پشتون تحفظ تحریک اور پاکستانی ریاست کی حساسیت


پشتون تحفظ تحریک بنیادی طور پر محسود تحفظ تحریک کے نام سے 2014 میں گومل یونیورسٹی، ڈیرہ اسمٰعیل خان، سے شروع ہوئی۔ اس تحریک کے بانیان بنیادی طور پر وزیرستان کے محسود قبائل سے تعلق رکھنے والے چند طلبا تھے، اور انہوں نے اپنے علاقوں میں جاری فوجی آپریشن کی وجہ سے ان رکاوٹوں کو ختم کرنے کا مطالبہ کیا، جو ان کے نزدیک ان کے علاقے کے لوگوں کے لیے شدید مشکلات پیدا کر رہی تھیں۔

ان میں بنیادی طور پر تین مطالبات شامل تھے: بارودی سرنگیں ختم کی جائیں، پشتونوں کو اپنے علاقوں سے آتے اور جاتے وقت سخت اور بسا اوقات وہاں کی ثقافت اور رسم و رواج کے خلاف چیکنگ کے عمل سے نہ گزارا جائے، اور سیکیورٹی فورسز پر طالبان کی دہشت گردی کا ردعمل دیتے ہوئے ایف سی آر کے تحت اجتماعی سزا کے قانون کے تحت کارروائیاں نہ کی جائیں۔

اس تحریک کو مزید مہمیز نقیب اللہ محسود کے قتل سے حاصل ہوئی اور یہ تحریک پھر جنوری 2018 میں اسلام آباد میں اک پرامن دھرنے کے اختتام پر پشتون تحفظ تحریک بن گئی۔

محسود قبائل کے تحفظ کے حوالے سے اوپر بیان کیے گئے تین مطالبات کے علاوہ، پشتون تحفظ تحریک نے اس میں تین مطالبات کا مزید اضافہ بھی کیا: نقیب اللہ محسود کے قاتل راؤ انوار کو کٹہرے میں لایا جائے، جن افراد کو سیکیورٹی ادارے اٹھا کر لے جاتے ہیں، ان کے ساتھ سلوک و رویہ، عدالتی قوانین کے مطابق روا رکھا جائے، اک سچائی اور صلح کمیشن قائم کیا جائے جو سیکیورٹی کارروائیوں میں ہلاک ہونے والے پشتونوں کے بارے میں تحقیقات کرکے حقائق سامنے لائے۔

جدید سیاسی ریاست کے فریم ورک میں ان چھ مطالبات میں کہیں کوئی ایسی کجی، کمی یا سُقم موجود نہیں کہ ان پر تنقید کی جا سکے۔ آپ اس بات پر یقین بھلے ہے نہ کریں، مگر پاکستان لکھے ہوئے قوانین پر اکثریتی طریقے سے چلنے والی اک جدید سیاسی ریاست ہے، اور ان مطالبات کے حوالے سے اس کے فریم ورکس میں اتنی گنجائش بہرحال موجود تھی، ہے اور رہے گی بھی کہ اس بپھرے ہوئے ہاتھی کے ساتھ معاملہ فہمی کر کے آگے بڑھا جا سکے۔

معاملہ وہاں سے خراب ہونا شروع ہوا جب اس تحریک کے مرکزی رہنماؤں نے سٹیج سے اور کھلے عام پاکستانی ریاستی اداروں، بالخصوص، افواج پاکستان، آئی ایس آئی، ایم آئی اور ان اداروں کے اہلکاروں کے نام لے لے کر ان کے خلاف نعرے بازی شروع کی۔ اور اس پر مصر بھی رہے۔

کام یہاں پر نہ رُکا، بلکہ اس تحریک کے ساتھ شامل ہونے والے دوسرے کئی افراد نے اس تحریک کو اک نسل پرستانہ رنگ دینا شروع کر دیا اور پھر اس تحریک کے اک دو مرکزی رہنماؤں نے جو الفاظ ادا کیے، ان سے شہہ پاتے ہوئے، پنجابیوں کے بارے میں گم ہوتی ہوئی نسلی تفریق اور نفرت انہیں “کالے چہروں والے پنجابی” کہہ کر دوبارہ زندہ کی گئی اور اس پر بھی اصرار کیا گیا۔

