منظور اعجاز کی خود نوشت: پرہجوم کشتی اور خالی گھونسلہ


 

ڈاکٹر منظور اعجاز نے اپنی خود نوشت ’جنڈریے: تن دیساں تیرا تانا‘ (My Life: Let me weave thy matrix) کے عنوان سے پنجابی زبان میں لکھی ہے۔ منظور اعجاز ہمارے ملک کی تادم تحریر تاریخ میں سب سے زرخیز اور توانا نسل کے نمائندہ رکن ہیں۔ تقسیم کے ارد گرد پیدا ہونے والی نسل جسے مڈ نائٹ چلڈرن کہا گیا، جس نے ساٹھ کی خواب آور دہائی میں اپنے سیاسی شعور کی آبیاری کی، ملک کو دو لخت ہوتے دیکھا، قومی آزادی کے غزال کو مقامی استحصال کے بھیڑیوں کے نرغے میں زخم زخم ہوتے دیکھا، تیزی سے منزلیں مارتی دنیا میں اپنے وطن کے معاشی ترقی کے امکان کو اجتماعی کوتاہ نظری کے ہاتھوں گم ہوتے مشاہدہ کیا۔ جیتی جاگتی معاشرت کو مفاد آلود منافقت کی اندھی گلی میں دم توڑتے دیکھا۔

درویش بے نشاں کا تعلق پاکستان کی دوسری نسل سے ہے۔ ہماری نسل نے منظور اعجاز کی نسل کے چراغوں کی روشنی کو لمحہ لمحہ مدہم ہوتے دیکھا۔ ہمارے حصے میں خواب نہیں، دھواں لکھا تھا۔

غنچہ پھر لگا کھلنے، آج ہم نے اپنا دل

خون کیا ہوا دیکھا، گم کیا ہوا پایا

غنچے کے کھلنے میں دل پرخوں کے مآل کی خبر کا ملال کچھ غالب ہی پر موقوف نہیں تھا۔ ٹی ایس ایلیٹ نے بھی تو اپریل کو ظالم ترین مہینہ قرار دیا تھا۔ دیکھیے انیس ناگی یاد آ گئے، اس لاحاصل عہد میں عمریں یونہی ڈھلتی ہیں۔ ڈاکٹر منظور اعجاز کی خود نوشت کو پڑھنا ایک لاحاصل عہد کی باز آفرینی جیسا انکشاف آور تجربہ ہے۔

اس کیفیت کے بیان سے پہلے یہ عرض کرنا مناسب ہے کہ درویش نے اس عریضے کے عنوان میں کشتی اور گھونسلے کا ذکر کیوں کیا۔ شاید آپ کو یاد ہو، دوسری عالمی جنگ میں ’غیر جانبدار‘ سوئٹزرلینڈ نے نازی جرمنی کے عذاب سے فرار ہو نے والوں پر سرحدیں بند کر دی تھیں۔ یہ نازی استبداد کی بالواسطہ اعانت تھی۔ اس پر 1981ء میںThe Boat is Full کے نام سے ایک پراثر فلم بنائی گئی تھی۔ ہم نے بھی اس ملک کی تین کروڑ آبادی کو 22 کروڑ نفوس کی اس پر ہجوم کشتی میں بدل لیا ہے جہاں روزگار، احترام اور آزادی کے لئے کوئی جگہ باقی نہیں۔

خالی گھونسلہ آبائی گھروں میں رہنے والے ان بوڑھے لوگوں کی نفسیاتی کیفیت کا استعارہ ہے جن کے بچے نئی زمینوں کی تلاش میں دور نکل جاتے ہیں۔ ڈاکٹر منظور اعجاز کی خود نوشت میں ایسے کتنے ہی نام چلے آئے ہیں جن کی ذہانت، صلاحیت اور اہلیت کو ہماری تعمیر میں کام آنا تھا، مگر ہم نے اپنے کھیت میں ایسی منہ زور جھاڑیاں کاشت کی کہ ’مرے ضبط حال سے روٹھ کر میرے غمگسار چلے گئے‘۔ ہم تو ڈاکٹر فضل الرحمن جیسے عالم دین کو برداشت نہیں کر سکے، اقبال احمد، ڈاکٹر عبدالسلام، امین مغل، مسعود منور، فیروز احمد، حمزہ علوی، نرگس ماول والا جیسے عبقریوں کے لئے ہمارے پاس کیا جگہ ہوتی۔ یہاں ان پرندوں کا ذکر نہیں جو رزق کی تلاش میں ملک چھوڑ گئے، یہاں ان سوجھوانوں کی بات ہو رہی ہے جن کی بلند پروازی کے لئے ہم نیلا آسمان مہیا نہیں کر سکے۔ بجرے دریا پار خزانے اپنے ڈھو لے جاتے ہیں۔

ڈاکٹر منظور اعجاز بنیادی طور پر فلسفی اور ماہر معیشت ہیں۔ شاعر اور ادیب ہیں۔ محقق ہیں، کالم نگار ہیں۔ پنجابی زبان کے فروغ کا پرچم اٹھانے والوں میں ڈاکٹر صاحب کا نام بہت نمایاں ہے۔ ابتدا میں جماعت اسلامی کی فکر سے متاثر تھے، مگر کم عمری ہی میں بائیں بازو کی سوچ اپنا لی۔ ہمارے ان چند دانشوروں میں ہیں جنہوں نے مارکسی فکر کے اساسی سرچشموں کے گہرے مطالعے سے اپنے نتائج اخذ کئے۔

