فیصلہ سازوں کو زیادہ عرصہ آپ بھی منظور نہیں رہیں گے


حکم حاکم کے بعد تعمیل کے سوا کوئی راستہ ہو سکتا ہے؟ ارشاد ہوا ملک ففتھ جنریشن وار کا شکار ہے اس لیے پراپیگنڈے اور جائز نا جائز شک و شبہے کو عوام کے ذہن میں مت انڈیلیں۔ صرف چھ ماہ سنہرے دنوں کی امید پر چپ ہو جائیں، جو کھیل ہو رہا اس میں رخنہ اندازی کی جرات نہ کریں، ہم ایسے کم حوصلہ اور مزدوری پر گزارہ کرنے والے لہذا چپ ہوگئے۔ اس تنبیہ کے بعد ہم نے عالمی میڈیا سے ازخود نظریں چرانا شروع کر دی، مبادا ففتھ جنریشن وار کے ٹولز ہماری کوتاہ سوچ کو متاثر نہ کر دیں۔

اتفاق سمجھ کر دماغ سے جھٹک دیا کہ ایک خاص وقت میں ہی ایسے عدالتی فیصلے اور نیب کے بعض اقدامات کیوں ہوئے جنہیں واشنگٹن پوسٹ، نیو یارک ٹائمز، بی بی سی اور اکانومسٹ جیسے عالمی شہرت یافتہ ادارے انتخابات پر اثر انداز ہونے کی کوشش قرار دے رہے تھے۔ تمام انحصار اپنے آزاد و غیر جانبدار میڈیا پر شروع کر دیا اور ان خود ساختہ ملکی صحافتی میر کارواں حضرات کو فالو کرنے لگے، جو عوام کو حق حکمرانی کے تقاضے جیسے فضول مطالبے میں الجھنے سے بچانے کے بجائے مائک اٹھا کر چوک چوراہوں پر نکل گئے اور ابلتے گٹر، ادھڑی سڑکیں دکھا کر رائے عامہ کی سمت درست کرتے رہے، کہ وہ جان لیں یہ ہے تیس سال سے باریاں لینے والوں کو ووٹ دینے کا نتیجہ۔

یہ بھی نہیں سوچا انتخابی عمل کچھوے کی چال کیوں چلایا گیا، ایک ایک ووٹ کو بھگتانے میں مخصوص جگہوں پر گھنٹوں کا وقت کیوں صرف ہوا؟ یہی سوچ کر دل کو تسلی دی الیکشن کمیشن کے عملے کی کوتاہی اور غیر ذمہ داری کے باعث عوام اس آئینی حق سے محروم رہے۔ آنکھوں دیکھی زبان پر نہ لائے، صرف چند جماعتوں کے ووٹرز کو یہ شکایت کیوں کہ ان کے انتخابی نشان کی پرچی پر ووٹ ڈالنے والے افراد کو یہ کہہ کر روکا جاتا رہا، متعلقہ پولنگ اسٹیشن میں ان کے ووٹ کا اندراج نہیں لہذا انہیں یہاں ووٹ ڈالنے کی سہولت نہیں دی جا سکتی۔

یوں ایسے ووٹرز ایک سے دوسرے پولنگ اسٹیشنز پر دھکے کھاتے رہے اور بیشتر مایوس ہو کر اپنے گھر واپس لوٹ گئے۔ چشم دید گواہ ہونے کے باوجود پولنگ ایجنٹس کو پڑنے والے دھکوں اور فارم 45 کی عدم ادائیگی پر بھی ملک و قوم کے وسیع تر مفاد میں لب سی کر خاموش ہو گئے۔ سیاسی مرغان باد نما کی اک خاص سمت پرواز سے ہر بچے کو اندازہ ہو چکا تھا اسٹیج کس کی خاطر تیار ہو رہا ہے، مقتدروں کے غضب سے بچنے کو مگر سوال نہ اٹھایا، بلکہ دل کو بہلاتے رہے عوام دونوں بڑی جماعتوں سے متنفر تھے جس کا نتیجہ یہ نکلا۔

لیلائے اقتدار سے وصال کی دیرینہ خواہش پوری ہونے کے بعد قائد انقلاب نے جب کہا کہ صرف تین ماہ ہمیں تنقید سے معاف رکھیں۔ انہوں نے کہا ہم نے مان لیا، ایک کروڑ نوکریاں بانٹیں گے، پچاس لاکھ گھر تعمیر ہوں گے۔ کوئی بے گھر نہیں رہے گا۔ غریب کو دوا مفت فراہم کریں گے۔ تعلیم کا معیار یکساں ہو گا اور امیر و غریب ہر بچے کو برابر مواقع دستیاب ہوں گے۔ ریاست ہو گی ماں جیسی، انصاف سب کو دہلیز پر میسر ہوگا۔ جس کا کوئی پرسان حال نہیں، ریاست اس کا مقدمہ خود لڑے گی۔

