ممی اور چھوٹی چھوٹی باتیں


بچوں کی تربیت کی بات ہو تو اسمیں چھوٹی چھوٹی دکھائی دیتی چیزیں بڑے بڑے بگاڑ پیدا کر دیتی ہیں۔

آمنہ صبح منہ ہاتھ دھو کر ناشتے کی میز پر ہاتھ میں اک کتاب اٹھائے ناشتے کے لئے آی تو پیچھے پیچھے اس کے بابا آ گئے۔ ”آمنہ! منہ دھویا؟ “

ہاں! ”

”کس سے؟ “

اب اس سوال سے میں بھی چونک کر لنچ باکس پیک کرتی مڑی کہ مجھے یاد آیا باتھ روم میں صابن تو ختم ہے اور ابھی تک میں نے اسے باقاعدہ فیس واش شروع نہیں کروایا۔

”صابن تو ہے نہیں۔ کیسے دھویا؟ “

”پانی سے! “

یہاں میرے صبر کی انتہا جواب دے گئی۔

شاید ہو سکتا ہے کہ انگریزی طرز تربیت میں یہاں مجھے اسے شاباش دینی تھی کہ شاباش سچ بولا۔ پر اتنا حوصلہ کہاں تھا مجھ میں۔ میرا دماغ تو یہی سن کر بھک سے اڑ گیا تھا کہ میری گیارہ سالہ گریڈ 5 کی بیٹی بغیر منہ دھوئے بڑے مزے سے سکول جانے کے لئے تیار بیٹھی ہے۔ یہ کیسے ہوا؟

اسکا سکون بتاتا ہے کہ پہلے بھی بہت بار وہ یہ حرکت اک بے ضرر کام سمجھ کر کر چکی ہے کہ اسے اس میں کوئی حرج ہی نہیں دکھائی دے رہا۔ میری وہ بیٹی جس کے بے بی ہڈ میں اس کی ماں کی مثالیں دی جاتی تھیں کہ وہ تو ایسے بنا سنوار کر اپنے بچوں کو رکھتی ہے اور آج وہی بچے بغیر منہ دھوئے سکول جانے کو ایک عام سا عمل سمجھتے ہیں؟

شروع کے پندرہ منٹ تو یقین نہ آیا صرف یہی کہنے پر اکتفا کیا کہ

It ’s so disappointing۔

I can ’t believe this۔

لیکن آخر یقین آ گیا جب آمنہ کو کتاب میں مکمل طور پر مگن ہونے کی کوشش کرتے دیکھا۔ یعنی میری بات کو صحیح معانی میں وہ کھڑوس ماں کی جھک جھک سمجھ کر نظر انداز کرنے کی کوشش میں ہے۔ اب یہاں سے اسے سزا دینے کا خیال آیا تا کہ اسے بات کی سنجیدگی کا اندازہ ہو۔ کیا منہ ہاتھ دھوئے بغیر سکول چلے جانا ایک عام سی بات ہے؟

گندہ چہرہ دن بھر!

بغیر آنکھیں دھوئے سارا دن کتابیں، پراجیکٹرز اور ٹیبلٹس؟

اسکے بعد میرا جو بولنا شروع ہوا تو رک نہ سکا۔ میں نے حکم صادر کیا کہ آج کے بعد فاطمہ اور محمد آمنہ کو بے بی کہہ کر بلائیں گے کہ اسے فیس واش نہیں کرنا آتا۔ چونکہ بے بی لفظ ان کی چڑ ہے۔

اور آج کے بعد میں خود اپنے ہاتھ سے اس کا چہرہ دھووں گی روزانہ صبح۔ بلکہ ہفتہ میں ایک بار اپنے ہاتھ سے نہلاوں گی بھی۔

مگر اس سارے عمل سے میں کوئی پچھتاوا تو پیدا نہ کر سکی، الٹا آمنہ لمبے لمبے آنسو گراتی، خود کو مظلوم اور ماں کو ظالم سمجھتی اور اس کے ظلم کی شکایت کرتی سکول کے لئے نکلی۔

میں کیوں اسے احساس نہ دلا سکی کہ اس کا کام کس قدر سنجیدہ کوتاہی ہے؟ اپنی غلطی تسلیم کرنے کی بجائے وہ خود ترسی کا شکار کیوں ہوئی؟ اسے لگتا ہے کہ اس کا چہرہ دھلوا کر ماں اس پر ظلم کرتی ہے۔ کیوں؟

اسکی ایک وجہ تو یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں جب بولنا شروع ہوئی تو وہاں تک بولتی چلے گئی جب تک مجھے احساس نہ ہو کہ میری باتیں اس پر کوئی اثر کر رہی ہیں کہ نہیں۔

یہ بھی ہو سکتی ہے کہ میں نے اسے غلطی سدھارنے کا ایک موقع دیے بغیر سزا بھی سنا دی۔

