قفس سے فریاد


جیسے جیسے اس انسان دنیا میں نشوونما کے مختلف مراحل طے کیے جاتا ہے، ویسے ویسے اُس کی عقل کی بھی تربیت ہوتی جاتی ہے۔ مگر یہ عقل کس چشمہ سے سیراب ہوکر ترقی کے زینے طے کرتی ہے، یہ ایک مختلف چیز ہے جو انسانی زندگی کی جہت کا مقصد متعین کر کے یا تو اُسے اعلیٰ و ارفع انسان بنادیتی ہے یا جانور سے بھی بدتر مقام کہ جہاں ماسوائے ذاتی اغراض کی تکمیل کے کوئی دوسرا مقصد کارفرما نہیں ہوتا۔ یہ چشمہ کہ جہاں سے عقل کو حیات ِ جاودانی یا قعر ِ مذلت ملتی ہے، دراصل معاشرے کے مجموعی تائثر کی آئینہ دار ہوتی ہے، کہ ایک انسان جس معاشرے میں آنکھ کھولتا ہے وہ اُسی کے رواج و تہذیب کے سائے تلے پروان چڑھ کر ہی اپنی زندگی کی ترجیحات کا تعین کرتا ہے۔ یہ ترجیحات کس قسم کی ہیں، اور اُن کا مال کیا ہے، اس کو سمجھنا اور پھر اس کے اندر موجود مفاسد کو الگ کرنا ہر کس و ناکس کے بس کی بات نہیں۔

اگر کسی معاشرے کی ترجیحات میں مال بنانا اور اُس کے لئے بڑھ چڑھ کر اپنی تمام توانائیوں کو صرف کرنا ہی حصول ِ زندگی ٹھہرا ہو، تو وہاں عقل و دانش اور علم و عرفان کی باتیں کرنا گویا بھینس کے آگے بین بجانے کے مترادف ہے۔ یہ بات بدیہی ہے کہ ایسے معاشرے کے اندر جمہور کا مقصد علم سے محبت اور عقل کی نشوونما کے طریقہ ہائے کار پہ غور کرنا نہیں بلکہ ایک دوسرے سے دولت میں سبقت لے جانا ہوتا ہے۔ جب مزاج ِ انسانی عقل جیسی عظیم نعمت کو علم کے حصول کی بجائے ادھر اُدھر کسی اور چیز کے حصول پہ لگانا شروع کردے، تو اُس کا نتیجہ طوائف ا لملوکی اور شکست و ریخت کی صورت میں نمودار ہوتا ہے اور دیکھتے ہی دیکھتے پوری عمارت ایک روز دھڑام سے نیچے گرجاتی ہے۔ کسی بھی تہذیب کا تباہ و برباد ہوجا نا کوئی انہونی بات نہیں، مگر اُن کا اسباب کا پتہ لگانا اور پھر نئے سرے سے ایک نئی تہذیب کو بنانا ایک جان لیوا عمل ہے جس کے واسطے علم، حکمت اور سعئی مسلسل درکار ہوتی ہے۔

کوئی بھی تہذیب جب مٹتی ہے تو لامحالہ اُس کے پیچھے کچھ ایسے اسباب ہوتے ہیں، جو اُس کی تحلیل کے عمل کو سمجھنے کے اندر ممد و معاون ہوتے ہیں۔ آسمانی کتابیں بھی گزشتہ تہذیبوں کے مٹے ہوئے نقوش کا نشان بتلاتی ہیں، تو دوسری طرف عقل و خرد کے حامل افراد بھی گم گشتہ تہذیبوں کے احوال سے واقف ہیں۔ ایک عامی جب ان غارت شدہ تہذیبوں کی باقیات کے اوپر نظر دوڑاتا ہے، تو اُسے چندا دلچسپی کا سامان نہیں ملتا اور وہ ایسی تہذیبوں کے منتشر اوراق کی ورق گردانی کو بھی فضول اور مہمل خیال کرتا ہے۔

