افغان صدر کے بیان پر تشویش اور پشتون ہم وطنوں کے دکھ پر خاموشی


وزیر خارجہ شاہ محمود قریشی نے افغان صدر کی طرف سے پشتون تحفظ موومنٹ کے ساتھ اظہار ہمدردی کے لئے جاری ہونے والے ٹوئٹر پیغام پر سخت رد عمل ظاہر کرتے ہوئے اسے غیر ذمہ دارانہ اور پاکستان کے معاملات میں سنگین مداخلت قرار دیا ہے۔ اس سے قبل صدر اشرف غنی نے دو ٹویٹ پیغامات میں پرامن مظاہرین اور سول ایکٹویسٹوں کے خلاف تشدد پر تشویش کا اظہار کیا تھا۔ ان کا کہنا تھا کہ ’یہ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے کہ وہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مؤقف اختیار کرنے والے سول کارکنوں کی حمایت کرے‘ ۔

ایک دوسرے پر الزام تراشی کی اس جنگ میں ملک کے دوسرے سیاست دانوں اور مبصرین نے بھی حصہ لیا ہے اور صدر اشرف غنی کے ٹوئٹر پیغامات کو پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت قرار دیتے ہوئے افغان صدر کو اس قسم کی حرکت سے باز رہنے اور اپنے عوام کی بہتری کے لئے کام کرنے کا مشورہ دیا گیا ہے۔ مبصرین کا یہ بھی خیال ہے کہ طالبان امن مذاکرات میں کابل حکومت کے ساتھ بات چیت کو ہر سطح پر مسترد کر رہے ہیں جس کی وجہ سے صدر اشرف غنی مایوس ہو کر پاکستان کو نشانہ بنانے کی کوشش کر رہے ہیں۔

پاکستان اور افغانستان کے لیڈروں کی طرف سے ایک دوسرے پر الزام تراشی کے اس ماحول میں البتہ پشتون تحفظ موومنٹ کے رکن قومی اسمبلی محسن داوڑ نے افغان صدر کی حمایت کا شکریہ ادا کیا ہے۔ اس طرح پشتون تحفظ موومنٹ کی وفاداری اور غیر ملکی رابطوں کے حوالے سے ایک نئی بحث کا آغاز ہو گیا ہے۔ پاک فوج کی طرف سے پشتون تحفظ موومنٹ پر بیرونی اشاروں پر کام کرنے کا الزام عائد کیا جاتا ہے جبکہ پی ٹی ایم کی قیادت کا کہنا ہے کہ وہ پشتون عوام کے بنیادی حقوق کے لئے جدوجہد کررہے ہیں۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں مباحث گزشتہ ہفتہ کے روز لورا لائی میں تحریک کے لیڈر ارمان لونی کی پولیس تشدد میں ہلاکت کے بعد زیادہ شدت اختیار کرگئے ہیں۔ پہلے بلوچستان میں سیکورٹی ایجنسیوں نے پی ٹی ایم کے لیڈروں کو ارمان لونی کے جنازے میں شرکت سے روکنے کی کوشش کی۔ اس کے بعد اسلام آباد میں اس ہلاکت کے خلاف مظاہرہ کرنے والوں کو گرفتار کر کے صورت حال کو مزید پیچیدہ بنایا گیا۔

اس کے علاوہ ملک بھر کے میڈیا میں ارمان لونی کے جاں بحق ہونے اور پشتون تحفظ موومنٹ کی سرگرمیوں کے بارے میں خبروں کی ترسیل میں رکاوٹ ڈالی جا رہی ہے۔ اس طرح یہ تاثر قوی ہؤا ہے کہ اس ملک کے طاقت ور حلقے اس تحریک کو قبول کرنے پر آمادہ نہیں ہیں۔ افغان صدر کے پیغام اور اس پر آنے والے سخت رد عمل کا تعلق بھی اسی تاثر سے ہے کہ پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں پاک فوج کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو رہا ہے اور وہ سمجھتی ہے کہ نوجوانوں کی یہ تحریک اپنی حدود عبور کر رہی ہے۔ گزشتہ برس کے آخر میں پاک فوج کے ترجمان میجر جنرل آصف غفور ایک پریس کانفرنس میں متنبہ کر چکے ہیں اگر پی ٹی ایم نے اپنی جائز حد سے باہر جانے کی کوشش کی تو سیکورٹی ادارے خاموش نہیں بیٹھیں گے اور سخت کارروائی کی جائے گی۔

پشتون تحفظ موومنٹ کے بارے میں سیکورٹی اداروں کی تشویش کی بنیادی وجہ یہ ہے کہ اس تحریک نے مسلسل امن قائم رکھنے اور عدم تشدد کی بات کی ہے لیکن ان کے جلسوں میں فوج کے خلاف نعرے بھی سننے میں آتے رہے ہیں اور اس کی قیادت بھی فوج کو قبائلی علاقوں میں مشکلات کا براہ راست ذمہ دار قرار دیتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ منظور پشتین اور ان کے ساتھی اپنے مطالبات ملک کی سیکورٹی اسٹبلشمنٹ سے کرتے ہیں اور ان کے مخاطب سول لیڈر اور حکومت نہیں ہوتی۔ ملک کی سول حکومتوں نے بھی اس حوالے سے اپنی ذمہ داری محسوس کرنے اور پشتون نوجوانوں کے جائز مطالبات پر بات کرنے یا ان سے ملاقات کرکے کوئی حل نکالنے کی کوشش نہیں کی۔

ہفتہ کے روز مبینہ پولیس تشدد میں ابراہیم ارمان لونی کے جاں بحق ہونے کے بعد خیبر پختون خوا اور بلوچستان میں وسیع پیمانے پر احتجاج دیکھنے میں آئے ہیں۔ منگل کو منظور پشتین کی اپیل پر ملک کے دیگر شہروں کے علاوہ دنیا بھر میں پشتونوں نے ارمان لونی کی ہلاکت پر احتجاج کیا تھا۔ لیکن وزیر اعظم یا ملک کی سیاسی قیادت کو اس بارے میں افسوس یا مذمت کا بیان دینے اور اس سانحہ کی حقیقت کا پتہ لگانے کی کوئی کوشش یا مطالبہ سامنے نہیں آیا۔ یہی وجہ ہے پی ٹی ایم کے بارے میں حکومت اور سیاسی نمائیندوں کی اس سرد مہری کی وجہ سے افغان صدر کا بیان پاکستانی حکومت اور سیاست دانوں کے لئے بطور خاص پریشانی کا سبب بنا ہے۔

صدر اشرف غنی کے بیان کی خواہ کوئی بھی وجہ ہو لیکن یہ بات بھی طے ہے کہ پشتون پاکستان اور افغانستان کی سرحد کے دونوں طرف آباد ہیں۔ ان علاقوں میں رونما ہونے والے واقعات دونوں ملکوں کی سیاست پر اثر انداز ہوتے ہیں۔ یہی وجہ ہے پاکستان کے اداروں کے افغان طالبان کے ساتھ دیرینہ تعلقات رہے ہیں۔ حال ہی میں طالبان نے امریکہ کے ساتھ مذاکرات کا جو سلسلہ شروع کیا ہے، پاکستان اس کا کریڈٹ لینے میں بخل سے کام نہیں لیتا۔ گویا یہ اصول تسلیم کیا جاتا ہے کہ پاکستان، افغانستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرنے اور ان پر اثر انداز ہونے کا حق رکھتا ہے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2

سید مجاہد علی

(بشکریہ کاروان ناروے)

syed-mujahid-ali has 2767 posts and counting.See all posts by syed-mujahid-ali