پاکستان سے محبت کا یہ عالم کہ چار دہائیوں سے واشنگٹن میں مقیم ہیں لیکن انگریزی اور اردو میں ان کے کالم تسلسل سے پاکستانی اخبارات میں شائع ہوتے ہیں۔ 1995ءکی بات ہے۔ تنویر جہاں مجھے ڈاکٹر صاحب سے ملوانے لے گئیں۔ لاہور کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے۔ کوئی گھنٹہ بھر ملاقات میں ڈاکٹر صاحب کی گفتگو کا مرکز ان کے آبائی گاؤں برج والا میں ایک اسکول کا قیام تھا۔ اللہ اللہ، کیسے غنی ہیں کہ علم کی روشنی کو نیکی جانتے ہیں۔

ڈاکٹر صاحب نے اپنی خود نوشت پنجابی زبان میں لکھی ہے۔ کیوں نہ ہو، اس زبان کی خدمت میں ڈاکٹر صاحب نے چالیس برس صرف کئے ہیں۔ لاہور کے شاہ حسین کالج سے امریکا میں ’اپنا‘ اور ’سوچ وچار‘جیسے پلیٹ فارم قائم کرنے تک، ڈاکٹر منظور نے اپنی مادری زبان کو سانس کا وسیلہ بنائے رکھا ہے۔ تاہم اس مختصر کتاب میں سموئے جواہر پاروں کی پاکستان میں وسیع تر رسائی کے لئے مناسب ہو گا کہ اس کے اردو ترجمے کا اہتمام ہو سکے۔ ڈاکٹر صاحب اپنی مادری زبان اور ثقافت سے محبت ضرور کرتے ہیں لیکن ان کی وسعت نظر عصبیت کی تنگنائے سے آزاد ہے۔

اس کتاب کا پہلا باب ڈاکٹر صاحب کے بچپن کی یادوں کو احاطہ کرتا ہے۔ اس پرلطف بیان کو پڑھتے ہوئے مجھے مولوی محمد سعید کی خود نوشت ’آہنگ بازگشت‘ کا ابتدائی حصہ یاد آتا رہا۔ مولوی صاحب نے سیالکوٹ کے نواح میں اپنے بچپن کے مشاہدات قلم بند کئے تھے۔ منظور اعجاز نے ساہیوال کے گاؤں برج والا کی یادیں بیان کی ہیں۔ اس میں ڈاکٹر صاحب کی زندگی کے اس المناک باب کا ذکر بھی آ گیا جب پولیو کے موذی مرض نے ڈاکٹر صاحب کی ایک ٹانگ کا خراج لیا تھا۔ حیرت انگیز بات ہے کہ ڈاکٹر صاحب نے اس محرومی کو روگ نہیں بنایا۔ جہاں تہاں اس کا ذکر آیا ایک رواقیت پسند لہجے میں اشارہ کر کے آگے بڑھ گئے۔ تاریخ کی رکاوٹوں سے لڑنے والے حوصلہ مند جسمانی معذوری کو خاطر میں نہیں لاتے۔

منظور اعجاز کی خود نوشت میں خاصے کی چیز اشتراکی تجربے کا تجزیہ ہے۔ ڈاکٹر صاحب اشتراکی انقلابات کو مارکسی فکر کے صحیح اطلاق کی بجائے فلاحی ریاستوں کے قیام کا تجربہ سمجھتے ہیں۔ یقیناً فلسفے اور اقتصادیات کے گہرے مطالعے کی بنا پر ڈاکٹر صاحب کو اپنی رائے کا استحقاق ہے تاہم درویش اپنے محدود مشاہدے کی بنا پر سمجھتا ہے کہ اشتراکی تجربے کی ناکامی کا اصل سبب انسانی آزادی کے ارفع نصب العین سے گریز تھا۔ ڈاکٹر صاحب سرمایہ داری نظام کے کڑے ناقد ہیں۔ میری رائے میں اصل مسئلہ آج بھی یہی ہے کہ انصاف اور آزادی کے دو دھاروں میں توازن کیسے قائم کیا جائے؟

اشتراکی نمونے اور جمہوری تجربے کے معاشی زاویوں میں افراط و تفریط کا منبع یہی الجھن ہے کہ جمہوری آزادیوں کو مجروح کئے بغیر کھلی منڈی کو معاشی انصاف سے کیسے ہم آہنگ کیا جائے۔ اس کا کوئی حل ڈاکٹر صاحب نے پیش نہیں کیا۔ آج کی دنیا میں جہاں جمہوریت اپنے اخلاقی ترفع سے فروتر درجے پر اکثریت کے استبداد اور مقبولیت پسند سہل انگاری کی طرف بڑھتی دکھائی دے رہی ہے، شاید یہ سوال اکیسویں صدی کے ارتقا میں کلیدی اہمیت رکھتا ہے۔

لیجئے آخر میں ڈاکٹر صاحب کے ایک انکشاف کا بھی ذکر ہو جائے۔ ڈاکٹر صاحب نے بتایا ہے کہ اکتوبر 1999 میں پرویز مشرف کے اقتدار پر قبضے سے کوئی چھ مہینے پہلے مرحوم عمر اصغر خان آئندہ آمریت کے لئے مفید مطلب افراد کا انتخاب کر رہے تھے۔ ہماری قومی تاریخ کا مطالعہ یہی بتاتا ہے کہ اس ملک کے درماندہ باشندوں کے حق حکمرانی پر کوئی شب خون طویل منصوبہ بندی کے بغیر نہیں مارا گیا۔ دیکھنا چاہیے کہ آج کی فہرست میں رقم کیا ہے؟


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).