لوڈ شیڈنگ اور مہنگی بجلی کا آنے والا شدید بحران


فروری، مارچ، اپریل کے بعد نمودار ہونے والا مئی کا مہینہ جہاں ملک کے بیشتر علاقوں میں گرمی کی شدید لہر لائے گا وہیں ہم وطنوں کو لوڈشیڈنگ کے بڑے عفریت سے بھی نبٹنا پڑے گا کیونکہ حکومت، واپڈا اور بجلی کی ترسیل کرنے والی کمپنیاں لوڈ شیڈنگ کے بحران سے نبردآزما ہونے کی صلاحیت سے عاری دکھائی دیتی ہیں۔ دوسری طرف بجلی کی بڑھتی ہوئی قیمتوں کو کنٹرول کرنے میں بھی حکومتی وزراء کا علم یا تو نہایت واجبی ہے یا پھر وہ اس اہم ترین معاملہ کو حل کرنے میں دلچسپی ہی نہیں رکھتے۔

کچھ ہفتوں قبل ہی اپنے ”تفضیلی“ دلائل سے بھرپور پریس کانفرنس میں وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات بجلی کی اوسط پیداوار فی یونٹ 15 روپے تک بتا چکے ہیں۔ جس کا بریک ڈاؤن تو جناب وزیر نے بیان نہیں کیا تھا مگر ”ہم سب“ کے قارئین کی معلومات کے لئے اس فریضہ کی ادائیگی یہ راقم ذیل میں بیان کیے دیتا یے :۔

اس وقت ملک میں بجلی کی نصب شدہ پیداواری گنجائیش 33,836 میگا واٹ ہے۔ جس میں

1) :۔ ڈیزل / فرنس آئیل 16 % ( 5,413 میگا واٹ) بحساب 18 $ سینٹ کے موجودہ کرنسی ریٹ سے فی یونٹ 25.20 روپے
2) :۔ ایل این جی یعنی مائع قدرتی گیس سے 26 % ( 8,797 میگا واٹ) بحساب 9.5 $ سینٹ کے موجودہ کرنسی ریٹ سے 13.30 روپے فی یونٹ
3) :۔ قدرتی گیس سے 12 % ( 4,060 میگا واٹ) بحساب 7.5 $ سینٹ کے موجودہ کرنسی ریٹ سے 10.20 روپے فی یونٹ
4) :۔ کوئلہ سے 9 % ( 3,045 میگا واٹ) بحساب 6.3 $ سینٹ کے موجودہ کرنسی ریٹ سے 8.82 روپے فی یونٹ
5) :۔ شمسی توانائی اور ہوا کی طاقت سے 5 % ( 1,692 میگا واٹ) بحساب 14.85 روپے فی یونٹ
6) :۔ نیوکلئیر توانائی سے 5 % ( 1,692 میگا واٹ) بحساب 8.85 روپے فی یونٹ
7) :۔ پانی یعنی ہائیڈرو پاور ڈیمز سے 27 % ( 9,136 ) میگا واٹ بحساب 1.05 روپے فی یونٹ

نوٹ:۔ (ان اعداد و شمار میں بجلی کی فی یونٹ پیداوار اوسط سطح کے حساب سے لی گئی ہے اور اصل پیداواری قیمت میں 15 % سے 20 % کی کمی بیشی ممکن ہے کیونکہ زیادہ تر ذرائع میں خام مال کی قیمتوں میں اتار چڑھاؤ یا بجلی پیدا کرنے کے ذرائع کی مرمت و بندش جیسے عوامل کبھی بھی پیداوار کو متاثر کر سکتے ہیں ) ۔

