ڈکٹیٹر معاشرہ اور سوال


ہمیں بچپن میں یہ سبق رٹایا جاتا ہے کہ بڑوں کی بات کو غور سے سنو، سوال مت کرو۔ سوال کرنے والا فرد بدتمیز تصور کیا جاتا ہے۔ اگر کوئی فرد سوال کرنے کی عادت ختم نہ کرے تو اسے ایک بے ہودہ فرد کے طور پہ معاشرہ میں پہچانا جاتا ہے۔ سکول کی کلاس میں سوال کرنے والے کو استاد بھی طنزیہ مسکراہٹ سے دیکھتا ہے، کلاس فیلوز سوال کرنے والے کو کوئی بونگا تصور کرکے لگاتار اس کی عزت نفس مجروح کرتے ہیں۔ دوسرے لفظوں میں سوال کرنے والا دماغ ہمارے معاشرے میں ابنارمل سمجھا جاتا ہے۔ ایسے شخص پہ بعض اوقات کچھ فہم رکھنے والے لوگ ترس کھا کے، اسے ماہر نفسیات کو چیک کروانے کا مشورہ دیتے ہیں۔ اس طرح ایک ذہین قوم کا معمار ذہنی مریض بن کے روبوٹس کے ساتھ مس فٹ زندگی گزارتا ہے۔

سوال کرنے والا شخص ظلم کے خلاف بھی آواز اٹھاتا ہے، کہیں غلط ہورہا ہو تو وہ بالکل چپ نہیں رہ سکتا۔ وہ ضرور بولے گا۔ سوال اصل میں حق کے لئے آواز اٹھانے کی صلاحیت ہے۔ ظالم کبھی بھی ظلم کے خلاف آواز کو برداشت نہیں کرسکتا۔ ہمارا معاشرہ ایک ڈکٹیٹر روئیے والا معاشرہ ہے۔ فوج کا ادارہ تو ویسے بدنام ہے، آپ کسی سے اختلاف کرکے دیکھ لیں، بیشک آپ کا وہ کتنا خوبصورت رشتہ کیوں نہ ہو۔ پل بھر میں آپ کے سوال پہ رشتہ ختم اور تلوار سونت کے رشتے کا گلا کاٹ دیا جاتا ہے۔

ہمارے ہاں سوال کرنے والے اس قدر شدید عدم تحفظ کا شکار ہو گے ہیں، اتنا علم پڑھ کے بھی سوال کرنا ہی نہیں سیکھ پائے۔ ویسے بھی جس تہذیب میں سوال کرنے والا مجرم گردانا جائے، وہاں صرف کند ذہن ڈکٹیٹر پیدا ہوتے ہیں، اس کی کوکھ سے بہترین دماغ، لیڈرشپ کی توقع ایسے ہے، جیسے ہم کیکر سے انگور کا پھل پیدا کرنے کی امید کر لیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ ڈکٹیٹر معاشرہ ہے۔ اگر سوال نہیں ہو گا تو تبدیلی کیسے آئے گی۔ کیسے لوگ اپنے بڑوں کو اپنے مسائل بتائیں گے۔

ہمارے ہاں سوال کرنے پہ صرف ایجنسیاں ہی نہیں اٹھاتی۔ گھر میں سوال کریں تو اماں چپل اٹھا لیتی ہیں، بڑے بہن بھائیوں سے سوال ہو تو زناٹے دار چماٹ ملتی ہے، استاد کا پیشہ کمرشل ہونے کی وجہ سے ڈنڈے کی بجائے باتوں سے پٹائی ہو جاتی ہے۔ سوال کے ناپید ہونے سے روبوٹ دماغ ہر بات پہ یقین کرتے ہیں۔ رات کو جو منہ پہ سفیدی مل کے بدتمیز زبانیں پڑھا ہوا سبق رٹا لگا کے پڑھتے ہیں، وہ پورا دن روبوٹس ایک دوسرے کو سنا کے خوش ہوتے ہیں۔ تمام جھوٹی باتوں پہ اللہ کی قسم اور قرآن بھی اٹھائے جاتے ہیں، اچھے ریسرچر پیدا کرنے کے لیے سوال بہت اہم رکن ہے۔ سوال کے لحاظ سے احمد ندیم قاسمی صاحب کی نظم کے چند شعر میں لکھتا چلو۔

