تھیں۔

ابھی پاکستان اور افغان طالبان کے ساتھ رومانس چل ہی رہا تھا اور تشکرانہ بیانات سے یوں لگ رہا تھا کہ وہ ریشہ ختمی ہوا چاہتا ہے لیکن جونہی اسے اپنی کوششوں میں ناکامی ہوئی طوطا چشمی پر کمر بستہ ہوگیا۔

امریکا کا فرمانا ہے کہ پاکستان کا تنگ نقطہ نظر طالبان کے خلاف ہماری کوششوں پر پانی پھیر دے گا۔ تفصیلات کے مطابق امریکا کے ڈائریکٹر آف نیشنل انٹیلی جنس ڈینیل کوٹس نے 2019 میں افغانستان اور بھارت میں انتخابات اور وسیع پیمانے پر طالبان حملوں سے جنوبی ایشیا کو درپیش چیلنجز میں اضافے کا امکان ظاہر کیا ہے۔ سینیٹ کمیٹی برائے انٹیلی جنس میں ڈینیل کوٹس نے امریکا کو درپیش اہم عالمی خطرات کی نشاندہی سے متعلق رپورٹ پیش کی۔ نیشنل انٹیلی جنس ڈائریکٹر نے اپنے بیان میں یہ پیش گوئی کی کہ آنے والے سال میں پاکستان میں موجود مسلح گروہ اپنی محفوظ پناہ گاہوں میں رہنے کا فائدہ اٹھاتے ہوئے پڑوسی ممالک میں حملے جاری رکھیں گے۔ ڈینیل کوٹس کی رپورٹ میں پاکستان کو دہشت گردی کی حمایت کرنے اور انہیں محفوظ پناہ گاہیں فراہم کرنے کا ذمہ دار قرار دیاگیا۔ رپورٹ میں اسلام آباد کو بعض گروہوں کو پالیسی آلہ کار کے طور پر استعمال کرنے اور صرف براہ راست پاکستان کو دھمکانے والے مسلح گروہوں کو نشانہ بنانے کا الزام بھی عائد کیا گیا۔ ڈینیل کوٹس کی رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ انسداد دہشت گردی کے تعاون میں پاکستان کا تنگ نقطہ نظر طالبان کے خلاف انسداد دہشت گردی کی امریکی کوششوں پر پانی پھیر دے گا۔

پاکستان امن کی امریکی کوششوں پر پانی پھیر سکتا ہے۔ پاکستان میں دہشتگردوں کے لئے محفوظ ٹھکانے ہیں۔ وہ دہشتگردوں کو مزید تربیت دے کر اور مسلح کرکے پڑوسی ملکوں پر حملہ بھی کرسکتا ہے اور یہ کہ اسلام آباد دہشتگردوں کی دھمکیوں سے مرعوب ہے وغیرہ وغیرہ۔ یہ الزامات عین اس وقت پاکستان پر عائد کیے جارہے ہیں جب پاکستان تمام تر خطرات کے باوجود افغانستان میں امن کی بحالی کی ہر کوشش میں شامل ہے۔ پھر مزے کی بات یہ ہے کہ امریکی ذمہ داران مسلسل پاکستان کی کوششوں کو سراہتے چلے آرہے ہیں اور اس کی قربانیوں، دہشتگردوں کے خلاف نبردآزمائی اور قربانیوں کو خراج تحسین پیش کرتے رہے ہیں۔ ایک جانب امریکا کی ایک زبان شیرینی و مٹھاس ٹپکاتی نظر آرہی ہے تو دوسری زبان زہر افشانی پر لگی ہوئی ہے۔ میں کہتا چلا آرہا ہوں کہ امریکا کی ایک زبان نہیں بلکہ اس کے منھ میں ہزاروں زبانیں ہیں اور وہ موقعہ و محل کے مطابق ان کو استعمال کرنے کے فن میں طاق ہے۔

بات فقط اتنی ہے کہ منافقت کا چہرہ ہوتا ہے نہ منھ اور نہ ہی زبان۔ منافق کیونکہ شیطان کا دوست ہوتا ہے اس لئے وہ ہزاروں روپ دھار سکتا ہے لہٰذا اس پر جتنا اعتماد کیا جائے گا اتنا ہی خسارہ حصے میں آئے گا۔