اور یہ بھی ہو سکتی ہے کہ اس کے دماغ میں یہ چیز رااسخ ہو چکی ہو کہ اس کی ماں ظالم ہے جو اس پر ظلم کرتی ہے۔

اس کے پیچھے ایک لمبی کہانی ہے۔

آمنہ جب ننھی بچی تھی اور میں ایک نئی نئی بنی گھریلو امور اور ذمہ داریوں سے ناواقف ماں۔ پردیس کی تنہائی میں گھر میں بغیر کسی ملازم کی مدد کے، ڈھیروں ڈھیر کرنے والا کام کام بھی ایسا جو آتا نہیں، آتا ہے تو اچھی طرح سے نہیں۔

دو سال کی آمنہ اور تین سال کی فاطمہ کو کبھی کسی بات پر تھکے ہارے دماغ سے ایک لگا بیٹھتی یا ڈانٹ دیتی تو ابا چیختے چنگھاڑتے پہنچ جاتے۔ میرے نہیں میرے بچوں کے ابا! بچوں کے سامنے ہی وہ مجھ پر چلاتے، ڈانٹتے کہ میں نے اتنی سی بچی کو ڈانٹا یا مارا ہے۔ مان لیا کہ مجھ سے غلطی ہو سکتی ہے شاید مجھے وہ ایک ہلکا سا طمانچہ نہیں لگانا چاہیے تھا جو میں نے لگا دیا مگر اس ذرا سی غلطی پر آنے والے ردعمل نے تربیت کا سارا سسٹم بدل کر رکھ دیا۔

بحثیت ایک ممی کے بچوں کی غلط بات یا رویے پر مجھے روکنے ٹوکنے یا مارنے کا حق نہیں میرا فرض ہے۔ چونکہ سب سے اہم میرے کاموں میں سے تربیت ہے۔ لیکن جب ایک طمانچے کے جواب میں بچے کے سامنے اس کی ماں کی بھرپور بے عزتی کر دی جائے، اور بچے کے ننھے ذہن کو کو یہ بات باور کروا دی جائے کہ اس کے ساتھ اس کی ماں نے ظلم کیا۔ کیا وہ بچہ پھر ساری عمر اس ماں کی بات کو اہمیت دے سکے گا؟

اس بات پر میں بھی ہمیشہ جھگڑی۔ بہت پیار سے، محبت سے، حوصلے سے غصے سے لڑ جھگڑ کر میاں کو سمجھانے کی کوشش کی کہ بیٹی کے ذہن میں یہ نہ بٹھائیں کہ ماں اس کی دشمن ہے۔ جس ماں نے ساری عمر اسے رستہ دکھانا ہے اس کے بارے میں بچوں کو یہ نہ سکھائیں کہ وہ ان کے بھلے کے لئے نہیں روکتی ٹوکتی بلکہ ان پر ظلم کرتی ہے۔ مگر ہمارے ملک کے شوہر بیویوں کی کہاں سنتے ہیں اپنے سارے دن کی غیر حاضری اور بچوں سے دوری کو صرف ایک ہی لمحے میں روتے ہوے بچے کی حمایت کر کے اور ان کی ماں کو ڈانٹ کو پوری کر لینا چاہتے ہیں۔

اور اس سے بھی بڑھ کر یہ ظلم کہ بیوی صحیح اور غلط جانتی بھی ہو تو صرف شوہر کے نہ ماننے کی وجہ سے ہر نقصان میں برابر کی شراکت دار بنتی ہے۔ یہ عادت سنبھالتے سنبھالتے دس سالوں میں میاں صاحب نے کچھ کنٹرول تو کی مگر مکمل طور پر ختم نہ کی۔ دس سال بہت ہوتے ہیں بچوں کو سبق سکھا دینے کے لئے۔ تو آج وہی بچے میری باتوں کو کان سے مکھی کی طرح اڑا دیتے ہیں تو حیرت کیسی؟ آج اسے میرا فیس واش کا کہنا ظلم لگتا ہے تو اس میں تعجب کیسا۔ انسان جو سکھاتا ہے بچہ وہی تو سیکھتا ہے۔ چھوٹے چھوٹے رویے بڑے بڑے بگاڑ پیدا کرتے ہیں۔

فاطمہ سوا ماہ کی تھی جب میں اسے واپس اپنے سسرال لائی۔ اس وقت میں ایک ورکنگ ماں تھی اور روزانہ صبح ایک بڑے ادارے میں جاب پر جاتی تھی۔ فاطمہ میری ساس کے پاس ہوتی تھی جو میرے آنے سے پہلے اسے شوق سے نہلا دھلا لیتی تھیں۔ مگر ان کو فاطمہ کے سوا مہینے میں سانولے ہوتے رنگ کا قلق تھا۔ وہ ابھی ابھی فاطمہ کو ساری عمر کے لئے خوب گورا کر دینا چاہتی تھیں۔ چناچہ اپنی کسی گاڑھی سہیلی کے مشورے پر انہوں نے سرسوں کے تیل میں بیسن ملا کر سوا ماہ کی فاطمہ کو نہلانے سے پہلے مساج شروع کر دیا۔

