سب جل جائے گا۔ غیر سینسر شدہ مکمل کالم


جرمنی کی تاریخ میں 27 فروری 1933 کا دن ایک قومی المیے اور اس سے جڑے مزید المیوں کی ابتداء کے طور پر ایک غیر معمولی دن کے طور پر تاریخ میں نقش ہے۔ اس دن جرمن پارلیمنٹ کی عمارت میں سے دھواں اٹھتا دکھائی دیا۔ پارلیمنٹ جس کے اختیارات پہلے ہی محدود کیے جا چکے تھے۔ آگ کا انگارہ دکھائی دے رہی تھی۔

اس واقعے سے قبل 30 جنوری 1933 کو ہٹلر ایک غیر آئینی طریقہ کار سے کہ جس کے متعلق دعویٰ یہ کیا جا رہا تھا کہ یہ عین آئینی طریقہ کار ہے، برسر اقتدار آ چکا تھا۔ ہٹلر بذات خود پارلیمنٹ پہنچا اور اخبار نویسوں سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”یہ ایک قسم کا خدائی اشارہ ہے اور اب ہم کمیونسٹوں پر کاری ضرب لگا سکیں گے“۔

اس شام سرکاری طور پر اعلان کر دیا گیا کہ کمیونسٹوں نے پارلیمنٹ کو آگ لگا دی ہے۔ ہٹلری میڈیا اس سرکاری بیان کو ثابت کرنے میں جت گیا اور نتیجتاً ہزاروں مزدور رہنماء اور مزدور حقوق کی تحریک سے وابستہ افراد نازیوں کے ہاتھوں قتل کر دیے گئے۔

ایک فرد کو پہلے گرفتار کیا گیا اور اس کمیونسٹ ثابت کر دیا گیا۔ جبکہ اس کے بعد یورپ کے کمیونسٹ بیورو کے سربراہ ڈیمت روف کو بھی گرفتار کر لیا گیا۔ اور اس کا مقدمہ شہرہ آفاق ہو گیا۔ ڈیمت روف کے خلاف جو گواہ پیش کیے گئے اس میں نازی پارٹی کا اہم رکن گوئبلز بھی شامل تھا جو نازیوں کا وزیر نشرو اشاعت بھی رہا۔ جھوٹوں کا آئی جی۔ ڈیمت روف نے تحریر کیا کہ ”حکومت نے ایک جھوٹ کو ثابت کرنے کے لئے ایک اور جھوٹ تراشا ہے اور پھر اسے ثابت کرنے کے لئے ایک اور۔ پولیس کے افسروں کو عدالت میں گواہوں کے طور پر پیش ہونا پڑا۔ حکومت نے عدالتی کارروائی میں مداخلت کا جرم کیا اور عوامی عدالت میں حکومت اور پولیس کو مجرم ثابت کر دیا۔ جس سے دونوں کی رسوائی ہوئی“۔

ڈیمت روف تو وقت کے ساتھ رہا ہو گیا مگر وہ آگ جو جرمن پارلیمنٹ کو از خود حکومت نے لگائی تھی جرمنی وہ عشروں تک کھاتی رہی۔ پارلیمنٹ کو آگ لگانے کا ایک طریقہ کار یہ بھی ہے کہ پارلیمنٹ کو عوام کی نظروں میں غیر متعلق کر دیا جائے۔

عمارت جل کر تو دوبارہ تعمیر کی جا سکتی ہے مگر ٹوٹا اعتماد دوبارہ قائم کرنے میں عشرے بیت جاتے ہیں۔ اور پھر بھی یقینی معاملہ نہیں ہوتا کہ اعتماد قائم ہوگا۔ وطن عزیز بھی اسی وقت اسی نوعیت کی صورتحال سے گزر رہا ہے۔ گذشتہ کم و بیش دو برسوں میں جو کچھ پاکستانی پارلیمنٹ اور اس کے نمائندوں پر گزرا اس نے اس تصور کو بہت تقویت پہنچا دی کہ پارلیمنٹ غیر اہم ہے اور اپنی مرضی سے جس کو چاہوں پارلیمنٹ کا نام دیا جا سکتا ہے۔

یہ بیل بالکل ہی منڈھے چڑھ جاتی اگر اس کے راستے میں نواز شریف نہ آ جاتا۔ خیال یہ تھا کہ بدترین پروپیگنڈہ مہم، اخلاقیات سے عاری مخالفانہ طرز عمل سے نواز شریف کو راستے سے ہٹایا جا سکتا ہے مگر اس سب سے سوائے اس کے کہ پارلیمنٹ کے بعد دوسرے اداروں سے بھی عوام کا اعتماد اٹھتا چلا گیا اور کچھ حاصل نہیں ہوا۔ تازہ ترین یہ کہ ڈیل ڈیل کا شور مچا کہ نواز شریف کی بیماری سے اب کھلواڑ کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے۔ لیکن یہ کھلواڑ نواز شریف کی ذات سے نہیں بلکہ وطن عزیز سے ہو رہا ہے۔

اور اس کھلواڑ پر پردہ ڈال دینے کے لئے سفارتی دنیا میں کامیابیوں کا راگ الاپنا شروع ہو چکا ہے۔ کیونکہ سیاسی اور معاشی محاذ پر کوئی کارکردگی نہ دکھانے کے بعد حکومت کے پاس اب لالی پاپ دینے کے لئے یہی ایک حربہ بچا ہے۔