ایک مرض ہوتا ہے ”مالیخولیا“۔ یہ ایک ایسا دماغی مرض ہے کہ مریض کی کسی کیفیت کو دیکھ کر یہ اندازہ لگایا ہی نہیں جاسکتا کہ وہ پاگل ہے۔ اس کی ہر کیفیت اس کو ایک دانا، عقلمند، سنجیدہ اور بردبار انسان کی خبر دے رہی ہوتی ہے جبکہ وہ پاگلوں سے بھی زیادہ پاگل بلکہ پاگل ترین ہوتا ہے اور وہ سامنے بیٹھے یا مخاطب ہونے والے فرد یا افراد کے ساتھ سنگین سے سنگین سلوک کر سکتا ہے۔ اس مرض میں ہوتا یہ ہے کہ مریض فرمائش کرتا ہے یا کسی خواہش کا اظہار کرتا ہے۔ خواہش پوری ہوجائے تو اس کی کیفیت ایک نارمل انسان ہی کی طرح برقرار رہتی ہے۔ ایک فرمائش کے بعد دوسری اور دوسری کے بعد تیسری فرمائشیں سامنے آنا شروع ہوجاتی ہیں۔ فرمائشوں یا خواہشوں کا یہ سلسلہ ٹوٹتا نہیں بلکہ اس میں شدت آتی جاتی ہے اور معاملہ ناممکنات کی حد تک چلا جاتا ہے۔ جہاں کسی نے انکار والا رویہ اختیار کیا وہیں اس کے اندر کا پاگل وحشی بیدار ہوجاتا ہے۔ یہی حال امریکا کا ہے۔ یا تو اس کی خواہشات کی تکمیل پر تکمیل کیے جاؤ یا پھر اس کے پاگل پن کی وحشت کو سہنے کے لئے اپنے آپ کو تیار کرلو۔

یہی پاکستان جو افغان طالبان کو اس حد تک رام کرنے میں کامیاب ہو گیا تھا کہ ان کو مذاکرات کی میز پر بیٹھنے پر مجبور کردیا تھا اب اسی پاکستان کے لئے امریکہ کے کیا جذبات ہیں۔ یوں لگتا ہے کہ وہ آن کی ان میں پاکستان کا کام تمام کرکے رکھ دیگا۔

ڈینیل کوٹس کی رپورٹ میں پیش گوئی کی گئی کہ اگر اتحادی حمایت موجودہ سطح تک قائم رہتی ہے تو کابل اور طالبان 2019 میں افغان جنگ میں اسٹریٹیجک ملٹری فوائد حاصل نہیں کرسکیں گے نیزسینیٹ کمیٹی میں دیے گئے ریمارکس میں کہا کہ ہمیں پاکستان کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری پر تشویش ہے۔

اس کو کہتے ہیں منھ پر رام رام بغل میں چھری۔ کچھ دنوں قبل ان کے ایک سفارتی اہل کار نے جب وزیراعظم پاکستان سے ملاقات کی تھی تو کہا تھا کہ ہم غلطی پر تھے اور ہمارا مؤقف درست نہیں تھا لیکن عمران خان شروع سے جو بات کہتے آرہے تھے وہ درست تھی۔ ابھی عمران خان کے کہے کو درست کہنے والے خوش کن جملوں کی خوشبو ختم بھی نہیں ہوئی تھی کہ طوطے نے اپنی خصلت دکھانا شروع کردی اور وہی پاکستان جو بظاہر ان کی گڈبک میں شمار ہونے لگا تھا وہی پاکستان ان کے دل میں کانٹا بن کر کھٹکنے لگا۔

میں اکثر یہ بات کہتا ہوں کہ ملکوں اور ملکوں کے درمیان عشق و محبت کے رشتے نہیں ہوا کرتے مفادات کے تعلقات ہوا کرتے ہیں اور جب تک مفادات رشتہ بنے رہتے ہیں تعلق قائم رہتا ہے۔ امریکا اور پاکستان کے مراسم بہت دیرینہ سہی لیکن ایسا سب کچھ مفادات پر ہی منحصر رہا ہے اور یہ سلسلہ مفادات کے حصول تک ہی جاری رہنے والا ہے اس لئے پاکستان کو بہت زیادہ خوش گمان ہونے کی ضرورت نہیں۔

