عزت نہ رہے تو دولت، شہرت اور اقتدار کس کام کے


عزت کا فلسفہ دوسرے تمام فلسفوں سے زیادہ عمیق و گہرا ہے اور اگر اس فلسفہ پر غور کیا جائے تو انسانی فطرت کے بہت دلچسپ مظاہرے ہوتے ہیں۔ چنانچہ انسان کے لئے عزت سے زیادہ کوئی شے عزیز نہیں۔ عزت کے لئے ہار انسان روپیہ، مال، دولت، بیوی، بچے صحت اور اپنی جان تک قربان کردیتا ہے مگر عزت سے محروم نہیں ہونا چاہتا۔ عزت کے لئے ہر شخص روپیہ ْصرف کرتا ہے، بے عزتی کے خوف سے اقتدار اقتدار تک لوگ قربان کردیتے ہیں۔

اس دنیا میں انسان کے لئے عزت سے زیادہ کوئی شے نہیں اور جو لوگ اپنی عزت کو ذٓاتی اغراض پر قربان کردیں وہ انسان کہلانے کے مستحق نہیں جولوگ اپنی عزت دوسروں پر بغیر غرض کے قربان کردیں وہ انسان نہیں فرشتے ہوتے ہیں کیونکہ پارسا سے پارسا شخص بھی نہیں چاہتا وہ عزت حاصل نہ کرے یا ذلیل ہو۔ اپنی عزت کو دوسروں پر قربان کرنے والے اشخاص بھی اس دنیا میں ہوئے، ایساہی واقعہ دیوان سنگھ مفتون نے اپنی کتاب ”ناقابل فراموش واقعات“ میں لکھا ہے۔

دیوان دیا رام گدو مل حیدر آباد (سندھ) کے ایک معزز خاندان میں سے تھے۔ آپ ممبئی پراونشل سول سروس جج تھے۔ ان کا زیادہ عرصہ سندھ اور ممبئی کے اضلاع میں بطور سیشن جج گزرا۔ ان کی تنخواہ ہزار روپے سے زیادہ تھی۔ آپ کا ذاتی خرچ چالیس پچاس روپے سے زیادہ نہ تھا۔ اپنی تنخواہ کا بیشتر حصہ غریبوں، محتاجوں کی خدمت میں صرف کرتے۔ چنانچہ سندھ میں سینکڑوں کی تعداد میں ایسے لوگ موجود ہیں جن کے والدین، مزدور، قلی، برتن صاف کرنے والے، گھروں کے ملازم ادنیٰ قسم کے لوگ تھے۔ مگر دیوان دیا رام کے روپیہ سے اعلیٰ تعلیم حاصل کرکے بہت بڑے اعلیٰ عہدوں پر پہنچے۔

دیوان دیا رام گدو مل ملک کے بہتر بڑے سوشل ریفارمرز بھی تھے۔ سندھ میں ان کی عزت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا تھا کہ حیدر آباد میں جب لوگوں کو علم ہوتا کہ آپ اس بازار سے گزریں گے تو لوگ وقت سے پہلے انتظار میں کھڑے ہوجاتے۔ ان کی راہ میں پھول برساتے تھے۔

انہوں نے اپنی زندگی غریبوں کی خدمت کے لئے وقف کررکھی تھی۔ ان کے ذہن میں ایک آئیڈیا آیا کہ ایسا ادارہ بنایا جائے جہاں امیر طبقہ کے نوجوانوں میں غریبوں کی خدمت کے لئے جذبہ پیدا کیا جائے۔ اس طرح امیر طبقہ کے نوجوان دوسرے ہزار لوگوں کے لئے مفید ہوسکتے ہیں۔ چنانچہ ممبئی میں انہوں نے ایک ادارہ قائم کیا جس میں صرف امیر طبقہ کے کئی نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ہر روز گھنٹہ بھر کے لئے آتے، انہیں لیکچر کے ذریعے بتایا جاتا کہ غریبوں کی خدمت کرنی چاہیے۔ دوسروں کے دکھ کو اپنا دکھ سمجھنا انسان کا فرض ہے۔ دولت کا صحیح استعمال یہ ہے کہ ضرورت مندوں کے کام آئے، اس شخص کا پیدا ہونا اور زندہ رہنا لاحاصل ہے جو صرف اپنے لئے زندہ رہتا ہے اور دوسروں کے کام نہیں آتا۔