اس ساری پیداوار میں شمسی توانائی، ہوا کی طاقت سے بننے والی بجلی اور ہائیڈرو پاور بجلی کا انحصار موسم اور دریاؤں میں پانی کی روانی سے ہوتا ہے۔ لیکن پچھلے سالوں کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ پانی یعنی ڈیموں سے پیدا ہونے والی بجلی کبھی بھی 2,414 میگا واٹ سے کم نہیں رہی جس کو اب بڑھا کر 6,700 میگا واٹ تک لے جایا جا چکا یے۔ یعنی نصب شدہ اور آپریشنل ڈیموں سے اب بجلی کی پیداوار کبھی بھی 6,700 میگا واٹ سے کم نہیں ہو گی۔

اگر ہم ملکی ضروریات کے لئے درکار 18 ہزار میگا واٹ بجلی سستے ترین ذرائع سے حاصل کرنا چاہیں تو پھر ہمیں ڈیموں، قدرتی گیس اور ایل این جی سے ہی اپنی ضروریات سے زیادہ بجلی مل سکتی ہے۔ جس میں ڈیموں سے کم از کم 6,700 میگا واٹ، قدرتی گیس سے 4,060 میگا واٹ اور ایل این جی سے 8,797 میگا واٹ بجلی مل سکتی ہے جس سے 10,550 میگا واٹ بجلی کی پیداوار کی فی یونٹ صرف 6.35 روپے تک ہی لاگت آئے گی۔ اس بجلی پر حکومت ٹیکسوں + منافع کی مد میں 5.65 روپے فی یونٹ منافع جمع کرکے بڑے آرام سے عوام کو 12 روپے فی یونٹ تک بجلی پہنچا سکتی ہے۔ اگر ایل این جی کی فراہمی میں مسئلہ ہو تو کوئلہ سے حاصل ہو سکنے والی 3,045 میگا واٹ بجلی، نیوکلئیر توانائی سے حاصل ہونے والی 1,692 میگا واٹ بجلی بھی سسٹم میں داخل کرکے بجلی کی قیمت کو 7 روپے سے 8 روپے فی یونٹ تک محدود رکھا جا سکتا ہے۔

بجلی کی ہیداواری لاگت میں مسلسل کمی کے لئے 2019 ء سے 2022 ء کے دوران زیرتکمیل 32 چھوٹے بڑے ڈیموں سے اضافی 7,100 میگا واٹ بجلی ملنے کے لئے مسلسل نظر رکھنی ہوگی۔ ہمارے پاس صرف پانی سے بجلی پیدا کرنے کے لئے 50 ہزار میگاواٹ کا پوٹینشیل شمالی علاقہ جات اور کشمیر میں موجود ہے جس پر ہم مسلسل محنت اور مصمم ارادوں سے عمل کرکے ملک کی تقدیر بدل سکتے ہیں۔

بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت میں بہتری لانے کے بعد ہم اس پوزیشن میں آ چکے ہیں کہ اپنی پیداواری لاگت کو کم کرکے عوام کو بجلی کی فراہمی سستے داموں کر سکیں۔ یاد رہے کہ واپڈا ہمیشہ سے منافع بخش ادارہ تھا مگر ہماری پچھلی حکومتوں نے پانی/ ڈیموں کی بجائے مہنگے طریقوں سے بجلی بنا کر سبسڈی دے کر سستی بجلی بیچنے کے لئے گردشی قرضوں کو پروان چڑھایا۔ پرائیویٹ بجلی پیدا کرنے والے اداروں کے خزانوں کو بھرتے ہوئے ہماری حکومتوں نے یہ بھی نہیں سوچا کہ جب پیدواری لاگت زیادہ اور بیچنے کی قیمت کم ہونے کے اس فرق والے خلاء کو پورا کرنا پڑے گا تو ہم کیا کریں گے۔

موجودہ حکومت کے پاس یہ سنہری موقع ہے کہ وہ 2019 ء سے 2022 ء تک زیر تکمیل ہونے والے ڈیموں کے منصوبوں کی بروقت اور یقینی تکمیل بنائے کیونکہ یہی وہ ذریعہ ہے جس پر عمل کرکے بجلی کی قیمت بھی کم کی جا سکتی ہے اور عوام کو لوڈ شیڈنگ کے عذاب سے بچایا جا سکتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).