ارشاد رانجھانی کے قتل پر سندھ میں غم و غصہ کی شدید لہر آئی ہوئی ہے


۔ 6 فروری 2019 کو کراچی کے علاقے ملیر میں شاہ لطیف پولیس اسٹیشن کی حد میں روڈ پر ہی ایک عدالت لگی۔ مگر یہ عدالت بڑی نرالی تھی اس عدالت کے جج یونین کاؤنسل کے چیئرمین رحیم شاہ بن بیٹھے، خود ہی وکیل، خود ہی پولیس، خود ہی قانون، خود ہی جلاد، روڈ پر ہی مقدمہ سنا نہ سنا ایک نوجوان ارشاد رانجھانی کو کرمنل قراردیکر گولیاں ماریں اور کسی کو اس زخمی کے پاس جانے سے، اس کی مدد کرنے سے، اس کو اسپتال پہنچانے سے، اس سے کچھ پوچھنے سے گن پوائنٹ پرروکا۔

یہ سب منظر وڈیو میں فلمبند ہیں اور سوشل میڈیا پر وائرل ہیں۔ اس وڈیو میں پولیس کے ڈی ایس پی شوکت شاہانی کو بھی صاف دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ بھی زخمی کو طبی امداد فراہم کرنے کی کارروائی کرنے کے بجائے اس کو تڑپتا دیکھ رہا ہے اور رحیم شاہ کو پیٹھ پر تھپکی مارکر شاباش دے رہا ہے۔ حیرت اس بات پر بھی ہے کی مرنے والا ارشاد رانجھانی موٹرسائیکل پرتھا اورمارنے والا رحیم شاہ ویگو پر تھا اور اس کے پیچھے کھلی گاڑی میں گارڈ بھی تھے، بات سمجھ سے بالاتر ہے کہ کوئی موٹر سائیکل والا، ایک ایسے ویگو والے سے کیا لُوٹے گا جس کی گاڑی پے پیچھے اس کئی مسلح گارڈ بیٹھے ہوں؟

سوال یہ ہے کہ کیا ملک میں قانون ختم ہو گیا ہے؟ کسی بھی شخص کو کرمنل قرار دے کر کوئی بھی طاقتور روڈ پر سر عام گولی مار سکتا ہے؟ اور اگر ماری ہے اور وہ زخمی ہے تو اس کی مدد کو اگر کوئی جاتا ہے تو اس کو روک سکتا ہے؟ پھر یہ عدالتیں، یہ تھانے، یہ جج، یہ پولیس، یہ قانون، یہ آئیں کس لئے ہیں؟ کیا ملک میں واقعی لاقانونیت اورانارکی ہے؟ کیا ہر کسی کو روڈ پر فیصلہ کر کے کسی کو قتل کرنے تک کا اختیار دیا جا سکتا ہے؟

ابھی خیرپورکے علاقے کنب کی 13 سالہ رمشا وسان کے قتل کے ماتم سے سندھ فارغ ہی ہوئی تھی کہ کراچی سے ایک نوجوان ارشاد رانجھانی کے سرعام، دن دھاڑے روڈ پر قتل ہونے کی دردناک وڈیو نے پورے سندھ کو ہلا ڈالا ہے، میں صرف سندھ کو ہلاکر رکھ دینے کی بات اس لئے کر رہا ہوں کہ حسب معمول اردو میڈیا اس معاملے میں اتنا لاتعلق رہا کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہیں۔ ان کی خبروں میں ارشاد رانجھانی کا خون تب آیا جب یہ معاملہ سندھ میں عوامی سطح پر ہائی پروفائل کیس بن رہا ہے حالانکہ یہ قتل کراچی کے علاقے ملیر میں ہوا ہے۔

اردو میڈیا اور سندھی میڈیا اس قتل پر صاف بٹا ہوا ہے، اردو میڈیا ارشاد رانجھانی کو کرمنل کہہ کر پیش کر رہا ہے اور کسی عدالتی تحقیقات کے بغیر ہی اس کو مجرم قرار دے رہا ہے اور سندھی میڈیا کی رپورٹ یہ ہے کہ ایک نوجوان کو دن دہاڑے گولیاں ماری جا رہی ہیں اور پھر کسی کو اس کی مدد کرنے سے بھی روکا جا رہا ہے۔ یاد رہے کہ نقیب اللہ قتل کیس میں بھی پہلے نقیب اللہ کو دہشت گرد قرار دیا گیا تھا۔

اس قتل نے ایک مرتبہ پھر ہمارے نظام کے بارے میں سوالیہ نشان لگا دیا ہے۔ قتل کی وڈیو دیکھ کر دل دہل جاتا ہے۔ ارشاد کو بھرے مجمع میں گولیاں ماری جا رہی ہیں، لوگوں کو اس کی مدد کرنے سے روکا، جا رہا ہے۔ عینی شاہدوں کا کہنا ہے کہ جب ارشاد زخمی تھا، خون میں لت پت تھا، اٹھ، بیٹھ رہا تھا، تڑپ رہا تھا بھیڑ میں کھڑے ان طاقور لوگوں نے کسی کو اس کی مدد صرف اس لئے نہیں کرنے دی کہ اس کا خون بہہ جائے اور وہ مر جائے، شاید وہ زندہ ہوتا تو قتل کی اصل حقیقت بتا دیتا اور قاتل رحیم شاہ اس طرح ابھی تک آزاد نہ ہوتا۔ بالکل اسی طرح جس طرح کسی جانور کو ذبح کر کے چھوڑ دیا جاتا ہے کہ اس کا خون بہہ جائے اور وہ مر جائے۔

اس کیس پر سندھ بھر میں احتجاجی مظاہرے ہو رہے ہیں احتجاج بڑھتا جا رہا ہے اسی دباؤ کے پیش نظر وزیراعلیٰ سندھ مراد علی شاہ نے کراچی میں ارشاد رانجھانی کے سرعام قتل کا نوٹس لیتے ہوئے کیس کی جوڈیشل انکوائری کروانے کا فیصلہ کیا ہے اور چیف سیکریٹری سندھ کو ہدایت کی ہے کہ سندھ ہائی کورٹ کے رجسٹرار کو درخواست دی جائے۔ مراد علی شاہ نے آئی جی سے واقعہ کی مکمل رپورٹ طلب کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ قانون کی بے خوفی کا نتیجہ نظرآرہا ہے، اس کی کیا وجہ ہے؟

ایف آئی آر کس کی مدعیت میں درج کی گئی اور کیا دفعات لگائی گئیں، واقعے کے بعد اب تک کتنے مجرم گرفتار ہوئے، پولیس کتنی دیر سے جائے وقوع پر پہنچی اور کیا زخمی ارشاد کو اسپتال لے گئی؟ ، یہ سوالات تو وزیراعلیٰ نے کیے ہیں مگر ان سب سوالوں کا صرف ایک ہی جواب ہے۔ ملک میں قانون کی نہیں، جس کے پاس طاقت ہے اس کی حکمرانی ہے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).