یہ ادارہ کئی برس تک چلتا رہا اس سے امیر گھرانوں کے نوجوانوں میں یہ جذبہ ابھرا کہ وہ ضرورت مندوں کی خدمت کرنے لگے۔ اس ادارے کو قائم ہوئے کئی برس ہوچکے تھے کہ ایک روز ایک نوجوان لڑکی جس کا والد ممبئی میں ایک بہت بڑے عہدے پر فائز تھا اور جس کے منگیتر نے بیرسٹری کررکھی تھی اور انڈین سروس امتحان کے لئے انگلستان میں تھا۔ ایک دن دیوان دیا رام کے پاس آئی اور تنہائی میں کہا کہ پتا جی (ادارے کے تمام لڑکے اور لڑکیاں دیوان دیا رام کو پتا جی کہا کرتے تھے ) میں بہت دکھی ہوں میں ایک ناجائز بچے کی ماں بننے والی ہوں، خاندان کی عزت کا سوال ہے۔ میں چاہتی ہوں کہ خود کشی کرکے خاندان کی ناموس کو بچاؤں۔ آپ کی باپ کی طرح عزت کرتی ہوں مجھے رائے دیں کہ میں کیا کروں؟ آپ نے کہا کہ اس شخص سے شادی کرلو جس کے بچے کی تم ماں بننے والی ہو۔

اس رائے کے بعد لڑکی نے چاہا کہ اس شخص سے شادی کرے مگر لڑکی برہمن خاندان اور لڑکا بنیا خاندان سے تعلق رکھتا تھا سماج کی بندش آڑے آگئی اور لڑکے نے شادی کرنے سے انکار کردیا۔ تمام کوششوں کے باوجود جب کوئی بات نہ بنی تو لڑکی نے ایک بار پھر انہیں کہا کہ خود کشی کرکے اپنی جان کو ختم کردوں تاکہ میرے خاندان کی ناموس بچ جائے۔

دیوان صاحب لڑکی کی مصیبت کو دیکھ رہے تھے اور دکھی تھے مگر کچھ نہ کرسکتے تھے۔ انہوں نے لڑکی سے کہا کہ بیٹی خود کشی کرنا پاپ (گناہ) ہے خود کشی مت کرو او جس طرح ممکن ہو کسی نوجوان سے شادی کرلو لڑکی نے جواب دیا اس حالت میں نوجوان تو کیا کوئی رنڈوا بھی مجھے پناہ دینے کو تیار نہیں۔

جب کوئی راستہ نہ نکلا تو دیوان دیا رام نے کہا کہ بیٹی اگر تجھے کوئی پناہ دینے کے لئے تیار نہیں تو میں تمہیں پناہ دینے اور بے عزتی سے بچانے کے لئے تیار ہوں میں تم سے شادی کرتا ہوں۔
یہ کہنے کے بعد وہ باندرہ گئے اور کوٹھی کرایہ پر لی اور واپسی پر آکر ادارے کو تالا لگا دیا اور سکھ طریقے کے مطابق شادی کرلی۔ دیوان صاحب اپنی نوجوان بیوی کو لے کر باندرا کوٹھی میں چلے گئے جو آئندہ زندگی گزارنے کے لئے کرائے پر لی تھی۔ دیوان سنگھ برصغیر میں شہرت و عزت کی ہمالیہ پر کھڑے تھے۔ ان کے اس عمل سے اخبارات میں مظامین شائع ہوئے جن کے عنوان تھے ”باپ کی بیٹی سے شادی“، ”نفس پرستی کی انتہا“ بات یہیں پر ختم نہ ہوئی جب کبھی وہ بازارجاتے تو لوگ ان پر پتھر پھینکتے اور گالم گلوچ کرتے۔

