آگ بھڑکنے سے پہلے پشتونوں کی آواز سن لیں!


افغانستان اور پاکستان دونوں پڑوسی ممالک ہیں اور دونوں کی امن و سلامتی ایک دوسرے سے منسلک۔ بد قسمتی سے دونوں ممالک پچھلی چار دہائیوں سے بدترین انارکی اور دہشتگردی کا شکار رہے۔ طرفہ تماشا ہے اس کا ذمہ دار بھی دونوں ایک دوسرے کو ہی قرار دیتے ہیں۔ ہمارا موقف شروع سے یہ ہے پشتونوں کی حمایت کے نام پر افغان حکومتیں یہاں شورش اور بدامنی کو فروغ دیتی ہیں۔ ان کا کہنا ہے کہ پاکستانی ادارے افغانستان کو خود مختار نہیں بلکہ باجگزار ریاست سمجھتے ہیں اور اسے اپنے مقاصد کے لیے پراکسی کے طور پر استعمال کرنا چاہتے ہیں۔

پچھلے کچھ ہفتوں میں بعض ایسے اقدامات ہوئے جس کی بنا پر امید پیدا ہوئی تھی کہ دونوں ممالک میں جاری شورش کے ساتھ بد اعتمادی کی دائمی خلیج بھی ختم ہو جائے۔ لیکن ماسکو میں امریکا کے ساتھ مذاکرات کرنے والے طالبان رہنماؤں کی افغان اپوزیشن قیادت سے ملاقات کے بعد افغان صدر اشرف غنی نے دانستہ دونوں ممالک کے درمیان کشیدگی کو فروغ دینے کے لیے خالصتا پاکستان کے داخلی معاملے پر ٹوئٹ کرتے ہوئے کہا کہ ہر حکومت کی ذمہ داری ہے وہ دہشت گردی اور انتہاپسندی کے خلاف مؤقف اختیار کرنے والے سول کارکنوں کی حمایت کرے۔

دوسری جانب پاکستانی وزیر خارجہ نے شر پسندانہ سوچ کے تحت کیے گئے ٹوئٹ پر سخت ردِعمل کا اظہار کیا اور کہا یہ حرکت غیر ذمہ دارانہ اور پاکستان کے معاملات میں ”سنگین مداخلت“ ہے۔ مزید برآں انہوں نے اشرف غنی کو اپنے کام سے کام رکھنے کا مشورہ دیتے ہوئے یہ بھی کہا افغان قیادت کو اپنے عوام کے دیرینہ اور سنگین حالات پر توجہ دینے کی ضرورت ہے۔ چند روز تک سب اچھا ہونے کی خبریں چلنے کے بعد ایک بار پھر اس طرح تند و تیز بیانات کی وجہ اس کے سوا کچھ نہیں کہ افغان حکومت اپنے مستقبل کے حوالے سے شکوک و شبہات کا شکار ہے۔

گو مگو اور ابہام کی کیفیت اس وقت تک ختم بھی نہیں ہو گی جب تک امریکا اور طالبان کے درمیان کسی اتفاق رائے کا باضابطہ اعلان نہیں ہو جاتا۔ پہلے بھی عرض کیا تھا کہ قطر میں ہوئی ملاقات کو تصفیے کا حل نہ سمجھا جائے مگر ایسا بھی نہیں کہ یہ ملاقات صرف نشستند، گفتند اور برخاستند تھی۔ دیکھنا یہ ہے مسئلہ کہاں پر اٹکا ہے، طالبان تو اپنے اولین موقف پر قائم ہیں کہ غیر ملکی افواج کے انخلا کی شرط پر کوئی سمجھوتا نہیں ہو سکتا۔ اس کے ساتھ موجودہ افغان حکومت اور آئین کو وہ تسلیم ہی نہیں کرتے لہذا اس پر بھی وہ اپنی سوچ پر قائم ہیں۔ مسئلہ امریکا کی طرف سے درپیش ہے جس کے واضح طور پر دو موقف نظر آ رہے ہیں۔

امریکی صدر ٹرمپ اسٹیٹ یونین سے خطاب میں کہتے ہیں، افغانستان سے نکلنے کا وقت آ گیا۔ فضول کی جنگوں سے معیشیت برباد ہوا کرتی ہم نے اپنی معیشیت کو بچانا ہے۔ عظیم قوتیں زیادہ طویل جنگیں نہیں لڑا کرتیں، دو دہائیوں کی لڑائی کے بعد اب ہمیں واپس فوج نکال لینی چاہیے۔ طالبان کے ساتھ فیصلہ کن بات چیت جاری ہے اور عنقریب دونوں فریقین کے لیے قابل قبول حل نکل آئے گا۔ دوسری طرف امریکی سینیٹ نے افغانستان سے فوجی انخلا کے منصوبے کو مسترد کرتے اس کے خلاف قرار داد بھی منظور کرلی۔

بیشتر سینیٹرز کا کہنا ہے کہ اچانک انخلا سے تمام قربانیاں ضائع چلی جائیں گی اور ایک بار پھر وہ تمام دہشت گرد گروپ منظم ہو سکتے ہیں جن کا سر بڑی مشکل سے کچلنے میں کامیابی ملی۔ تاہم ٹرمپ اپنی بات پر اڑے بیٹھے ہیں، ان کا کہنا ہے اس طرح کا اختلاف ان کے موقف میں تبدیلی نہیں لا سکتا، درآں حالیکہ خود ان کی جماعت کے ارکان بھی ان سے اختلاف کر رہے ہیں۔ لیکن جس طرح وہ اتاؤلے ہوئے بیٹھے ہیں، اور میکسیکو کی سرحد پر دیوار کی تعمیر کی خاطر طویل شٹ ڈاؤن برداشت کرنے، ایرانی ایٹمی معاہدے سے منحرف ہونے، بیک وقت چین اور یورپ سے معاشی جنگ چھیڑنے کے بعد ان سے کچھ بعید نہیں۔

