وزیراعظم اب جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے پر عمل درآمد کریں


جسٹس قاضی فائز عیسی کا شمار ان ججوں میں ہوتا ہے۔ جو کھل کر آئین اور قانون کی کی بات کرتے ہیں۔ ان کے نزدیک فیصلوں کا معیار پسند و ناپسند نہیں بلکہ آئین اور قانون ہے۔ فیض آباد دھرنا کیس کا فیصلہ دیتے ہوئے انھوں نے نقابوں میں چھپے کرداروں کو بے نقاب کیا اور ان کے خلاف آئینی اور قانونی کارروائی کا حکم دیا ہے۔

دسمبر دو ہزار سترہ کی بات ہے جنرل باجوہ پارلیمان کو سیکیورٹی معاملات پر بریفینگ دینے کے لیے ایوان بالا جاتے ہیں۔ پارلیمنٹرین ایوان میں اپنے تحفظات و خدشات کا تقاریر کے ذریعے اظہار کرتے ہیں۔

ن لیگ کے سینیئر رہنماء و سابق وزیراطلاعات سینیٹر پرویز رشید تقریر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ مذہبی جماعتوں کو راولپنڈی اور اسلام آباد کے سنگم پر جنرل صاحب آپ نے بٹھایا جس کی وجہ سے حکومت مفلوج ہو کر رہ گئی لوگوں کا نظام زندگی معطل ہو کر رہ گیا۔

جنرل باجوہ جواب دیتے ہیں کہ ہم ان لوگوں کو مین سٹریم میں لانا چاہتے ہیں۔ اس پر پرویز رشید کہتے ہیں کہ پھر آپ انھیں فوج میں بھرتی کر لیں جس پر ایوان بالا میں ماحول تلخ ہو گیا۔

بات ہو رہی تھی فیض آباد دھرنا کی ان لوگوں کو یہاں لانے والا کون تھا ان کے مقاصد کیا تھے؟
سب کچھ جسٹس فائز عیسیٰ کے فیصلے سے عیاں ہو گیا۔

ہمارے ملک کی تاریخ ہے۔ یہاں مذہبی جماعتوں کو ہر دور میں مخالفین کے لیے استعمال کیا گیا۔ اور دلچسپ بات ہے کہ ان مذہبی جماعتوں کے سربراہ بھی کٹھ پتلی ہر دور میں بنے۔

ایسا ہی توہین رسالت کے معاملے پر کیا گیا۔ توہین رسالت کو لے کر مذہبی جتھوں کو فیض آباد بٹھا دیا گیا۔ مقصود تھا ن لیگ کو سبق سکھانا۔ اس میں کامیابی حاصل ہوئی پھر ایک معاہدہ ہوا جس کے بعد چشم فلک نے دیکھا کہ ایک حاضر سروس جنرل صاحب مظاہرین میں ایک ایک ہزار کے نوٹ بانٹ رہے تھے اور وہ معاہدے کے ضامن بنے۔ ویڈیو وائرل ہونے کے بعد کھسیانے انداز میں موقف اختیار کیا گیا کہ یہ ویڈیو سوات اپریشن کے بعد کی ہے۔

عدالتوں کے فیصلوں پر من و عن عملدرآمد ہو تو پھر فیض آباد دھرنے کے کرداروں کو آئین اور قانون کے مطابق سزا دی جائے تاکہ مستقبل قریب میں سویلین حکومت کے خلاف اس طرح کی سازش نہ ہو اور سیاستدانوں کو بھی چاہیے کہ وہ ان کی کٹھ پتلی بننے کی بجائے سیاسی میدان میں ایک دوسرے کا مقابلہ کریں جنھیں عوام کی حمایت حاصل ہو وہ اقتدار میں آئیں۔ یہاں سویلین تو احتساب کے شکنجے میں آتے ہیں۔ انھیں عدالتوں کے ذریعے رگڑا دیا جاتا ہے اور طاقتور ہر دور میں بچ نکلتے ہیں۔

ن لیگ اقتدار میں آئی تو انھوں نے جنرل مشرف کو آئین اور قانون کے مطابق سزا دینے کا فیصلہ کیا۔ عدالتوں میں کیس چلایا گیا۔ ن لیگ کے ساتھ کوئی بھی سیاسی جماعت کھڑی نہیں ہوئی۔ اس نے اکیلے یہ بھاری پتھر اُٹھایا باقی سب تاریخ ہے۔

وزیراعظم عمران خان تو قانون کی بالادستی کی بات کرتے ہیں۔ انھیں چاہیے کہ وہ فیض آباد دھرنے میں سپریم کورٹ کے دیے گئے فیصلے پر عمل درآمد کریں۔ عدالتوں کا کام فیصلہ سنانے کا ہے۔ اور اس پر عملدرآمد حکومت وقت کا کام ہوتا ہے۔ عمران خان ماضی کی غلطیاں نہ دہرائیں۔ انھوں نے دلیری سے یہ کر دکھایا تو پھر سویلین حکومتوں کے خلاف سازشیں ہمیشہ کے لیے بند ہو جائیں گی۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui