ٹیکس بھرو، وزیرِ اعظم کے ساتھ ڈنر کرو


ایک انگریزی اخبار میں خبر چھپی ہے کہ سال 2018ء میں سب سے زیادہ ٹیکس ادا کرنے والے پہلے پچاس افراد وزیر اعظم عمران خان کے ساتھ کھانا کھانے کا شرف حاصل کریں گے۔

یہ بالکل ایسے ہی ہے جیسے آپ کسی کی تیمارداری کو پھل لے کر جائیں اور وہ آپ کا لایا گیا پھل آپ کے ہی آگے رکھ دے اور ساتھ ہی ساتھ اپنی جیب سے جوس یا چائے بھی منگوا کر پلائے۔ وزیر اعظم نے حلف اٹھانے کے بعد اعلان کیا تھا کہ وہ ہر سال سب سے زیادہ ٹیکس دینے والے افراد کے ساتھ کھانا کھایا کریں گے۔ قوم کو خوشخبری ہو کہ اس وعدے کی وفا کا وقت آ چکا ہے۔

میں نے یہ خبر ٹویٹر پر شئیر کی تو بلاگر سعدیہ احمد نے پوچھا کہ ٹیبل پر کیا کیا رکھا ہو گا۔ میں نے جواب دیا اُن کا ٹیکس اور ہمارا ٹیکس۔ امید یہی ہے کہ ان کے ٹیکس کی نہاری، بریانی اور سٹیک بنی ہوگی۔ ہمارے ٹیکس سے رائتہ، سلاد اور چٹنیاں بن جائیں گی۔

ہماری نئی حکومت ایک طرف تو اتنا سادگی کا راگ الاپ رہی تھی کہ کہیں چائے کے ساتھ صرف بسکٹس سرو کیے جا رہے تھے تو کہیں خالی چائے یا سادہ پانی پر ہی ٹرخایا جا رہا تھا اور اب فیاضی کی ایسی مثال قائم کی جا رہی ہے کہ کیا کہنے۔

کچھ سال پہلے تک شادیوں کا کھانا ہمیں مفت لگا کرتا تھا۔ جب دوستوں کی شادیاں شروع ہوئیں اور اپنی جیب سے سلامی کے بھاری لفافے دینے پڑے تو شادیوں کا کھانا حلق میں پھنسنے لگا۔ اس ڈنر پر ان افراد کا بھی کچھ ایسا ہی حال ہوگا۔ بریانی کی پلیٹ جو 100 روپے سے لے کر 450 روپے تک حاصل کی جا سکتی ہے، ان سب کو فی کس لاکھوں میں پڑنے والی ہے۔ ہم تو پھر اپنے ساتھ گھر والوں کو لے جاتے ہیں کہ سلامی کے پیسے پورے ہو جائیں، ان افراد کو یہ موقع بھی نہیں ملے گا۔

یہ افراد پھر بھی ہم سے بہتر ہیں۔ ان کے ٹیکس کا پیسہ کسی نہ کسی صورت میں انہیں واپس تو کیا جا رہا ہے۔ ہمارا تو جانے کس کس کے آف شور اکائونٹ میں پڑا ہے۔ رپورٹ کے مطابق اس کھانے کا مقصد ٹیکس ادا کرنے والوں کی حوصلہ افزائی کرنا اور ٹیکس ریوینیو بڑھانے کے لیے ان کے مشورے لینا ہے۔

ہمارے خیال میں اگر اس کھانے سے کسی ٹیکس پئیر کی حوصلہ افزائی ہوگی تو وہ اس اکاونوے فرد کی ہوگی جو چند سکوں یا چند لاکھ روپوں کی وجہ سے وزیرِ اعظم عمران خان کے ساتھ کھانا کھانے سے محروم رہ گیا۔ یہ صاحب اگلے سال چند لاکھ زیادہ ٹیکس ادا کریں گے تاکہ شہیدوں کی اس فہرست میں اپنا نام بھی لکھوا سکیں۔

دوسری طرف ہم اس بات پر حیران ہیں کہ نئی حکومت ٹیکس جمع کرنے کے لیے کون سی ایسی حکمتِ عملی کی تلاش میں ہے جو اب تک مل کے نہیں دے رہی۔ انٹرنیٹ پر دو حرف لکھیں تو ٹیکس جمع کرنے کے ہزار طریقے سامنے آ جائیں گے لیکن اگر نہ ملے گی تو نیت نہیں ملے گی اور جب نیت نہ ہو تب کام نہیں ہوا کرتے۔

ٹیکس چوروں کی ایک بڑی تعداد تو ہم نے خود اپنے پارلیمان میں بٹھائی ہوئی ہے۔ جو پارلیمان تک آنے سے رہ گئے وہ پارلیمان والوں کے قریبی احباب میں شامل ہیں۔ پارلیمان میں موجود یہ افراد اربوں کھربوں کے ہوتے ہوئے بھی سالانہ ایک یا دو لاکھ سے اوپر ٹیکس نہیں دیتے۔ ٹیکس چوروں کو پکڑنا ہو تو پارلیمان کے اجلاس کے اختتام کے بعد اجتماعی گرفتاری کی جا سکتی ہے لیکن اتنا حوصلہ کس میں ہے؟

ہم جیسے لوگ تنخواہ بھی ٹیکس کی کٹوتی کے بعد وصول کرتے ہیں۔ ایک چیونگ گم بھی خریدیں تو اس پر بھی 17 فیصد جی ایس ٹی ادا کرتے ہیں۔ سفید پوش طبقے کی اکثریت نے باہر کھانا اس لیے چھوڑ دیا ہے کہ کھانے کی قیمت کے اوپر کھانے کی قیمت کا نصف تو صرف ٹیکس ادا کرنا ہوتا ہے پھر بھی کبھی کبھار ایسی عیاشی کر لیتے ہیں۔ بھاری بھر کم بل ادا کرنے کے بعد کچھ پیسے ویٹر کو بھی ٹِپ کی صورت میں دے دیتے ہیں۔ اس ڈنر میں جانے ٹِپ کون وصول کرے گا۔

اس جملے پر مجھے ایک کارٹون یاد آرہا ہے جس میں امریکہ اور طالبان کے درمیان مذاکرات میں عمران خان کے کردار کو دکھایا گیا تھا۔ اس کی تفصیل میں نہیں جائوں گی کہ پھر کالم مسترد ہونے کا خدشہ ہے۔

 اختتامیہ: جب ٹیکس ادا کرنا ایک فرض سے زیادہ احسان بن جائے تب ایسے ہی کھانے ہوا کرتے ہیں۔

 

 


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).