یا منافقت۔ تیرا ہی آسرا!


کل میں نے اپنے بیٹے کو ریاضی کا ایک سوال حل کروایا، آج جب وہ سکول سے واپس آیا اور میں نے حسبِ معمول اس کا کام چیک کیا تو مجھے یہ دیکھ کر بہت غصہ آیا کہ اس کے ریاضی کے ٹیچر نے میرا حل شدہ سوال تو درکنار، وہ فارمولہ بھی غلط قرار دے دیا تھا جو میں نے وہ سوال حل کرنے کے لئے استعمال کیا تھا۔ آپ سوچ رہے ہوں گے کہ اس میں غصہ کرنے والی کیا بات ہے؟ خدا کے بندو۔ میں ایک اعلٰی تعلیم یافتہ خاتون ہوں، کیا ہوا اگر ریاضی میرا مضمون نہیں تھا میرا چھوٹا بھائی تو ایک انجینئر ہے تو کیا مجھے اتنا حق نہیں پہنچتا کہ میں اپنے انداز سے ریاضی کا ایک سوال ہی حل کر سکوں۔

‌ابھی پچھلے ہفتے کی سنیں، میری ایک دوست کا بچہ بیمار ہوا، اسے بخار، کھانسی اور زکام تھا۔ میں نے اسے اپنی بیٹی کا وہ نسخہ بھیجا جو گزشتہ ماہ انہی علامات کی وجہ سے ڈاکٹر نے اسے تجویز کیا تھا۔ لیکن یہ کیا۔ کہنے لگی نہیں، نہیں میرے بچے کی صحت کا معاملہ ہے۔ میں تو ڈاکٹر کے مشورے سے ہی دوائی دوں گی۔ بھلا بتائیں یہ بھی کوئی بات ہے، کیا ہوا کہ میں ڈاکٹر نہیں میں نے پری میڈیکل لیول تک ایف ایس سی پڑھ رکھی ہے۔ صحت کے متعلق جملہ مسائل کو اچھی طرح سمجھ سکتی ہوں تو کیا میں اپنا آزمودہ نسخہ کسی کو بتانے میں حق بجانب نہیں؟

‌میرا بھتیجا خیر سے ایف ایس سی کا طالبعلم ہے۔ آج کل اسے فزکس اور کیمسٹری میں کچھ مسائل کا سامنا تھا۔ اسے مدد کی ضرورت محسوس ہو رہی تھی۔ میں نے جھٹ اپنی خدمات پیش کر دیں۔ کہ میری جان۔ میں حاضر ہوں۔ ایف ایس سی تک تو میں نے بھی سائنس پڑھ رکھی ہے۔ میرے پاس آ جایا کرو، دونوں ماں بیٹا مل جل کے تمھارے مسائل کا کوئی حل نکال ہی لیں گے۔ کہنے لگا۔ نہیں پھوپھو جی۔ آپ کہاں کروا پائیں گی۔ میں نے اپنے متعلقہ مضامین کے پروفیسر صاحبان سے وقت لے رکھا ہے۔ انہی سے سمجھوں گا۔ ہے نا بے وقوف بچہ۔ بھلا مجھ میں کیا کمی تھی کہ میں اسے گائیڈ نہیں کر سکتی تھی ؟

‌ ارے رکئے۔ مندرجہ بالا واقعات میری آپ بیتی ہر گز نہیں اور نہ ہی میں اتنی کند ذہن واقع ہوئی ہوں کہ جو اس طرح کے معاملات میں ایسا رویّہ اختیار کروں۔ ان واقعات میں میرے مدِمقابل جو کردار ہیں ان کا رویّہ عین فطرتِ انسانی کے مطابق ہے۔ بلکہ یہی رویّہ دراصل انسان کے تعلیم یافتہ اور تہذیب یافتہ ہونے کی دلیل ہے۔ کہ اس کو زندگی کے جس بھی میدان سے متعلقہ مسائل درپیش ہوں وہ ان کے حل کے لئے اسی میدان کے ماہرین کی آرإ کو مقدم جانے گا۔

کوئی بھی باشعورانسان بیماری کی حالت میں کسی اتائی کے پاس نہیں جائے گا بلکہ اس کی کوشش یہ ہوگی کہ اپنی استطاعت کے مطابق جو بھی کوالیفائیڈ ڈاکٹر میسرآ سکے اس کے پاس مریض کو لے کے جایا جائے۔ اپنے بچوں کو تعلیمی میدان میں درپیش مسائل کے حل کے لئے ہر باشعور والدین متعلقہ مضمون کے ماہرین یا کم ازکم اسی مضمون کے اچھے اساتذہ کے پاس بچوں کو رہنمائی کے لئے بھیجتے ہیں کہ یہی فطرتِ انسانی ہے۔

