لاشوں کے تاجر


انیس جنوری دن بارہ بجے کے قریب ساہیوال میں سی ٹی ڈی نے کارروائی کر کے چار افراد کو مار ڈالا۔ اس بات کو کتنی بار لکھا جائے، کب تک پڑھا جائے۔ کب تک نوحہ لکھ جائے، کب تک مرثیہ پڑھا جائے۔ ہم اس پر چار دن ماتم کریں گے اور پھر اپنی ازلی بے حسی کی چادر اوڑھ کر تلاش معاش میں، کسی نئے مواد کی تلاش میں نکل پڑیں گے۔ اپنے اپنے گورکھ دھندوں میں مصروف ہو جائیں گے۔ سانحہ ساہیوال ہر شخص کی زبان پر ایک ہی داستان۔ گولیوں کی تڑ تڑ میں آوازوں کی بھنبھناہٹ میں ہر آنکھ اشکبار، ہر دل سوگوار۔

کارروائی کرنے والوں کا کہنا کہ دہشت گرد کو مارا گیا۔ گاڑی چلانے والا ذیشان دہشت گرد تھا۔ ہو گا وہ دہشت گرد مان لیتے ہیں کہ اس کے سوا چارہ جو کوئی نہیں۔ لیکن کیا تیرہ سالہ اریبہ اور اس کی ماں بھی دہشت گرد تھی۔ کیا اس کا باپ خلیل بھی دہشت گرد تھا۔ ہم مان لیتے ہیں کہ اگر یہ سب دہشت گرد ہی تھے۔ تو کیا بچ جانے والے تین معصوم بچے بھی دہشت گرد تھے۔ جن کی آنکھوں کے سامنے ان کے والدین اور بہن کو ماردیا گیا۔

تکلیف کوئی بھی دکھ کتنا ہی بڑا کیوں نہ ہو اس پر صبر آہی جاتا ہے۔ تکلیف کا عادی ہونا ہی پڑتا ہے۔ دکھ جو پہلے پہاڑ جیسا لگتا ہے رفتہ رفتہ ہم اس پہاڑ کے اس قدر عادی ہو جاتے ہیں کہ کہ دکھ میں کمی آنے لگے تو اپنی ذات ادھوری لگنے لگتی ہے۔ یہی حال وطن عزیز میں رہنے والوں کا ہے۔ ہم دہشت گردی کے اس قدر عادی ہو چکے کہ چار دن امن رہے تو پریشان ہوجاتے ہیں۔ امن ہونے لگے تو ہم بے چین ہو جاتے ہیں۔ ہمیں کوئی نیا سانحہ ڈھونڈنا پڑتا ہے۔

جنوری اس بار بھی غم لے کے آیا ہے۔ پچھلے سال زینب کا نوحہ تھا اس سال اریبہ کا ماتم ہے۔ سانحہ ساہیوال ہوتا ہے تو وزیر اعلی پنجاب واقعہ میں بچ جانے والے بچوں کے لئے چاکلیٹ اور پھول لے کر چلے جاتے ہیں (اس سے بڑی حماقت کیا ہو گا ) ۔ کسی۔ کا بیان آتا ہے سانحہ ساہیوال پر شور مچانے والے سانحہ ماڈل ٹاؤن کو یاد رکھیں (یعنی۔ خاموش رہیں انصاف کی بات کریں تو شیریں مزاری بولتی ہیں سانحہ ماڈل ٹاؤن والوں کو انصاف ملا کی؟ یعنی ہم بھی نہیں دیں گے۔ چوہدری سرور تسلی دیتے ہیں کہ اس طرح کے واقعات پوری دنیا میں ہوتے ہیں۔ مطلب شور مچانے کی ضرورت ہی نہیں۔ چلوجی بات ہی ختم۔

