میرے وطن کے رنگ


زندگی مہنگی ہو گئی ہے یا میرے وطن کے لوگ جینا نہیں چاہتے۔ اللہ تعالٰی کی تخلیق کردہ مخلوق میں سے انسان واحد مخلوق ہے جو مکمل شعور رکھتی ہے۔

مگر کیا انسان واقعی شعور رکھتا ہے؟

ہاں رکھتا ہے کیوں نہیں رکھتا کیا روز کے قتل و غارت کے واقعات ہمیں نہیں بتاتے وہ باشعور ہے۔ بچوں کے سامنے ماں باپ کا قتل، یہ لوگوں کی حق تلفی، سیاسی گرم میدان اور یہ خون کی پیاس کون چلا رہا یے یہ نظام۔

ایسا سوال جب ہجوم میں سے اٹھتا ہے تو ایسا لگتا ہے جیسے چرند پرند، جانور، کیڑے مکوڑے، عمارتیں، سڑکیں، گاڑیاں الغرض تمام جان و بے جان اشیاء باشعور انسانوں کی طرف دیکھ رہے ہیں خیر اب بڑھتے ہیں ان باتوں کی طرف جس کے لئے میں نے اپنا قلم اٹھایا۔

میرے ایک دوست نے مزاح سے بھرپور کیا خوب بات کہی جس میں ایک مراثی کا بیٹا اپنے باپ سے پوچھتا ہے جب بادشاہ مرجائے گا تو تخت کا مالک کون بنے گا باپ نے جواب دیا اس کا بیٹا بنے گا مراثی کے بیٹے نے پھر سوال کیا جب اس کا بیٹا مر جائے گا تو تب بادشاہ کون ہوگا اس کے باپ نے دوبارہ جواب دیا تو پھر اس کا بیٹا ہو گا اگر وہ بھی مر گیا تو پھر اس کا بیٹا ہوگا لیکن ہماری باری کبھی نہیں آئے گی۔

میں بہت ہنسا لیکن یک دم میرا دیہان ذوالفقار علی بھٹو سے بینظر اور بلاول کی طرف، نواز شریف سے مریم نواز، شاہ محمود قریشی سے زین محمود قریشی اورجہانگیر ترین سے علی ترین کی طرف چلا گیا۔

آپ بھی ہنس دیں کیونکہ یہ بھی ایک لطیفہ تھا۔

معاشرتی عمل معاشرتی زندگی کی روح کا درجہ رکھتا ہے مگر میرے دیس کا ہر شخص معاشرتی روح سے خالی ہے۔ اگرچہ وہ سیاستدان ہے یا پھر عام شہری۔ کیونکہ ہمارا معاشرتی لین دین انہیں دو کرداروں کے ارد گرد گھوم رہا ہے۔

سیاستدان چاہے وہ پارٹی کا لیڈر ہو یا حلقے کا اسے عوام سے جیت چاہیے۔ اور ہر غریب اس کے لیے سر توڑ کوشش کرتا ہے کیونکہ یہ اس کا فرض ہے۔ پھر پانچ سال کے لئے روزمرہ کی طرح وہ صبح اٹھتا ناشتہ کرتا اور اپنی ریڑھی یا دکان کھول لیتا سارے دن کے کام کے بعد شام کو گھر آتا کھانا کھاتا اورسو جاتا جب رات کو گہری نیند کے مزے لے رہا ہوتا تو خواب میں یہی دیکھتا ایک مچھر سالا پورے شہر کو ہجڑا بنا دیتا ہے

سیاست میں نہ کوئی کسی کا ہمیشہ کے لئے باپ ہے اور نہ ہی بیٹا بلکہ یہ متغیر حثیت رکھتی ہے سیاسی چالیں چلنے کے لئے عوام کو نشانہ بنایا جاتا عوام کے کندھوں پر بندوق رکھی جاتی ہے سیاسی مفاد کے لئے سیاست میں لیاقت علی خان (کمپنی باغ) کو شہید کرنا بے نظیر بھٹو (پرائم منسٹر ) کا قتل شہباز بھٹی (اقلیتی وزیر ) کو مار دینا اور ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی یہ سب جائز ہوتا ہے۔

1970 سے 2000 تک دہشت گردی کے تقریبا 1740 واقعات میں 3421 افراد کا مر جانا اتنی بڑی تعداد تو نہیں مگر جس کنبے کا ایک فرد بھی شہید ہوا ہے ان سے ذرا پوچھئے کیا بیت رہی ہے کیا یہ ساری تفصیل انسانوں کے عقلمند ہونے کے لیے کافی نہیں صرف یہی نہیں بلکہ 2001 سے 2018 تک تقریب 50 ہزار لوگ شہید ہوئے جن میں بہت سے اس ملک کا سرمایہ تھے

ایک انسان دوسرے انسان کا اتنا دشمن کیوں ہے۔ مفاد پرستی میں اتنا لالچ ہوتا ہے کہ بھائی بھائی کا دشمن بن جاتا ہے بیٹا باپ کا قاتل نکلتا ہے سیاست میں باپ کو گیارہ سال جیل میں رکھا جاتا ہے اگر ان باتوں کے پیچھے انسان نہ ہوتے تو الگ بات تھی مگر انسان کو سمجھائے کون دوسری طرف بھی اس جیسے ہی باشعور انسان ہیں سیاسی پارٹیوں کی بات کی جائے جنہوں نے پاکستان کو روشن کرنے کا ذمہ اٹھایا ہوا ہے مگر وہ ان جرابوں کی طرح ہی ہے جو ایک پاؤں سے دوسرے اور تیسرے میں تبدیل ہوتی رہتی ہیں عوام سمجھتے ہیں کہ نئی حکومت آئی ہے اب ہمارا دیس دن دوگنی رات چگنی ترقی کرے گا مگر ان کو کیا خبر یہ وہی جرابیں ہیں جو پہلے پاؤں میں ہی تھی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).