فیصل واوڈا کی بندوق


ہمارے بچپن میں پاکستان ٹیلی ویژن پر اکثر تاریخی ڈرامے آیا کرتے۔ ان ڈراموں میں عموماً تلواریں، منجنیقیں اور دیگر قدیمی ہتھیار دکھائے جاتے تھے۔ پھر ایک ڈرامہ کراچی سینٹر نے بنایا جو سلطان فتح علی ٹیپو کی حیات پر تھا۔ سلطان کی زندگی اور جنگوں پر بنا یہ ڈرامہ خان آصف مرحوم کی تحریر تھی۔ سچ یہ ہے کہ یہ ڈرامہ پی ٹی وی کے پرانے ڈراموں (جیسے آخری چٹان، شاہین، تعبیر اور نور الدین زنگی وغیرہ) کے موزانے میں بہت کمزور تھا ۔مگر اس ڈرامے سے ایک حقیقت ہم پر آشکار ہوئی کہ دنیا کی تاریخ میں پہلی مرتبہ میزائل سلطان ٹیپو نے ہی بنائے اور استعمال کئے۔ ہم سمجھے کہ یہ کسی نوع کی خوش فہمی ہے مگر جب تحقیق کی تو معلوم یہ ہوا کہ اہل مغرب بھی بیلسٹک ٹیکنالوجی کی ایجاد سلطان ٹیپو کی سلطنت خداداد ہی کے سر باندھتے ہیں۔ ساتھ ہی ہم پر یہ بھی آشکار ہوا کہ توپ اور بندوق بھی (ترک) مسلمانوں کی ہی ایجادات ہیں۔ حد تو یہ ہے کہ ریوالور کی ابتدائی شکل بھی ترکوں کی ہی تخلیق ہے۔

بندوق تو یعنی ہماری اپنی ہی شے ہوئی۔ پھر ہم نہ جانے کیوں ہر شے میں مغرب کی برتری کے خیال کا شکار رہتے ہیں۔ پھر بندوق بھی کسی کے پاس اپنی ذاتی ہو اور اسے اپنی پینٹ کی پشت کی جیب میں اڑس کر کمانڈو ایکشن کرنے کا شوق ہو تو کسی کو کیا اعتراض ہے بھلا؟ مگر بات تفصیل طلب ہے۔ راقم نے پہلی مرتبہ فیصل واوڈا کی صورت ٹی وی پر 2017ء میں دیکھی۔ تب تحریک انصاف والے ویلے لوگ تھے مگر واوڈا کے عجیب سے نام پر ہمیشہ توجہ مرکوز ہو جاتی۔ شروع میں راقم نے محترم کا نام فیصل واپڈا لیا۔ بعد میں معلوم ہوا کہ محترم کا نام واپڈا نہیں واوڈا ہے، آپ گجراتی ہیں، بہرحال آپ جو بھی کچھ ہیں مگر الحمدللہ خود کو کم از کم سپرمین ضرور سمجھتے ہیں۔

چند ماہ قبل جب چین کے قونصل خانے پر بلوچ لبریشن آرمی نے حملہ کیا تو آپ بھی اپنے کچھ محافظوں اور بلٹ پروف جیکٹ مع ٹی ٹی پستول کے جائے وقوعہ پر جا پہنچے۔ آپ کی اس حالت میں ذرائع ابلاغ نے خوب عکس بندی بھی کر لی۔ پھر ذرائع ابلاغ پر کچھ مذاق تو ہوا مگر بات پھر آئی گئی ہو گئی۔ محترم تب یہ کہتے ہوئے پائے گئے تھے کہ یہ ان کا ملک ہے اور وہ اس کا دفاع کرنے کہیں بھی جائیں گے اور کچھ بھی کریں گے۔

ویسے اس نوع کی وطن پرستی ہم میں تو ہے نہیں اور سلیم احمد سے ہم نے یہ سیکھا ہے کہ انسان کو اپنے سچے جذبات کا ہی اظہار کرنا چاہئے۔ ہاں وطن سے اتنی محبت ہم میں ضرور ہے کہ ہم کو جو کام آتا ہے، جو تعلیم حاصل کی ہے، جو پیشہ اختیار کیا ہے اس کو احسن طور پر سرانجام دینے کی کوشش کریں اور جو ہمارا کام نہیں وہ ان کو کرنے دیں، جن کا وہ کام ہے۔ مگر واوڈا صاحب کے حوالے سے پشتو زبان میں ایک ضرب المثل ہے جس کا ترجمہ ہے۔ کسان، بیل اور ہل تو کھیت میں کام کرنے جاتے ہیں اور ایک چوپایہ مفت میں ساتھ ہو لیتا ہے۔