میڈیا کے بارے کہا جاتا ہے کہ وہ بکھرے لاشے اکٹھے کرتا ہے بہتے خون پر بند باندھتا ہے، تو یہ ڈھکوسلہ ہے۔ میڈیا تو زخموں سے چور لوگوں کے زخموں پر مزید تلواریں چلاتا ہے زخم کریدتا ہے، گہرا کرتا ہے۔ زخموں کو ناسور بناتا ہے۔ اپنے چینل کی ریٹنگ بڑھاتا ہے۔ دکھ کی اس گھڑی میں بھی خود کو اوپر لے جانے والی خواہش میں زخموں پر پھاہا رکھنے کی اداکاری کرتے صحافی۔ لفظوں کے جال بچھا کر پُرسہ دینے کی آڑ میں مجھ جیسے قلمکار قلم کا ہنر آزماتے ہیں، فائدہ اٹھاتے ہیں۔

جو جتنی اچھی منظر نگاری کرے وہ اتنا ہی بڑا لکھاری۔ سانحہ کوئی بھی ہو اپوزیشن والے اپنی سیاست چمکاتے ہیں۔ حکومتی وزرا اپنی دکان لگا کر بیٹھ جاتے ہیں کہ ہم دکھ کی اس گھڑی میں لواحقین کے ساتھ ہیں، انصاف دلائیں گے، مجرم کٹہرے میں کھڑا ہوگا، وہی روائیتی جملے، وہی ازلی بے حسی۔ ریاست مدینہ کے دعویدار جو پاکستان کو مدینہ جیسی ریاست بنانے کے دعوے تو کرتے ہیں لیکن عمل نہیں کرتے۔ حیرت ہے کہ ریاست مدینہ کی باتیں کرنے والوں کو اس سانحہ پر نیند کیسے آگئی۔

معصوم بچوں کی ننھی چیخیں ان کے محلات کی زنجیروں کو کیوں نہ ہلا سکیں۔ خوف میں ڈوبے بچوں کو دلاسہ دینے کا وقت تھا یا پھول پیش کرنے کا۔ پاکستان کو ریاست مدینہ جیسی ریاست بنانے کے دعوے داروں کو اتنا تو معلوم ہونا چاہیے کہ اس ریاست کے حکمران راتوں کو عالیشان محلات میں آرام دہ بستروں پر سوتے نہیں تھے بلکہ وہ تو راتوں کو اٹھ کر پورے علاقے میں گشت کرتے تھے۔ کہ وہ جان سکیں کہ ان کی رعایا کس حال میں ہے۔ دورِ فاروقی کی خوبصورت مثالیں دینا بہت آسان ہے لیکن کیا ہم ساری عمر مثالیں دیتے اور مثالیں سنتے رہیں گے۔

کیا کبھی حکمران نے ذاتی طور پر راتوں کو اٹھ کر حالات جاننے کی کوشش کی۔ وہ تو دن کے اجالے میں ہونے والے ظلم سے بھی انجان ہوتے ہیں۔ ہماری بے حسی یہ کہ ہم صرف آہ وبقا کرتے ہیں ایک دوسرے کی ٹانگ کھینچتے ہیں۔ اپوزیشن حکومت کے خلاف بیان دیتی ہیں حکومت ک کوتاہیاں گنوانے میں مصروف نظر آتے ہیں اور حکومت سب اچھا ہے کی رپورٹ دینے کی حکمت عملی میں کوشاں۔ ٹی وی اینکر دونوں صورتوں میں عوام کو اینٹرٹینمنٹ مہیا کرتے ہیں۔

