داسو ڈیم اور بابا عبدالقدوس کی نصیحت


”داسو“ کے لوگ داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ مکمل ہونے کا شدت سے انتظار کر رہے ہیں۔ ان کو یقین ہے کہ جس طرح منگلا ڈیم نے میرپور کے لوگوں کی قسمت تبدیل کردی ہے اسی طرح شاید داسو پراجیکٹ بھی ان کی نسلوں کو مالا مال کردیگا۔

داسو۔ کمیلہ برج کے نکڑ پر موجود ہوٹل کے پھٹے پر گاؤ تکیوں پر ٹیک لگائے ضعیف العمر عبدالقدوس خان باقی بیٹھے نوجوانوں پر اپنی دانش کی دھاک بٹھاتے ہوئے بولا کہ ”بس یہ واپڈا والے جس دن داسو پراجیکٹ مکمل کرلیں گے اور وہ سامنے اباسین (دریاؤں کے باپ سندھو دریا) پر شہید ذوالفقار علی بھٹو کا بنایا ہوا موجودہ پل جو اب تک علاقے کا سب سے بڑا پل بھی ہے جلد انتہائی چھوٹا ہو جائے گا۔ اس وقت تم داسو اور کمیلہ کو چھوڑ کر مت جانا۔ “

سر کھجاتے اک نوجوان پوچھا ”خان بابا یہ بھٹو پل چھوٹا کیسے ہوجائے گا۔ “

بابا عبدالقدوس خان تھوڑی دیر تک اپنی چترالی ٹوپی اتار کر اس کے کونوں کو کھینچ کر سیدھا کرتے اس کے گول دائرے پر انگلیاں پھیرتا رہا۔ اور نوجوان کی طرف دیکھے بغیر بولا ”بیٹا یہ دھرتی ہماری ہے، وہ دریا ہمارا ہے۔ چاروں طرف کھڑے پہاڑ، ان کی اوپر جمی برف، بہتے تمام چشمے اور جھرنے، یہ پل، وہ بازار اور ہاں اس شہر کے تمام گھر ہمارے ہیں۔ ہم ان کے مالک ہیں اور یہ ہماری شناخت ہے، یہ پاکستان یہ دیس بھی ہمارا ہے۔

بابا عبدالقدوس خان نے چترالی ٹوپی کو دونوں ہاتھوں سے پکڑ کر پہنا اور تکیے کی ٹیک چھوڑ کر سیدھے ہوکر بیٹھ گئے۔

”ہمارے جوانی میں اس ریشمی راستے پر چند ایک گاڑیاں کمزور اسپیڈ سے گزرا کرتی تھیں، جب شہید بھٹو اس داسو شہر میں پہلی بار آیا تھا تب ہم لوگوں نے ایک ساتھ دو تین درجن سے زیادہ گاڑیاں اک ساتھ دیکھی تھیں۔ وہ واقعی بہت خوبصورت تھا اباسین جتنا خوبصورت، وہ ہم سب کو بہت اچھا اور اپنا لگا تھا بالکل اباسین کی طرح، انہوں نے اپنے دور میں یہ مضبوط پل بنا کر داسو اور کمیلہ کو آپس میں ملایا تھا، وہ واقعی ملانے والوں میں سے تھا، توڑنے والوں میں سے نہیں۔ اس کی دور میں بنی اس پل پر آج کل روزانہ سینکڑوں گاڑیاں تیز رفتاری سے گزرتی ہیں کل جب چین والا راستہ (CPEC) بن کر مکمل ہوجائے گا تو یہ تعداد سینکڑوں سے ہزاروں ہوجائے گی۔

دونوں ہاتھوں کی انگلیوں کو ملاتے ہوئے بابا اس نوجوان کی آنکھوں میں دیکھتے اس کے ذہن میں کچھ انڈیل رہے تھے۔ ”یاد رکھنا ترقی کی رفتار مل کی چکی اور گاڑی کی انجن کی رفتار سے ناپی جاتی ہے۔ جس دن سی پیک والا روڈ بن گیا اور ادھر داسو ڈیم نے ہزاروں میگاواٹ بجلی پیدا کرنی شروع کردی تب یہ علاقہ بھی“ منگلا اور میرپور ”کی طرح بہت ترقی کر جائے گا۔ “

ملک پاکستان کی ترقی والے ان عظیم منصوبوں کا استقبال کیجئے گا، یہ آپ کی اور آپ کی دھرتی کی قسمت تبدیل کر دیں گے۔ یاد رکھنا آپ لوگوں کے پاس بہت سارا پیسا آجائے گا اور بہت سارے نئے لوگ بھی۔ تب آپ اپنی شناخت، ثقافت، بولی اور اپنی چیزوں پر نظر رکھنا۔ اگر آپ نے اپنے شہر اور لوگوں کو محفوظ کر لیا تو آپ کی نسلیں خوش رہیں گیں، اور اگر آپ پیسے کما کر اپنے پہاڑ چھوڑ کر میدانی علاقوں میں جا کر بسے تو آپ کی دھرتی پر دوسری قوموں کا آجانا نظام خداوندی ہے۔ ”

”مجھے تو داسو ڈیم کا بہت انتظار ہے“ بابا عبدالقدوس خان نے جیسے فیصلہ سنادیا اور پھر تکیے پر ٹیک لگائی اور آسمانوں کی طرف دیکھنے لگا ”میری دعا ہے کہ اک بار میں داسو ڈیم کو مکمل ہوتے دیکھ لوں، پھر بھلے ان پہاڑوں میں سو جاؤں۔

ساتھ ہی کونے پر گرم چائے کی چسکیاں لیتا ہوا میں خان بابا کو دیکھے بغیر دلچسپی سے ان کی بات سن رہا تھا، اور خان بابا بھی یہ باور کروا رہا تھا کہ وہ مجھے نہیں دیکھ رہا۔

داسو ہائیڈرو پاور پراجیکٹ کا مختصر تعارف یہ ہے کہ واپڈا کا شاہکار پراجیکٹ ہوگا، جو داسو شہر سے 7 کلومیٹر آگے سندھو دریا پر ”رن آف ریور“ پراجیکٹ ہوگا۔ یعنی ڈیم زیادہ دیر پانی کو روکنے کے بجائے صرف اس کے بہاؤ کو ٹنل کے ذریعے پاور ہاؤس کے طرف منتقل کرے گا جو بجلی بنانے کے بعد چند کلومیٹر کے فاصلے پر ہی پھر سندھو سے مل جائے گا۔ 4320 میگاواٹ بجلی پیدا کرنے کی صلاحیت والا یہ پراجیکٹ سستی پن بجلی کی وجھ سے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں انتہائی اہم کردار ادا کرے گا۔

واپڈا اس وقت ”ہر دس سال میں اک ڈیم“ کی جس پالیسی پر گامزن ہے اگر وفاقی سرکار اس کو اپنی مستقل پالیسی بنالے تو یقیناً ہم اگلے 30 سالوں میں گذشتہ ستر سال کی کمزوریوں کا کفارہ ادا کرنے میں کامیاب ہوجائیں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).