کل جناب وسی بابا نے منظور پشتین صاحب کے حوالے سے تحریر کیا کہ انہوں نے اپنے جذبات کی شدت میں یہ نعرے صرف اک بار بلند کیے۔ جبکہ وہ اک سے زیادہ مقامات اور ویڈیوز میں ایسے نعرے بلند کرتے ہوئے دیکھے جا سکتے ہیں۔ جن میں ان کے پیروکاروں کے “باجوہ ماجوہ دھشتگرد، غپورا مپورا دھشتگرد” ایسے نعروں کے سُر بھی شامل ہیں۔ ان نعروں کے علاوہ، پشتون نوجوانوں کے وہ نعرے اور دشنام الگ ہے جو وہ اس تحریک کے جلسوں جلوسوں میں شرکت کے لیے جاتے ہوئے فوجی اور ریاستی اہلکاروں کو دیکھ کر انہیں پیش کرتے ہیں۔

پاکستانی ریاست کی تزویراتی حماقتوں پر لکھنے کے لیے تو شاید بحرہ قلزم کے پانی کے برابر کی روشنائی بھی کم پڑجائے گی۔ مگر اک سچ یہ بھی ہے کہ اسی پاکستانی ریاست اور اس کے اہلکاروں نے پچھلی کئی دہائیوں سے سیکیورٹی کے بےپناہ چیلنجز کا سامنا کیا ہے اور پاکستانی عوام کے سمیت، ان کے اہلکاروں کی بھی ہزاروں قربانیاں ہیں۔

اب تقریبا عین اس وقت کہ جب اس ساری مارا ماری کے بعد ریاست اپنے پاؤں سنبھالنے پر آئی تو قومیت کے نام سے شروع ہونے والی، جو بعد میں نسل پرستانہ تحاریک کی شکل اختیار کرتی چلی گئیں، پرتشدد تحاریک نے بلوچستان میں سر ابھارا جن کے مرکزی رہنما افغانستان اور امارات میں مارے اور پکڑے جاتے ہیں۔ پھر قوم پرستی کے حوالےسے پاکستان میں تشدد کی بھی اک لمبی تاریخ موجود ہے جو وقت کے ساتھ ساتھ اک جانب ہوئی اور اس کے رہنماؤں نے وفاقی مرکزی دھارے میں بہترین اور عمدہ کردار ادا کیے۔

خیال ہے کہ ایسی کوئی بھی تحریک جو نسل پرستی کے رنگ میں رنگی ہوئی ہو، اور جس میں مستقبل میں تشدد کی جانب مڑنے کی وجوہات بھی پنپ رہی ہوں، ریاست اس کو شکوک کی نگاہ سے ہی دیکھے گی۔ خیر، یہ رویہ صرف پاکستانی ریاست تک محدود نہیں، ہر ریاست ایسا ہی کرے گی۔ ایسے میں امن و اسلوب کی اولین ذمہ داری ان لوگوں پر عائد ہوتی ہے جو معاشرت و سیاست میں موجود ان شگافوں کی بنیاد پر تحاریک اٹھاتے ہیں۔

پشتون اور بلوچ علاقے اور نوجوان پچھلی کئی دہائیوں سے تشدد کو دیکھ اور سہہ رہے ہیں۔ اس تشدد کا جواب اور علاج مگر تشدد نہیں۔ پشتون تحفظ تحریک ایسی تحاریک کے حوالے سے تاریخ یہی اطلاع دیتی ہے کہ یہ بالآخر بکھر جاتی ہیں۔ بکھرنے سے قبل اور اس کے دوران کیا ہوتا ہے، یہ زیادہ اہم ہے۔

اس کے بکھرنے میں پشتون نوجوانوں کے خواب بھی بکھریں گے اور ان سرگرم جذباتی بچوں کے ہاتھ میں کچھ نہ آئے گا، ماسوائے اس کے کہ اک اور جمعہ خان صوفی ہوں گے جو اک اور فریبِ ناتمام تحریر کر رہے ہوں گے اور چند اک دل جلے نسل پرست، انہیں بھی آئی ایس آئی کا ایجنٹ کہہ رہے ہوں گے۔ اور اس تحریک کے سرکردہ لوگوں کی اولادیں مغربی ممالک میں جا کر زندگی گزارنے کے مزے لے رہی ہوں گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).