یتیموں کو چھاؤں دینے والے درخت


میری اُس سے پہلی باضابطہ ملاقات میلوڈی فوڈ پارک اسلام آباد میں دو ہزار گیارہ میں ہوئی تھی، میں اُن دنوں جرمنی سے پاکستان آیا ہوا تھا۔ اب تو وہ پولیس کا ایک بڑا افسر بن چکا ہے۔ خیر وقت گزرتا گیا اورربط مضبوط ہوتا گیا۔

جولائی دوہزار سترہ میں، میں پیرس میں اینے کمرے میں بیٹھا رچرڈ نکسن کی ”لیڈرز“ پڑھ رہا تھا کہ اُسکا پیغام ملا، ”یار تیری مدد چاہیے! میں نے پوچھا اتنے بڑے افسر کو بھلا میری کون سی مدد درکار ہوسکتی ہے؟ بولا میرا ایک بڑا پیارا دوست جو اب اس دنیا میں نہیں ہے، مجھے اُس کے لواحقین کو امداد بھیجنی ہے، تمہاری مدد چاہیے۔ میں نے کہا کیسی مدد؟ بولا مُجھے حیا آتی ہے اس لئے میں چاہتا ہوں کہ وہ امداد تم ان تک پہنچاؤ۔

میں سوچ میں پڑ گیا کہ کیسا عجیب شخص ہے جس کو نیکی کرتے ہوئے حیا آ رہی ہے کہ کہیں کسی جگہ پہ کوئی ریاکاری کا پہلو نہ نکل آئے اور میری نیکی نہ ضائع ہو جائے، اگر نیکی کرتے وقت اس کا یہ حال ہے تو گناہ تو اس سے سرزد ہو ہی نہیں پاتا ہوگا کبھی۔

خیر میں نے چند لمحوں کی تاخیر کے بعد اس کو اپنا اکاؤنٹ نمبر دے دیا، تھوڑی دیر بعد ایک بڑی سی رقم میرے اکاؤنٹ میں پہنچ چکی تھی۔ اتنی دیر میں اس کا پیغام دوبارہ آیا، خدا کے لئے میرا پردہ رکھنا یار۔ میں ہنس دیا، میں نے کہا کُچھ گناہ ایسے ہوتے ہیں جن کا اعلان ضروری ہوتا ہے۔ دنیا کی کوئی ایسی بات بتاؤ جو آج تک راز رہ گئی ہو؟

کوئی نہیں ملے گی ایسی کوئی بھی بات، جو آجتک راز رہ گئی ہو۔ اور اچھائی تو صدیوں بعد بھی اپنا تذکرہ کروا کر ہی دم لیتی ہے۔ اب خود ہی دیکھ لو، چیونٹی اچھی بات کرتی ہے تو سورة نمل میں ذکر آجاتا ہے، ہُدہُد کوئی پتے کی بات کرتا ہے تو قرآن بن جاتا ہے، لقمان دانا بیٹے کو نصیحت کرتا ہے تو خدا پوری سورة اتار کے چرچا کرتا ہے، یعنی ہر اچھائی اور ہر پتے کی بات کا اعلان لازم ہے، سو میں تمہاری نیکی کا گواہ ہو گیا قیامت تک کے لئے۔

بحث میں کون جیت سکتا ہے وکیلوں سے، جو مرضی کرنا مگر میرا نام اس نیکی کے ساتھ جوڑ کے مجھے ریاکاروں کی صف میں شامل نہ کرا دینا اور پھر نام بتائے بنا بات ذکر کرنے کی اجازت میں نے لے لی۔

سادات میں سے تھا شاید اس لئے محتاط تھا ورنہ ہم جیسے تو ڈبل روٹی کا ٹکڑا بھی خیرات میں دیتے وقت سیلفی لے کر فیس بُک پر اشتہار لگا کے داد وصولنا نہیں بھولتے۔

میں ہمیشہ اپنے اُس دوست سے کہتا ہوں کہ بہت قیمتی ہو تم اور بہت لمبی زندگی جینے والے ہو کیونکہ قدرت یتیموں کو چھاؤں دینے والے درختوں کے سائے لمبے کر دیا کرتی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).