√ زندگی کے جتنے دروازے ہیں مجھ پر بند ہیں

√ حدِ نظر سے آگے بڑھ کر دیکھنا بھی جرم ہے

اپنے عقیدے اور یقینوں سے نکل کر سوچنا بھی جرم ہے

آسماں در آسماں اسرار کی پرتیں ہٹا کر جھانکنا بھی جرم ہے

کیوں بھی کہنا جرم ہے، کیسے بھی کہنا جرم ہے

سانس لینے کی آزادی تو میسر ہے۔ مگر

زندہ رہنے کے لیے انسان کو اور بھی کچھ درکار ہے

اور اس ’کچھ اور بھی‘ کا تذکرہ بھی جرم ہے

اے ہنر مندان و سیاست

اے خدا وندانِ ایوانِ عقائد

زندگی کے نام پر بس اِک عنایت چاہیے

مجھ کو ان سارے جرائم کی اجازت چاہیے

۔ ہم تحقیق میں اس لیے پیچھے رہ جاتے ہیں، کیونکہ ہم سوال پہ قدغن لگا دیتے ہیں۔ ہمیں سوال سے خوفزدہ نہیں ہونا چاہیے۔ سوال کا جواب دینا چاہیے۔ ہمیں اپنے اندر کا ڈکٹیٹر مار کے سوالات کے جوابات دینے پڑیں گے۔ یہ انفارمیشن کا دور ہے۔ یہاں ہر سوال کا جواب ملتا ہے۔ آپ جتنا بھی چھپا لیں۔ افغان وار اور پاکستان کا رول؟ کیوں ہر لیڈرشپ فوجی ڈکٹیٹر کے کندھوں سے آتی ہے؟ کون ہے جنہوں نے معصوم فواد چودھری اور فیاض الحسن چوہان کو گالیاں بکنے، بدتمیزی کرنے کا کہا ہے؟

کون ہے جس کے کہنے پہ ہمارے ستر سال لگاتار تجربوں کی نذر ہو گے؟ کیا عمران خان ہائی جیک ہو چکا ہے؟ کیا ذیشان کو ہم شہید کہہ سکتے ہیں یا پھر ادارہ بچانے کے لیے دہشتگرد کہہ دیں گے؟ عام آدمی کتنا محفوظ ہے اپنے ملک میں؟ کیا ہم سوال کر کے مطمئن باہر آزاد گھوم سکتے ہیں یا مار دیے جائیں گے؟ بزدار صاحب کی انٹرن شپ کب ختم ہو رہی ہے؟ علیم خان کو گرفتار کروا کے ترین کو کچھ ملے گا یا دھرنا زدہ حکومت کا نیا ڈرامہ ہے؟

رضوی صاحب کے دھرنے پیچھے جو ہیں ان پہ ایکشن ہو گا یا صرف سلیوٹ ہو گا؟ کیا ہمارے مقتدر اداروں اور معزز حکمرانوں کو قوم کے پشتون سپوتوں کے ساتھ مل بیٹھ کے مسائل حل کرنے کی ہمت نہیں ہے یا کرنا نہیں چاہتے؟ ہم کیوں ہر دفع بندے مار کے مسائل حل کرنے کا سوچتے ہیں؟ ہمارے ملی میٹر کے مسائل کیوں کلومیٹر لمبے ہو جاتے ہیں؟ کیا ہم نے سی پیک کو پسِ پشت ڈال کے دوبارہ سپر پاور کی گود میں بیٹھ کے دوبئی، سعودیہ سے مال کھانا شروع کردیا ہے؟

۔ ہم سب محب وطن ہے۔ ہم سب کو ان سوالوں کے جواب چاہئیں۔ کوئی خبر چھپ نہیں سکتی۔ ہمیں پتھروں کے دور سے باہر نکل کے سوچنا ہو گا۔ ہمیں جواب دینے ہوں گے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).