پہلے والوں نے قوم کو بھکاری بنا دیا ہم کشکول اٹھائیں گے اور نہ قومی وقار گروی رکھیں گے۔ یہی ملک ہوگا یہی معیشیت، قرض کے بغیر چلے گا بلکہ ترقی کی شاہراہ پر دوڑے گا۔ کرپشن ایک ناسور جو معیشیت کی جڑیں کھوکھلی کرنے کی اصل وجہ، اس پر کوئی سمجھوتا نہیں کریں گے۔ حکومت رہے نہ رہے، لوٹی دو سو ارب ڈالر دولت ضرور واگزار ہو گی۔ پولیس سیاسی مداخلت سے پاک کر دی جائے گی۔ بیوروکریسی کو فری ہینڈ ہوگا، قائد اعظم کے فرمان کے مطابق وہ حکومت کے بجائے ریاست کی وفادار ہوگی وغیرہ وغیرہ۔

اور یہ سب کام حکومت کے ابتدائی سو دنوں میں بڑی حد تک مکمل ہو جائیں گے۔ بس کم از کم سو دن حکومت کو اطمینان سے کام کرنے دیا جائے اس کے بعد ہم خود اپنی کارکردگی عوام کے سامنے پیش کریں گے۔ تاریخ شاہد ہے یہ ملک عزیز کی شاید واحد حکومت ہے جس کو اتنی فرینڈلی اپوزیشن ملی، تمام ادارے اس کی پشت پر ہیں۔ میڈیا تو اسی فرمان کے بعد تابع بن چکا تھا جس کا ابتدا میں ذکر کیا، کہیں سے مخالفانہ آواز سنائی نہیں دی۔ تین چھوڑ کر چھ ماہ دے دیے۔

نتیجہ کیا نکلا؟ پولیس گردی میں اضافہ۔ دن دہاڑے شاہراہوں پر قتل عام۔ وزیر کا فون نہ سننے پر آئی جی تبدیل۔ بیوروکریسی دباؤ اور خوف کے باعث قلم چھوڑ بیٹھی۔ انصاف کے میرٹ کا یہ عالم جس الزام پر مخالفین جیل خود اقتدار کے مکیں۔ پالیسیوں نے معیشیت کا بھرکس نکال دیا۔ دربدر کشکول اٹھائے پھرے، کسی شناسا کا در نہ چھوڑا۔ آئی ایم ایف جاتے خودکشی کیا کرتے، ندامت کا قطرہ جبیں پر نہ ابھرا۔ چور ڈاکوؤں کہہ کر اور سیاسی مقدمات کے دفاع میں دن رات ایک کر دیا۔ اب گھر کے بھیدی شاہ محمود قریشی نے یہ کہہ کر خود ہی لنکا ڈھا دی فیصلہ ساز قوتوں کو نواز شریف اور زرداری قبول نہیں۔ کیا اب بھی کوئی پردہ داری یا ابہام ہے۔ درویش ان کا اپالوجسٹ نہیں، ہوں گے یہ لوگ قصوروار لیکن کیا انہیں سزا کا طریقہ درست ہے؟ اور یہ فیصلہ ساز قوت کون ہے؟

ہم تو یہی سمجھتے تھے مملکت خداداد ایک دستور کی حامل ہے جس کے ابتدائیے میں درج ہے اقتدار اعلی اللہ کی ملکیت ہے اور عوام زمین پر اس کے نمائندے ہونے کے ناطے جسے چاہیں حکمران منتخب کرلیں۔ خلق خدا کی مجموعی بصیرت پر اعتماد کے بجائے مستقبل کا فیصلہ چند ”فیصلہ ساز اذہان“ کریں تو پھر یہ حالت کوئی اچنبھے کی بات نہیں۔ یہاں مجھے اپنے بھائی سلیم صافی کی ایک بات یاد آئی، جب الطاف حسین کے خلاف گھیرا تنگ ہو رہا تھا انہوں نے فرمایا تھا مائنس ون نہیں ہو گا بلکہ یہ بات مائنس تھری پر رکے گی۔

اس وقت اس درویش نے اپنی ناقص بصیرت کے مطابق ان سے معمولی اختلاف کرتے ہوئے ایک جگہ کالم میں لکھا تھا مائنس کا سلسلہ شروع ہوا ہے تو یہ تھری پر بھی نہیں فور پر رکے گا اور الحمد اللہ میں اپنے اس موقف پر اب بھی قائم ہوں۔ قائد انقلاب کو متعارف کرانے والے دانشوروں کی ان کی کارکردگی سے مایوسی اور صدارتی نظام کی چہ میگوئیاں یونہی بے سبب نہیں۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).