میں سسرال میں نووارد دبکی ہوی سہمی ہوی بہو۔ مجھے دروازے بند کر کے آخری کمرے میں جا کر کان بند کر کے کلیجہ تھامنا پڑتا کہ اس عمل کے دوران سوا ماہ کی فاطمہ کی چیخیں سارے گھر کو ہلا دیتیں۔ ننھے سے جسم پر بیسن کی رگڑیں۔ بیسن جو ہم جیسے جوان جہان لوگوں کے چہروں کو بھی لال کر دیتا ہے اس کا مساج سوا ماہ کی فاطمہ کے چہرے اور جسم پر۔ تا کہ اس کی روئیں ں صاف ہو جائیں اور رنگ گورا۔ وہ سوا ماہ تک میرے ہاتھ سے خموشی سے نہانے والی فاطمہ کئی دن تک روزانہ چیخیں مار مار گورا ہونے کے اس عمل سے گزرتی رہی جب تک کہ ساتھ والے گھر سے ایک دن میری نند نے آ کر مداخلت کر کے اس کی جان اس گورے ہونے کے تکلیف دہ عمل سے نہ چھڑوائی۔

وہ دن اور آجکا دن۔ میری زندگی میں وہ دن کبھی نہ آیا جب فاطمہ رویے بغیر نہائی ہو۔ ٹب باتھ بھر کر، کھلونوں کا ڈھیر لگا کر، نرسری رائم گا کر، کہانیاں سنا کر کھیل کر سب کچھ کر کے دیکھ لیا مگر جہاں سر پر پانی پڑتا اور آنکھیں بند ہوتیں فاطمہ کا چلانا شروع ہو جاتا۔ بڑی مشکل سے چھ سات سال تک بلا ناغہ فاطمہ کے اس رونے کو برداشت کیا اور بالآخر سات سال کی ہوئی تو اسے اپنے ہاتھ سے نہلانے کی اجازت دے دی۔ اس کے باوجود وہ آج بھی بارہ سال بعد بھی نہانے سے بھاگتی ہے۔

مجھے علم ہے اسے نہانے سے نفرت ہے۔ کیوں؟ یہ شاید وہ نہیں جانتی مگر میں جانتی ہوں کیونکہ ممی نے یہ سب اپنی آنکھوں سے دیکھ رکھا ہے۔ چھوٹی چھوٹی باتیں بڑے بڑے بگاڑ پیدا کر دیتی ہیں ناں! ضرورت سے زیادہ تابعداری عقل مندی نہیں کمزوری ہے۔ اگر ممی میں غلط بات کو غلط کہنے کی جرات نہیں اور اپنے بچوں کی حفاظت کی طاقت نہیں تو اسے تابعداری کا نام دے کر ڈھانپا جاتا ہے۔ کیا بحثیت ممی میرا فرض نہ تھا کہ میں اس وقت اپنی سوا ماہ کی بیٹی کو ملنے والی اس تکلیف سے اسے بچاتی۔

اس کی بجائے میں نے ستی ساوتری بہو بننے کی کوشش کی اور اسے اس سارے عمل سے گزرنے دیا جس سے اس کو ہمیشہ کے لئے نہانے سے خوف پیدا ہوا۔ ایسا کرتے ہم یہ بھول جاتی ہیں کہ دادا دادی، نانا نانی، چچا خالہ جتنے بھی قریبی رشتے ہوں بچے پالنا اور ان کی حفاظت کرنا ماں باپ کی ذمہ داری ہے۔ ممی ڈیڈی کو اپنے بچوں کو اس طرح سے کسی کے بھی حوالے نہیں کر دینا چاہیے تھا۔ اور اگر کرنا ہو تو ہمیشہ کچھ حدود ذہنوں میں رکھنی چاہیں۔ پیار، محبت، فکر، توجہ کے نام پر آپ سب کو ہر طرح کے کام کی اجازت نہیں دے سکتے۔ جو ہم ممیاں اکثر دے دیتی ہیں اور پھر اکثر اوقات ان چھوٹی چھوٹی غلطیوں کی قیمت ادا کرتی ہیں۔

ہاں یہ بات تو میں بتانا بھول گئی کہ آمنہ جب شام کو لوٹی تو اسے نے سب سے پہلے مجھے زور سے hug ہگ کیا اور کہا:

”Mommy! sorry! “

شاید صبح وہ بھی بالکل ٹھیک نہیں تھی، شاید بالکل میں بھی درست نہ تھی۔ مگر اگر بچہ اپنی غلطی کو قبول کر لے تو یہ ممی کے لئے بہت بڑا ریلیف ہے اور مقام شکر بھی کہ ہر سزا اور روک ٹوک کے پیچھے اصل مقصد بچوں کو ان کی غلطی کا احساس دلانا ہی ہوتا ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).