سفارتی محاذ پر کامیابیوں کو جانچنے کے لئے یہ بہت آسان نسخہ ہے کہ ہم ان ممالک کے وطن عزیز سے ماضی کے تعلقات کو سامنے رکھیں اور دیکھیں کہ معاملات بہتر ہوئے یا بدترین کی جانب گامزن ہے۔ ماضی قریب میں سی پی کے آغاز نے پاکستان اور چین کے تعلقات کو ایک نئی جہت دے ڈالی اور گمان یہ کیا جا رہا تھا کہ اس کلیدی نوعیت کے منصوبے کی بدولت پاکستان غیر معمولی معاشی استحکام کو حاصل کرنے میں کامیاب ہو جائے گا۔

مگر اس کے بعد جو سیاسی محاذ پر ہوا وہ ایک درد ناک حقیقت ہے اور اس درد ناک حقیقت کا اظہار اب چینی سفارتکار ملاقاتوں میں برملا کر رہے ہیں کہ عمران خان نے سی پیک کی طرف سے نظریں بالکل ہٹا لی ہیں اور گزشتہ چھ ماہ سے انہوں نے سی پیک کے کسی منصوبے کا دورہ تک نہیں کیا۔ اور ان کی پیروی میں افسر شاہی نے بھی گھاس ڈالنا چھوڑ دیا۔

چینیوں کا ایک مسئلہ یہ ہے کہ وہ اپنے مقامی سیاسی طریقہ کار میں ایسے رچے بسے ہوئے ہیں کہ وہ دیگر ممالک میں بھی اس کا سا ہی انداز اپنا لیتے ہیں۔ چنانچہ حکومت کو خوش کرنے کی غرض سے انہوں نے اپنے دیگر جماعتوں سے روابط کو محدود کر دیا ہے کہ شاید اس طرح وہ اپنے معاملات کو سیدھا کرنے میں کامیاب ہو جائیں مگر پاکستان کی اپنی سیاسی جہتیں ہیں۔ جو لوگ آئے ہیں اس منصوبے کو سبو تاژ کرنے ہی آئے ہیں۔ بھلا ان کو اس سے کیا غرض کہ کون کس سے اپنے دکھڑے رو رہا ہے یا نہیں۔

اس کیفیت سے امریکیوں کو سب سے زیادہ چس آ رہا ہے کیونکہ وہ پاکستان کے ذریعے چین کے بڑھتے قدم دیکھ رہے تھے اور موجودہ صورتحال ان کی خواہشات کے عین مطابق ہے۔ اس لئے جب امریکی سفارتکار ملتے ہیں تو وہ برملا اظہار کرتے ہیں کہ سی پیک سے جو چین اور پاکستان کی سابقہ حکومت حاصل کرنا چاہتی تھی اور نواز شریف، شہباز شریف جو ویژن لے کر چل رہے تھے وہ چکنا چور ہو چکا ہے۔ بلکہ اب تو وہ یہ گفتگو کرتے ہیں کہ آپ کشمیر کا بہت ذکر کرتے ہیں مگر چین میں سنکیانگ کے مسلمانوں پر چپ سادھے بیٹھے ہیں۔ حالانکہ دونوں معاملات مختلف ہیں اور پاکستان کا دونوں پر ہمیشہ اصولی مؤقف رہا ہے۔

اس کی علاوہ وہ افغان طالبان سے قطر مذاکرات کو ایک بہت محدود معاملہ قرار دیتے ہوئے اس کا کریڈٹ وطن عزیز میں کسی کو دینے کے لئے تیار نہیں ہیں۔ مگر ہم ہے کہ اپنے ملک میں ثابت کرنے میں لگے ہوئے ہیں کہ سب ہم نے کروایا ہے۔ حالانکہ نہ امریکہ اور نہ افغان طالبان نے اس کا احساس کروایا ہے۔ سفارتی کامیابیوں میں سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات سے تعلقات کا تذکرہ شد و مد سے کیا جا رہا ہے بات سمجھنے کے لئے آسان ہے یہ جان لینا کہ ایک وقت تھا کہ سعودی عرب پاکستان کو رقم تحفظ میں دے رہا تھا حالانکہ شام سے لے کر یمن تک ہم نے اپنی غیر جانبداری بھی قائم کر رکھی تھی۔ مگر اب یہ حالت ہے کہ قرضہ دیا گیا ہے جس پر سود ہو گا مگر رقم ہم استعمال نہیں کر سکتے۔

متحدہ عرب امارات، گوادر پر گوسلو پالیسی تک لے آیا ہے با الفاظ دیگر جب تک امارات اجازت نہ دے اس کی ترقی کی رفتار سست رکھی جائے گی۔ کیا ماضی قریب کی حکومت کے دور میں ایسا کچھ ممکن تھا؟ لیکن ایسا سب کچھ اس لئے ممکن ہو گیا کہ ”سب سے زیادہ محب وطنوں نے“ پارلیمنٹ کو غیر متعلق کر ڈالا ہے۔ حالانکہ یہ جانتے ہیں کہ جرمنی جل گیا اور مشرقی پاکستان تو ہمارا اپنا سانحہ ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).