تاہم اہل ِ علم و اہل ِ بصیرت کے لئے ایسی تہذیبوں کے احوال کا مطالعہ کچھ کم دلچسپی کا سامان نہیں رکھتا۔ اس مطالعے سے جو چیز ہمیں حاصل ہوتی ہے وہ ہے احتساب۔ اعنی اس بات کا جائزہ کہ ان غارت شدہ تہذیبوں اور اپنے معاشرے کی رائج ا لوقت تہذیب کا موازنہ۔ کیونکہ یہ بات اظہر من ا لشمس ہے کہ فطرت ِ انسانی ہر دور میں وہی رہتی ہے، اور جب بھی انسان اپنے دور کے اندر اس فطرت سے بغاوت کرتا ہے تو اُس کا لازمی نتیجہ تباہی و بربادی کی صورت میں ہی نکلتا ہے۔

ایسا ہر دور کے اندر ہوتا چلا آیا ہے کہ کمزور و محکوم معاشرے کی تہذیب کمزور ہونے کے کارن فاتح تہذیب کا مقابلہ نہیں کرپاتی۔ مگر ایسا کیوں ہوتا ہے کہ کمزور کی قسمت میں ذلت و رسوائی مقدر ٹھہرے اور اس سلسلے کا کوئی اختتام نہ ہو۔ اس سلسلے میں جب پہلی چیز نظر آتی ہے وہ ایک عادلانہ اور منصفانہ نظام ِ عدل کی فراہمی کا نہ ہونا یا غیر مؤثر ہونا ہے۔ کیونکہ امارت اور غربت کا فرق نہ صرف ازمنہ قدیم سے ہے بلکہ ساتھ ساتھ فطری بھی ہے، کہ کارخانہء حیات اس کے ماسوا چل نہیں سکتا۔

مگر اصل خرابی تب پیدا ہوتی ہے کہ جب معاشرے کے کچھ افراد یا طبقات زبردست ہوکر زیر ِ دست اقوام یا معاشروں کے حقوق سلب کرنا شروع کردیتے ہیں۔ ایسے عالم میں اگر کوئی ہاتھ ان کی چیرہ دستیوں کو روک سکتا ہے تو وہ عادلانہ نظام ہے، جو تمام انسانوں کو اس بات کا پابند کرتا ہے کہ وہ ایک باہمی تعاون اور اشتراک کے تحت نہ صرف زندگی گزاریں بلکہ، کمزور اور پسے ہوئے طبقات کو اُن کے حقوق کی فراہمی کی بھی ضمانت ہوتا ہے۔

مگر ایک انسان دوسرے انسان کے حقوق کیوں پامال کرتا ہے؟ آخر ایسی کیا وجہ ہے جو ایک معاشرے کے ایک طبقے کو جارح بنا دیتی ہے، اور وہ اپنی ذاتی خواہشات کو کبھی مذہبی، کبھی معاشرتی اور کبھی قومی تقاضوں کا نام دے کر انسانیت کے ایک طبقے کو اپنا ہمنوا بنا کر دوسرے انسانوں اور معاشروں کے اوپر چڑھ دوڑتا ہے؟ ہم تاریخ ِ انسانی کے اندر برپا کی گئی جنگ و جدال کا مطالعہ کریں، تو ہمارا ضمیر شرم سے جھک جاتا ہے کہ جب ہم دیکھتے ہیں کہ ان جنگوں کے اندر انسانوں کی وہ اکثریت ایندھن بنی جن کا ان تمام جنگوں سے دور دور تک کا واسطہ نہ تھا۔

حال ہی میں ہونے والی دو عظیم جنگوں کا بھی گہری نظر، فکر اور عقل و شعور کی سلامتی کے ساتھ اگر مطالعہ کیا جائے تو حقیقت واشگاف الفاظ میں اپنی سچائی کا اظہار کرتی ہے۔ مثلاًجنگ عظیم اول اور دوم کے اندر ہندوستان کے باشندوں کو جمہوریت کی پاسداری اور امن کے نام پہ اور اس حال میں جھونکا گیا کہ جب ان کے اپنے بنیادی حقوق تک اُن کو میسر نہ تھے۔ اس جنگ کے نتیجے میں کچھ خاص طبقات کے تمام مفادات تو بطریق ِ احسن پورے تو ہوگئے، حتی ٰ کہ نواب، سر بہادر، شمس العلماء جیسے خوش نما القابات اور بیش بہا وظائف سے بھی نوازا گیا۔