امریکا، طالبان، افغان حکومت آپسی معاملات خود جانیں، سر دست ہمیں پرائے اندھیروں کی فکر چھوڑ کر اپنی روشنیاں بحال کرنے کا سوچنا چاہیے۔ امریکا کا مستقل رہنا تو بہت مشکل ہے لیکن جان لیں کہ اس کے چلے جانے کے بعد بھی ہمارے لیے چین و راحت کی کوئی ضمانت نہیں، ہمیں اپنے مصائب کا درماں خود کرنا ہوگا۔ طالبان کی سوچ میں پختگی بھی آ چکی اور تبدیلی بھی۔ ان کو سمجھ آ گئی ہے، بیرونی دنیا میں مداخلت دانشمندی کا تقاضہ نہیں اور تنہا وہ افغانستان کے مالک بھی نہیں۔

جس کا ثبوت روس میں اپوزیشن جماعتوں سے ہونے والی ملاقات ہے۔ طالبان سے نہایت قریبی روابط رکھنے والی ایک شخصیت سے میں نے پوچھا امریکی انخلا کے بعد پاکستان نے دست محبت دراز کیا تو طالبان کا جواب کیا ہو گا۔ انہوں نے ترنت کہا ”مجھ سے پہلی سی محبت میرے محبوب نہ مانگ“۔ وجہ پوچھی تو جواب ملا، نائن الیون سے پہلے والے طالبان پھر بھی ہماری مجبوری سمجھتے ہیں۔ اس کے بعد جو نسل جوان ہوئی ان کے لیے ہم انڈیا سے بھی زیادہ اجنبی ہیں۔ وہ دیکھتے ہیں انڈیا ان کے ملک میں ہسپتال، اسکول اور سڑکیں تعمیر کرتا ہے جبکہ برادر اسلامی ملک کا کردار بھی ان کے سامنے ہے۔

لہذا اس امید پر کبوتر کی طرح آنکھیں بند کرنے سے کہ طالبان حکومت آنے سے پشتون تحفظ موومنٹ کا غبارہ پھٹ جائے گا بیوقوفی ہے۔ ان کے چند مطالبات درست ہیں جن پر دل خون کے آنسو روتا ہے باقی مبالغہ اور بڑھاوا بھی ہے زیب داستاں کی خاطر۔ مثلا نقیب اللہ کے قاتلوں کو سزا، آپریشن میں جو بے گناہ ہلاک ہوئے ان کی آل اولاد کی کفالت، مالی نقصانات کا ازالہ اور روزگار کی فراہمی کوئی غلط مطالبات نہیں۔ ثابت ہو چکا آج کے دور میں میڈیا کنٹرول کر کے احتجاج دبانا ممکن نہیں۔

کیونکہ متبادل سوشل میڈیا عوام کے ہاتھ میں ہے۔ عرب حکومتوں کا دھڑن تختہ کرنے والی عرب بہار تحریک میں سوشل میڈیا کا کردار سامنے ہے۔ لہذا پر امن احتجاج کی آزادی پریشر کوکر کے سیفٹی والو کی طرح لازم ہے اور میڈیا پر پشتون تحفظ موومنٹ کی غرض و غایت بارے کوریج کی آزادی خود ریاستی مفاد میں ہے۔ عوام کو اگر اس کے مقاصد کے بارے درست آگاہی نہ ہوگی وہ اس کی آڑ میں چھپے مقصد کو سمجھنے سے قاصر رہیں گے۔

ان مطالبات پر واقعتا بڑی احتجاجی تحریک شروع کی جا سکتی ہے۔ ریاستی شہ دماغ اگر حقیقت پسندی سے ان سوالات کا سامنا کریں تو اس تحریک کو غیر موثر کرنا مشکل نہیں، اکثر الزامات بے بنیاد ہیں، کسی بھی فورم پر مناظرہ کر کے ان کا جواب کماحقہ دیا جا سکتا ہے۔ دنیا کے علم میں ہے کالعدم ٹی ٹی پی کو افرادی قوت کہاں سے ملتی تھی۔ ممکن ہے ان میں سے بیشتر مارے جا چکے ہوں یا فرار ہو کر سرحد پار موجود ہوں۔ جو افراد واقعی ریاستی اداروں کی تحویل میں ہیں یہ انسانی حقوق اور آئین پاکستان کی سنگین خلاف ورزی ہے انہیں عدالتوں میں پیش کرنا چاہیے۔

آپریشن میں ہونے والے مالی نقصانات کا ازالہ بات چیت سے ممکن ہے اور خوش آئند ہے اب اس کے ازالے کے لئے پاک فوج نے کمیٹی بنا دی ہے۔ ایک ضمنی بات یہ کہ فوج کسی جگہ شورش کچل ضرور سکتی ہے لیکن مستقل کنٹرول سنبھالنا اس کے مزاج کے مطابق نہیں۔ فوج کو مستقل انتظامی معاملات میں مصروف رکھیں گے تو بد گمانیاں پیدا ہوتی رہیں گی۔ اس بارے میں فوج پر الزام نہیں بنتا اور نہ انہیں دی جانے والی گالیاں جائز ہیں۔ فاٹا کو سر زمین بے آئین و قانون رکھنے میں پہلے ن لیگ نے لیت و لعل سے کام لیا اب موجودہ حکومت کی ترجیحات میں بھی تعمیر نو کا کام دور تک نظر نہیں آتا یہ تک خبر نہیں کہ فاٹا کہ انضمام کے بعد اس کا اختیار گورنر کی ذمہ داری ہے یا وزیراعلی کی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).