اب اسی معاملے کو دیکھ لیں۔ امریکا کو پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر تو تشویش ہے لیکن بھارت جو ایٹمی لحاظ سے پاکستان سے کہیں زیادہ صلاحیت رکھتا ہے اور اپنی ایٹمی صلاحیتوں کو مسلسل بڑھانے پر لگا ہوا ہے، امریکا کو اس کی بڑھتی ایٹمی صلاحیت پر ذرا بھی تشویش نہیں۔ یہ امتیاز ظاہر کرتا ہے کہ مسلمان ہونا اور اہل کفر میں شامل ہونا دو مختلف رویے ہیں۔ بھارت ہو یا چین، ان کی ساری تیاریاں ایک نہ ایک دن امریکا کے خلاف استعمال ہو سکتی ہیں اس لئے کہ ہر طاقتور کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اس سے زیادہ طاقتور کوئی اور نہ کہلا سکے لیکن پاکستان کسی کے خلاف بھی جارحیت کا نہ تو عزم رکھتا ہے اور نہ اس نے اپنے کسی رویے سے ایسا اظہار کیا ہے۔ ان تمام حقیقتوں کے باوجود بھی دنیا کو، بشمول امریکا، پاکستان کی جوہری صلاحیت پر تشویش اس بات کی غمازی کرتی ہے کہ وہ مسلمانوں کو ابھرتا ہوا دیکھنا گوارہ نہیں کر سکتے اور جہاں بھی مسلمان امن و سکون سے پائے جاتے ہیں امریکا کسی نہ کسی بہانے اپنے پنجے وہاں پر گاڑ کر فتنہ و فساد مچا دیتا ہے اور پھر مگر مچھ کے آنسو بہا کر اپنی ہمدردیوں کا اظہار کرتا ہے اور اس ملک کی معیشت کو تباہ و برباد کرکے رکھ دیتا ہے۔ پاکستان دشمنی کا اندازہ لگائیں کہ اسی رپورٹ میں اس بات کی نشاندہی بھی کی گئی ہے کہ پاکستان نئے قسم کے جوہری ہتھیاروں کی تیاری جاری رکھے ہوئے ہے جن میں شارٹ رینج میزائل، سمندر سے مار کرنے والے کروز میزائل، فضا سے مار کرنے والے کروز میزائل اور لانگ رینج بیلسٹک میزائل بھی شامل ہیں۔ 2016 میں جوہری دہشت گردی سے بچاؤ سے متعلق ہارورڈ کینیڈی کی رپورٹ میں کہا گیا تھا کہ بھارت کے جوہری سیکیورٹی اقدامات پاکستان سے کمزور ہوسکتے ہیں۔ اس میں کہا گیا تھا کہ بھارت میں سرحد پار چوری کا خطرہ کم دکھائی دیتا ہے جبکہ پاکستان میں یہ خطرہ زیادہ ہے۔

پاکستان کی امن کوششوں کے جواب میں یہ موجودہ رپورٹ پاکستان کی حکومت اور عسکری قوتوں کے لئے لمحہ فکریہ ہیں۔ ہمارے سادہ لوح اعلیٰ عہدیداران کس قدر خوش فہم ہیں کہ ان کے کسی کم تر درجے کے عہدیدار کے بیانات پر بھی خوشی سے پھولے نہیں سماتے اور اپنے منھ میاں مٹھو بن جاتے ہیں۔ قرآن میں جنوں کے متعلق فرمایا گیا ہے کہ انسانوں نے ان سے کام لے کر ان کو مغرور کردیا ہے۔ ہوتا یہ ہے کہ جب بھی آپ کمزور یا کم ظرف کو استعمال کرتے ہیں وہ مغرور ہوجاتا ہے اور اس کا احوال کچھ اس طرح کا ہوجاتا ہے کہ

چاندی کی انگھوٹھی پہ جو سونے کا چڑھا خول
اوچھی تھی لگی بولنے اترا کے بڑا بول
چاندی کی انگوٹھی کے نہ میں ساتھ رہوں گی
وہ اور ہے میں اور یہ ذلت نہ سہونگی

ہمیں اس بات پر غور کرنا ہے کہ ہم سونے کے خول چڑھی انگوٹھی تو نہیں بن گئے ہیں اور ذرا ذرا سی تعریفوں پر غبارہ تو نہیں بن جاتے۔
یہ تمام الزامات جو پاکستان پر امریکا کی جانب سے لگائے جارہے ہیں اس پر مختصر ترین لفظوں میں یہی کہا جاسکاتا ہے کہ
لو وہ بھی کہہ رہے ہیں میں بے ننگ و نام ہوں
یہ جانتا اگر تو لٹا نہ گھر کو میں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).