مگر سوچنے کی بات یہ بھی تو ہے کہ واوڈا صاحب جو کام اس روز کر رہے تھے وہ تھا کیا؟ تھا بس یہ کہ حملہ بی ایل اے نے کیا، دفاع پولیس نے کیا اور تصویر کھنچوانے واوڈا صاحب پہنچ گئے۔ بڑی حد تک یہی کام تحریک انصاف کی حکومت کر رہی ہے۔ نیب اور ایف آئی اے والے نون لیگ اور پیپلز پارٹی والوں کو پکڑ رہے ہیں۔ اسٹیبلشمنٹ ملک کی ساری سیاسی جماعتوں کے اسکرو ٹائٹ کر رہی ہے، یہ اسکرو ٹائٹ کرنے کا عمل نہ تو تحریک انصاف نے شروع کیا ہے نہ ہی تحریک انصاف اسے ختم ہی کروا سکتی ہے۔ یہ سب دراصل اسٹیبلشمنٹ کی ملک کے اقتدار پر اپنا قابو بہتر بنانے اور بیرونی قوتوں کے ہاتھوں میں کھیلنے والے یا سرکش سیاسی کھلاڑیوں کو قابو کرنے کے لئے ہے۔

تحریک انصاف کو جو 2011ء سے قوت کے انجکشن لگے اور جو 2013ء میں خیبر پختونخوا اور بعد میں انجینئرنگ کر کے سارا ملک تحریک انصاف کی گود میں ڈالا گیا، یہ سب بھی اسی ہاتھیوں کی لڑائی کا حصہ ہے۔ یعنی آپریشن تو کوئی اور ہی کر رہا ہے مگر واوڈا صاحبان باہر پستول اڑس کر فوٹو کھنچوانے کھڑے ہیں۔ فواد چوہدری اسی طرح نیب کے ترجمان بن کر بات کرتے ہیں جیسے نیب تو ان کا بغل بچہ ہے۔

اس سے ایک واقعہ یاد آ رہا ہے۔ راقم جامعہ کراچی میں شام کی کلاسز پڑھا کر واپس گھر جانے کے لئے نکل رہا تھا۔ خبر ملی کی جمعیت اور اے پی ایم ایس او کے طلبہ میں تصادم ہو گیا ہے۔ طلبہ و طالبات کی بڑی تعداد میں بھگدڑ مچ گئی اور وہ جامعہ سے باہر نکلنے کے لئے مختلف دروازوں کی جانب بھاگے۔ راقم جب سلور جوبلی گیٹ پر پہنچا تو وہاں طلبہ و طالبات کا مجمع لگا تھا مگر دروازہ بند تھا اور رینجرز والوں نے سب کو روک رکھا تھا۔ راقم بھی خاموشی سے ایک طرف کھڑا ہو گیا، وہاں اس کی نظر ایک اور استاد پر پڑی جو کندھے پر بستہ لٹکائے کھڑے تھے۔ پھر محترم نے بستے سے اپنا سروس کارڈ نکالا اور دروازے پر جانے کی سعی کی کہ شاید یہ دیکھ کر انہیں جانے دیا جائے۔ سامنے دو لڑکیاں (جو یقینی طور پر محترم کی طالبات تھیں) بیٹھی تھیں، وہ بھی فوراً محترم کے ساتھ آئیں۔ ایک بولی ’’سر ہم کو بھی نکلوائیں اپنے ساتھ‘‘ دروازے پر موجود رینجرز کے سپاہی نے ان تینوں پر رعونت بھری نظر ڈالی، وہ ان سے کچھ کہنے ہی والا تھا کہ اس کے وائرلیس پر آواز آئی کہ دروازے کھول دو، اس نے دروازہ کھول دیا۔ محترم استاد اس حسن اتفاق پر مسکرائے اور طالبات سے بولے ’’دیکھا کیسا دروازہ کھلوایا‘‘۔ یہ جملہ اتفاق سے اسی سپاہی نے سن لیا اور تیزی سے ان تینوں کی طرف مڑا او رعونت سے سوال کیا ’’آپ نے کھلوایا ہے دروازہ؟‘‘ استاد محترم کھسیانی ہنسی ہنسے اور خاموشی سے نظر جھکا کر چل دیے۔

تحریک انصاف بھی کم و بیش اسی طرح دروازے کھلوا رہی ہے۔ اسی طرح احتساب کروا رہی ہے، اسی طرح اس سے قبل نون لیگ نے کراچی آپریشن کیا تھا، اسی طرح اس ملک میں سول حکومت کچھ بھی کرتی رہی ہے۔ سب کچھ تو خودکار نظام سے ’’کوئی اور‘‘ ہی کرتا ہے۔ بس ہمارے جمہوری حکمران اور سیاست دان یا تو خاموش رہتے ہیں یا پتلون میں پستول اڑس کر بلٹ پروف جیکٹ چڑھا کر باہر تصویر کھنچوانے پہنچ جاتے ہیں۔ اس لئے آپ بھی پستول پتلون میں اڑسیے اور تصویر بنوانے پہنچ جائیے۔ بے کار مباش کچھ کیا کر۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).