دیوان دیا رام کی بیوی کے بطن سے اس عمل کا نتیجہ میں لڑکی پیدا ہوئی۔ وہ شادی کے بعد دنیا سے الگ ہوگئے۔ وہ اپنی بیوی اور بچی کے ساتھ سمندر کے کنارے اس کوٹھی میں تنہا زندگی بسر کرتے رہے اس طرح دس سال گزر گئے، دنیا کو اس حقیقت کے بارے میں علم نہ تھا۔ شادی کے دس سال بعد ان کی بیوی تپ دق میں مبتلا ہوگئی، ایک دن اس کی والدہ اس کی عیادت کے لئے گئی تواس نے اپنی ماں سے کہا ”اماں میں اب زندہ نہیں رہوں گی۔ چند روز کی مہمان ہوں مگر ایک راز میں تم پر ظاہر کرنا چاہتی ہوں تاکہ یہ راز لے کر دنیا سے نہ جاؤں اور وہ راز یہ ہے کہ دیوان دیا رام نے میرے ساتھ شادی میری عزت بچانے کے لئے کی انہوں نے اپنی عزت و شہرت میرے لئے قربان کردی اصل حقیقت یہ ہے کہ میرے اور ان کے درمیان تعلقات باپ بیٹی کے ہیں دنیا مجھے ان کی بیوی سمجھتی ہے مگر میں ان کی ویسے ہی بیٹی ہوں جیسے شادی سے پہلے۔ “

راز کے آشکار ہونے کے بعد اس کا انتقال ہوگیا۔ جب اس راز کی حقیقت لوگوں کو معلوم ہوئی تو وہ دیوان دیا رام کو کسی اور مخلوق کا باسی سمجھنے لگے۔ اپنی ذات، اپنے پیٹ یا اپنی عزت کے لئے کسی کے ساتھ احسان کرنا قابل تعریف فعل نہیں اس کی تہہ میں ذاتی اغراض پوشیدہ ہوتے ہیں۔

ہم اپنی عزت دوسروں پر قربان کرنا تو دو ر کی بات اپنی عزت بچانے کے لئے عہدوں سے بھی مستعفی نہیں ہوتے، عہدوں سے چمٹے رہنے میں ہی اپنی عزت سمجھتے ہیں۔ طاقت و اختیار مل جائے تو خلق خدا کی بھلائی کے کام کرنے کی بجائے ان کے لئے مشکلات پیدا کرتے ہیں۔ مشرف کو آرمی چیف بنایا گیا تو اس نے طاقت و اختیارات کا ناجائز فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنے ہی محسن کا تختہ الٹ دیا اور دس سالوں تک سیاہ و سفید کے مالک بنے رہے۔

زیادہ دور کی بات نہیں دیوان دیا رام کے شعبہ سے تعلق رکھنے والے سابق چیف جسٹس (ر) ثاقب نثارقاضی القضاء بنے توہونا یہ چاہیے تھا کہ وہ آئین اور قانون کے مطابق فیصلے کرتے مگر وہ شہرت کے رسیا تھے جس کی وجہ سے ان کے فیصلوں میں ذاتی پسند و ناپسند کا عنصر غالب رہا جب تک وہ چیف جسٹس رہے انصاف پر مبنی فیصلے تو نہیں کیے مگر سچ کو چھپا کر جھوٹ بولنے میں عزت تلاش کرتے رہے۔

وہ عہدے میں عزت تلاش کرتے رہے۔ ہمیں پتہ ہونا چاہیے کہ عہدوں میں عزت نہیں ہوتی بلکہ عہدے عزت داروں کے محتاج ہوتے ہیں۔ ایسے لوگ جو دھونس دھاندلی، چاپلوسی، کاسہ لیسی میں عزت کو اپنے ذاتی اغراض پر قربان کردیتے ہیں وہ انسان کہلانے کے مستحق نہیں، ہمیں یہ معلوم ہونا چاہیے کہ دولت اور عزت کا آپس میں کوئی تعلق نہیں۔ عزت نہ رہی تو دولت، شہرت اور اقتدار کس کام کے۔

بشارت راجہ

Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

بشارت راجہ

بشارت راجہ شہر اقتدار سے پچھلی ایک دہائی سے مختلف اداروں کے ساتھ بطور رپورٹر عدلیہ اور پارلیمنٹ کور کر رہے ہیں۔ یوں تو بشارت راجہ ایم فل سکالر ہیں مگر ان کا ماننا ہے کہ علم وسعت مطالعہ سے آتا ہے۔ صاحب مطالعہ کی تحریر تیغ آبدار کے جوہر دکھاتی ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ وسعت مطالعہ کے بغیر نہ لکھنے میں نکھار آتا ہے اور نہ بولنے میں سنوار اس لیے کتابیں پڑھنے کا جنون ہے۔

bisharat-siddiqui has 157 posts and counting.See all posts by bisharat-siddiqui