پوری قوم غمزدہ ہے، اور ایسے کتنے جملے جو کہے جاتے ہیں، سنے جاتے ہیں، بھلے لگتے ہیں ڈھارس بندھاتے ہیں اور بس۔ کیا ہم ساری عمر اسی مرثیہ گوئی میں بسر کر دیں گے۔ کیا ہمارے دکھوں کا مدوا ا کبھی نہیں ہوگا۔ کیا ہم اپنے بچوں کو تحفظ، جوانوں کو امان کبھی نہیں دیں گے۔ کیا ہمارے لوگ ہمیشہ خوف کی زندگی ہی بسر کرتے رہیں گے۔ مان لیجیے کہ ہم سب تاجر ہیں۔ سب اپنی اپنی دوکان سجائے بیٹھے ہیں۔ ہمیں کسی کے دکھ کی پرواہ ہے نہ فکر۔

ہم دکھ کی پرورش کرتے ہیں، سانحے پیدا کرتے ہیں، غم کی بولی لگاتے ہیں ہمارے ہاں لاشیں بکتی ہیں، سیاست چمکتی ہے۔ ہم سب تاجر ہیں۔ جو لاشوں پربھی تجارت کرتے ہی۔ کوئی بھی سانحہ ہو حکمرانوں کا پہلا مذمتی بیان ”ایسا نہیں ہونا چاہیے تھا، ہم مذمت کرتے ہیں“ دوسرا تعزیتی بیان ”دکھ کی اس گھڑی میں ہم لواحقین کے ساتھ ہیں“ اور تیسرا اور آخری تجارتی بیان ”ہم لواحقین کو اتنے کروڑ دیتے ہیں“ بس شو ختم، ذمہ داری تمام ہوئی۔

کسی کا گھر اجڑ جاتا ہے اور حکومتی عہدیداران نوٹوں کی بہار دکھانا شروع کر دیتے ہیں۔ تاکہ لوگوں کا منہ بند رہے۔ مجھے کہہ لینے دیجیئے کہ ہم لاشوں کے تاجر ہیں۔ ادھر کوئی سانحہ ہوا، کوئی گھر اجڑا، اورہم کیمروں کی ٹیم لے کر سانحہ پر تصویریں بنوانے پہنچ جاتے ہیں۔ ورثا کے غم کو امارت کے بوجھ تلے دفن کر دیتے ہیں۔ آرمی پبلک سکول کو کے سوا سو بچے ہوں، کراچی کی فیکٹری میں جل جانے والے دو سو پچاس افراد ہوں جعلی مقابلہ میں مارا جانے والا نقیب اللہ ہو، ریمنڈ ڈیوس کے ہاتھوں قتل ہوجانے والے دو نو جوان ہوں، دہشت گردی میں مارے جانے والے ہزارہ برادری کے سو افراد ہوں، زینب ہو، اعتزاز ہو، سانحہ ماڈل ٹاؤن ہو یا سانحہ ساہیوال ہو۔ جھوٹے دکھ کا اظہار کرتے رہیں گے، مذمتی بیان دیتے رہیں گے، اور لاشوں پر تجارت کرتے رہیں گے۔ ان واقعات میں ملوث افراد کو درندہ کہیں یا فرعون۔ کوئی فرق نہیں پڑتا۔ کوئی دہشت گردوں کے ہاتھوں مارا جاتا ہے تو کوئی دہشت گردوں کو ختم کرنے والے ادارے کے ہاتھوں۔

مارا جانے والا دہشت گرد تھا یانہیں لیکن بچ جانے والے تین بچے دہشت گرد ضرور بن جائیں گے۔ ان کے ننھے ذہنوں میں بہت بھیانک تصویر نقش ہو چکی۔ وہ ہمیں معاف نہیں کریں گے اور انھیں ہم جیسے لاشوں کے تاجروں کو معاف کرنا بھی نہیں چاہیے۔ جو ہمیشہ لاشوں پہ تجارت کرنے تو پہنچ جاتے ہیں۔ لیکن اس دہشت کے سد باب کے لیئھ کچھ نہیں کرتے۔ کب تک آخر کب تک یہ ظلم۔ جھیلتے رہیں گے؟ کب تک ظلم کا میدان سجتا رہے گا، کب تک لاشوں کی تجارت ہوتی رہے گی


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).