تاہم اس کے ساتھ ساتھ دوسری چیز جو باعث ِ ننگ ہے وہ مذہب کی من مانی تاویلات اور من گھڑت احکامات کی بنیاد پہ استوار ایک عمارت، کہ جس کے اندر تمام کے تمام فوائد کا مالک اور حق دار مذکورہ بالا زبردست طبقہ، جبکہ ہر قسم کی ایزارسانی اور مشکلات کامستحق وہ زیر ِ دست طبقہ جس کو اپنے بنیادی حقوق تک میسر نہیں۔ تاریخ اس بات پہ شاہد ہے کہ نام نہاد مذہبی طبقے نے ہر دور کے اندر ظالم و جابر کو ہر قسم کے مظالم روا رکھنے کا جو پروانہ اور سند عطا کی، یہ اُسی کا نتیجہ ہے کہ معلوم تاریخ ِ انسانی کے اندر سب سے زیادہ لوگ مذہب کے نام پر کی گئی جنگوں کے نام پہ قتل ہوئے اور یہ سلسلہ ہنوز جاری و ساری ہے۔

یہ چیز کس قدر باعث ِ شرمندگی کا باعث بنتی ہے کہ ایک ہی قانون کے ہوتے ہوئے، کچھ طبقات کو تو برابر فائدہ پہنچے مگر ایک عظیم اکثریت اُس کے فضائل اور ثمرات سے محروم رہ کر زندگی گزارے۔ ایسے عالم میں بھلا اخلاقیات کا کیا معیار ہوگا اور انسانیت مجموعی اعتبار سے کیا ترقی کرے گی۔ مگر رونا اس بات کا ہے کہ کیا ہماری زندگی میں اس شب ِ ظلم کی انتہا بھی ہوگی یا ابھی اور کئی نسلوں نے اس قربان گاہ کی بھینٹ چڑھنا ہے۔

کب وہ دن آئے گا کہ جب انسان واقعی آزاد ہو کر اپنی مرضی سے جینے کا حق حاصل کرے گا؟ آہ! کیسے دکھ کی بات ہے کہ آج آزادی سے محروم انسان کو ہر قسم کی بھول بھلیوں میں الجھا کر، اُسے اس بات سے کس قدر دور کردیا کہ وہ اس بات کے سوچنے کا روادار بھی نہیں کہ میں آزاد نہیں ہوں، میں اپنی مرضی کا مالک نہیں ہوں، ملک کے حکمران کا فیصلہ میری ووٹ سے نہیں بلکہ انجانے اشاروں پہ ہوتاہے، میرے ملک کی مقننہ کے پاس سب کچھ کرنے کا وقت ہے سوائے مفادات ِ عامہ کے امور کے، میرے ملک کے اندر ہی میرے جیسے کچھ لوگ اجنبی بن کر رہ رہے ہیں، اور اُن کو اپنے جرم کا پتہ تک نہیں کہ یہ کون سے ناکردہ گناہوں کی سزا دی جارہی ہے۔

میرے ملک کے لوگ پرائی آگ میں، پرائے ملک میں، کسی اور کی خاطر کرائے کے قاتل کی مانند استعمال ہورہے ہیں، اور جواز پوچھنے والے غدار کی سند سے نوازے جارہے ہیں۔ آخر کب ہمیں ان سوالات کا جواب ملے گا یا پھر یونہی پتھرائی آنکھ لیے دنیا سے رخصت ہونا پڑے گا کہ جیسے کوئی بے گناہ قیدی سولی کی بھینٹ چڑھ کر آزاد ہوتا ہے


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).