راجہ گدھ کے مطابق قوم کی دیوانگی کا سبب


انسان اپنی زندگی کو سب سے زیادہ اہمیت دیتا ہے۔ انسان ہر ممکنہ طور پر اس کوشش میں لگا ہوا ہے کہ اس کی زندگی لمبی ہو، لیکن پھر آج کل کے دور میں انسان خودکشی کیوں کررہا، انسان جس کو اپنی زندگی بہت پیاری تھی، وہ خودکشی پر مجبور کیوں ہے۔ ان سوالات کے جواب بانو کے ناول راجہ گدھ سے ملے۔

بانو قدسیہ اپنے ناول (راجہ گدھ) میں کہتی ہیں کہ انسان کی خودکشی ”دیوانے پن“ کی وجہ ہے، اب سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ ”دیوانے پن یا پاگل پن“ کس وجہ سے پیدا ہوتا ہے، بانو قدسیہ اس سوال کے جواب میں وہ ایک تھیوری پیش کرتیں ہیں کہ ”مغرب کے پاس حلال حرام کا تصور نہیں ہے، اس لیے میری تھیوری ہے کہ جس وقت حرام رزق جسم میں داخل ہوتا ہے تو وہ انسانی جینز کو متاثر کرتا ہے، رزق حرام سے ایک خاص قسم کی چیز ہوتی ہے جو خطرناک ادویات، شراب اور ریڈی ایشن سے بھی زیادہ مہلک ہے، رزق حرام سے جو جینز تغیر پذیر ہوتے ہیں، وہ لولے لنگڑے اور اندھے ہی نہیں نا امید بھی ہوتے ہیں نسل انسانی سے۔ یہ جب نسل در نسل ہم میں سفر کرتے ہیں تو ان جینز کے اندر ایسی گندگی پیدا ہوتی ہے، جس کو ہم پاگل پن کہتے ہیں۔ رزق حرام سے ہی ہماری آنے والی نسلوں کو پاگل پن وراثت میں ملتا ہے۔ اور جن قوموں میں من حیث القوم رزق حرام کھانے کا لپکا پڑ جاتا ہے، وہ من حیث القوم دیوانی ہونے لگتی ہیں۔ “

پھر بانو قدسیہ اپنی اس تھیوری کی دلیل دیتی ہے کہ حرام کیا ہے؟ وہ جس سے منع کیا گیا ہو، اچھے برے کی بات نہیں بس وہ چیز جس سے اللہ نے منع کیا ہے وہ حرام ہے۔ اس کی ابتداء جنت سے ہوتی ہے جب حضرت آدم علیہ السلام نے گندم کا دانہ کھایا جس سے منع کیا گیا تھا، اس گندم کے دانے کا رزق حرام جب ان کے جسم میں داخل ہوا تو ان کے جینز میں ایک خطرناک تغیر ایا جو لولے، لنگڑے، اندھے، انا امید اور انے والی نسلوں میں منتقل ہو گئے۔ اس لئے دیوانگی کے پہلے آثار ہابیل اور قابیل کیے جھگڑے میں واضح ہوے اور پہلا قتل ہوا۔ یہ جھگڑا ہابیل اور قابیل میں نہیں ہوا یہ اس شجر ممنوع کا نتیجہ ہے جو حضرت آدم علیہ السلام نے جنت میں کھایا تھا۔

یہ بات سمجھنے والی ہے، کہ بکرے کو حلال کر کے کھانے کا حکم ہے اگر وہ مر جائے تو وہ حرام کہلاتا ہے کیوں؟ گوشت تو وہی ہوتا ہے جو حلال کرنے کے بعد ہوتا ہے، کوئی وجہ تو ہے۔

سور حرام ہے اپ سو دفعہ بھی تکبیر پڑ لیں وہ حلال نہیں ہو گا، جو کھائے گا وہ اپنی جینز میوٹیشن کا ذمہ دار خود ہو گا۔ تو اس کی وجہ یہ ہے کہ حرام جسم میں منفی اور حلال مثبت اثرات مرتب کرتا ہے۔

زنا سے منع کیوں کیا گیا ہے؟ نکاح کر کے اور نکاح نہ کرنے سے جسمانی تعلق بدل تو نہیں جاتا۔ رزق حرام سے بچنا چاہیے اور خاص طور پر عورت کے معاملے میں بہت احتیاط برتنی چاہیے، کیونکہ اس کے پاس تو ایک مشین موجود ہے، ایسا بچہ جن دیتی ہے فٹافٹ زنا کے بعد اور آنے والی نسلوں میں چھوڑ دیتی ہے، اس سے دیوانگی اگلی نسلوں میں موروثی طور پر منتقل ہوتی ہے جس سے قومیں تباہ ہو جاتی ہیں۔

اپ سوچ رہے ہوں گے کہ رزق حرام کی بات ہو رہی تھی یہ عورت بیچ میں کہاں سے آ گئی، عورت روحانی رزق ہوتا ہے، روحانی رزق بھی رزق کی ہی قسم ہے۔

ایک آٹے کی بوری حرام اور ایک حلال کے پیسوں سے آتی ہے، آٹا تو ایک جیسا ہی ہوتا ہے کیونکہ وہ ایک مادی چیز ہے لیکن اس کی تاثیر بدل جاتی ہے، ٹھیک اسی طرح جس طرح سادے پانی اور دم کیے گئے پانی میں تاثیر کا فرق ہوتا ہے۔

یہاں حلال اور حرام کے علاوہ ایک اور رزق کی قسم، وہ یہ کہ ایک بار اللہ تعالی نے اپنی پسندیدہ قوم بنی اسرائیل کو وہ رزق بھی دیا جو نہ حلال تھا اور نہ حرام، آج یہودی ریاست دنیا کے نقشے پر نظر بھی نہیں آتی لیکن دنیا کی معیشت ان کے بس سے چلتی ہے، جن کے سو فیصد لوگ پڑے لکھے ہیں، یہ سب اس رزق ”من و سلٰوی“ کا اثر ہے، جو نسل در نسل منتقل ہوا۔

تحریر ختم کرنے سے پہلے عنوان ”راجہ گدھ“ کے بارے میں بتاتا چلو، گدھ مردار گوشت کھاتا ہے، آلسی اور ہمیشہ کھاتا ہی رہتا ہے اور انتہائی خودغرض ہے، یہاں گدھ معاشرے کے اس طبقے کی طرف اشارہ ہے جو انتہائی خودغرض اور حرام مال پر پلتا ہے، اور حرام نسل در نسل منتقل ہو کر ایک دن سب کچھ تباہ کر دیتا ہے۔

میں اس تحریر کو بانو قدسیہ جیسی عظیم رائٹر کے نام کرتا ہوں، یہ تحریر ان کے مشورہ زمانہ ناول راجہ گدھ سے منسوب ہے، یہ ایک چھوٹی سی کوشش ہے بانو قدسیہ کی بات اگے پہنچانے کے لیے۔ میری اتنی حیثیت نہیں کہ ان کے ناول پر تبصرہ کرتا اس لئے ان کے ناول کی باتیں ہی اپنے الفاظ میں لکھی ہیں، اگر کوئی غلطی ہو گئی ہو تو میں معافی چاہتا ہوں۔ (باقی ماندہ انشاءاللہ ’پاکستان کے راجہ گدھ‘ بہت جلد)


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).