‌لیکن۔ منافقت کی انتہا تب ہوتی ہے ہمارے معاشرے میں جہاں بات آتی ہے دین کی، اسلامی احکام کی، قرآنی تعلیم کی، احادیث کے مفہوم کی، اسما الرّجال کی یا دینی اداروں میں پڑھائے جانے والے کسی بھی علم کی۔ ہم ان پر بات بعد میں کریں گے، سب سے پہلے ان علوم کے ماہرین یعنی علمائے کرام کو گالی دیں گے اور اگلے لمحے ہم اس فتویٰ کے ساتھ کہ ہمارے معاشرے میں موجود ہر برائی کا بنیادی سبب مولوی ہے اور اگر مولوی کا کردار معاشرے سے ختم کر دیا جائے تو پاکستان سائنس کے میدان امریکہ کو بھی پیچھے چھوڑ دے گا۔

اگلے ہی لمحے ہم خود مفتئی اعظم کی مسند پر بیٹھ کر یہ بھاشن دینا شروع کر دیتے ہیں کہ عیدِ قربان پر ارب ہإ روپے کے جانور ذبح کرنے سے بہتر ہے کہ کسی غریب کی بیٹی کی شادی کروا دی جائے۔ لیکن یہی ”مفتی صاحب“ ویلنٹائینزڈے اور نیو ائیر نائٹ پر اڑائے گئے اربوں روپوں کو امرت کی طرح پی جاتے ہیں۔ (یہ صرف ایک مثال ہے ) ، یقین نہیں آتا تو اپنے کسی بھی معروف ”روشن خیال“ دانشور کی وال وزٹ کیجئے، آزمائش شرط ہے۔

اس معاملے میں ہمارا فطری رویّہ کہیں پسِ پشت چلا جاتا ہے اور دین کے معاملات میں ہر ایرا، غیرا، نتھو خیرا جسے شاید پورے چھ کلمے بھی با ترجمہ یاد نہ ہوں، جو شاید صفتِ ایمانِ مفصل اور مجمل کے درمیان فرق سے بھی واقف نہ ہواور جسے ایک مسلمان ہونے کا شرف بھی محض اس بنیاد پر حاصل ہوا ہو کہ وہ ”بد قسمتی“ سے ایک مسلمان گھرانے میں پیدا ہو گیا ہو۔ وہ بھی ہر ایک دینی معاملے، ہر مذہبی حکم، ہر حدیثِ پاک اور قرآنی آیت کی تفسیر کرنے میں خود کو اسی طرح حق بجانب سمجھتا ہے جیسے میری بیان کی گئی تمثیلات میں ”میرا“ کردار۔

‌ہماری منافقت ہمیں یہ تسلیم کرنے کی اجازت ہی نہیں دیتی کہ جس طرح کسی بھی شخص کی کسی بھی علم کی شاخ کو کم ازکم ماسٹرز اگر نہیں تو گریجویشن کی سطح تک پڑھے بغیر اس علم کے حوالے سے کسی بھی طرح کی تبصرہ آرائی کو محض ایک جاہلانہ تبصرہ تصور کیا جائے گا، یہی اصول علمِ دین پر بھی لاگو ہوتا ہے۔ ہماری أعلٰی تعلیم یافتہ لیکن شاید کہیں نہاں خانہٕ دل میں، خود کو مسلمان کہلائے جانے پر شرمسار ”روشن خیال“ کلاس کو یہ بات تسلیم کر لینی کر چاہیے کہ جس طرح سائنس، کمپیوٹر سائنسز، میڈیا سٹڈیز، فنانس، بزنس، ایڈمنسٹریشن جیسی بے شمار علم کی شاخیں انسان کی دنیاوی اور جسمانی ضروریات کی تکمیل کے لئے لازمی ہیں بعینہِ اسی طرح مذہب اور روحانیت اور اخروی معاملات جو کسی بھی باشعور انسان کی زندگی میں مادی زندگی جتنے ہی اہم معاملات ہیں۔

ان کا حل صرف علمِ دین میں ہے اور جیسے باقی علوم میں کوئی بھی شخص اس علم کو کئی سال تک پڑھ کر ہی ماہرانہ رائے دے سکتا ہے، بالکل اسی طرح دین بھی ایک مکمل علم ہے جس پر عبور مروجہ میٹرک کے بعد 8 سالہ ڈگری اور اس کے بعد ایک سال کا تخصّص کر کے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے تبھی کہیں جا کر آپ اس قابل ہوتے ہیں کہ دینی احکامات کو نہ صرف یہ کہ خود بھی سمجھ سکتے ہیں بلکہ دنیا کی اس حوالے سے رہنمائی کر سکیں۔ اور علم کی یہ شاخ انشإاللّٰہ تا قیامِ قیامت قائم رہے گی کہ یہ میرے اللّٰہ کی مشیّت ہے کہ مسلمانوں میں سے ایک گروہ ہر دور میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کے لئے موجود رہے گا اور یہ فریضہ بہر حال دین کے طلبہ و اساتذہ ہی سر انجام دے سکتے ہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).