سچل اور رومی کی شاعری: فطرت و کائناتی شعور کا عکس بے مثال


فطرت اور کائناتی شعور یہ دو ایسے مکتبہ فکر ہیں جو انسان کی باطنی آنکھ کو روشن کردیتے ییں۔ مظاہر فطرت کے پاس ایک الہامی رویہ ملتا ہے۔ بارش سے پہلے حبس، بارش کی پیشنگوئی کردیتا ہے۔ فطرت کی زندگی میں ہم آہنگی، رابطہ و برداشت نظر آتی ہے۔ جس کے بعد انسان پر کائنات کی سمجھ کے بند دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ یہ آگہی ماورائی جمالیات سے بہرہ ور ہے۔ تصوف یا صوفی ازم کی بات کی جاتی ہے تو اسے فکری یا فلسفے کے طور پر سماجی زندگی سے متصل کردیا جا تا ہے۔ اور اس کا روحانی و ماورائی پہلو نظر انداز کردیا جا تا ہے۔ روحانیت بھی روزمرہ کی سوجھ بوجھ و سمجھ کا ردعمل ہے۔

صوفی کا علم سمجھ اور مشاہدے پر مبنی ہے۔ وہ روزمرہ کی زندگی سے بہت کچھ سیکھتا ہے۔ فطرت اس کے لیے کھلی کتاب کی مانند ہے۔

فطرت کا اپنا الگ رویہ ہے۔ عناصر کے مابین ہم آہنگی پائی جاتی ہے۔ فطرت اجتماعیت کا اظہار ہے۔ مل جل کر رہنا اوردوسروں کو راستہ دینا فطری زندگی کا سنہری اصول ہے۔ فطرت کے راستے متوازی یا متضاد ہوں ان میں گہری معنویت پائی جاتی ہے۔

حضرت سچل سرمست اور مولانا جلال الدین رومی کی شاعری میں فطرت کی زندگی کی نئی جہتیں دریافت ہوتی دکھائی دیتی ہیں۔ آپ کی سوچ کو کوئی نہ کوئی مثبت رخ ملتا ہے۔ کوئی ایسی سچائی سامنے آن کھڑی ہوتی ہے، جس سے ہم ناواقف ہوتے ہیں۔ دونوں شعرا کی سوچ وخیال میں فطرت کا قانون راج کرتا ہے۔ یہ بین الاقوامی سچائی اور فطری حقائق زندگی کا نچوڑ کہلاتے ہیں۔

سچل کی شاعری، رومی کی تخیل کی طرح وجہ اور اثر کی حقیقت کے اردگرد گھومتی ہے۔ جیسے سچل اس شعر میں فرماتے ہیں :

برف سورج کا سامنا کرتی ہے

اور پگھل کر پانی بن جاتی ہے

پانی برف کی بنیاد ہے

جب برف تھی تو اس کا وجود تھا

پگھلنے پر آئی تو ہستی کھو بیٹی

جب برف تھی تو فقط خود تک محدود تھی

سورج کی تپش سے پگھل کر زندگی بن گئی

پانی کے کئی کام ہیں۔ پانی سے سبزہ اور کھیت مہکنے لگے۔ پانی زندگی و آسودگی بانٹتا ہے۔

یہ فکر کا ارتقائی سفر ہے، جب چیزیں رنگ بدلتی ہیں، لیکن وہ بنیاد سے آگے کی طرف سفر کرتی ہیں۔ مگر انسان ہر فائدے کی چیز یاد رکھتا ہے، مگر وہ اپنا خالص پن بھول جاتا ہے۔ سوال یہ ہے کہ کون اپنی بنیاد کے کس قدر قریب کھڑا ہے۔

مدار سے ہٹی ہوئی ہر شے ناپائیدار اورکھوکھلی ہے اور اپنی افادیت کھو بیٹھتی ہے۔

خالص سوچ، زمینی حقائق کے قریب ہوتی ہے۔ زمین کی قربت عملی سوچ عطا کرتی ہے۔ بنجر زمین میں پھول نہیں اگتے جب کہ زمین کی زرخیزی نگہداشت کی طلبگار ہوتی ہے۔ زرخیز زمین کی دیکھ بھال نہ کی جائے تو وہ بنجر زمین کہلائے گی۔ لہٰذا، خیال انسان کے عمل کی نگہبانی کرتا ہے۔

بقول رومی ”کائنات کی ہر چیز انسان کے اندر وقوع پذیر ہے۔ اسے خود سے سوال کرنا چاہیے۔ اسے بہتر جواب ملے گا۔ “

انسان کا زوال اس وقت شروع ہوتا ہے جب وہ ماحول سے لاتعلق ہو جاتا ہے۔ وجود کی ہم آہنگی اس وقت ممکن ہے جب انسان کو اپنے اندر تعلق کی روشنی محسوس ہو۔

سچل کی طرح رومی کا لہجہ بھی کسی بھی مصلحت سے مبرا ہے۔

پھول خزاں سے خوفزدہ ہیں

مگر تم ایک بے خوف گلاب ہو

جو یخ بستہ ہواؤں میں مہکتا ہے

خوف ایک منفی جذبہ ہے جو سوچ کا جمود ہے۔ بے یقینی کا سرچشمہ ہے۔ جو بدگمانی کا اظہار کرتا ہے، جھوٹ کی جڑ ہے، یہ فریب کا ثمر ہے۔ لاتعلقی کا اندھیرا جس کے ساتھ چلتا ہے۔ سچل سرمست منفی رویوں کے خلاف مستقل آواز اٹھاتے رہے ہیں۔ وہ اہل سندھ کو آگاہ کرتے ہیں کہ پرفریب خیال اور واہموں سے باہر نکل آؤ۔ قیاس آرائیاں، حقیقتوں سے دور کر دیتی ہیں۔

ذات کی خود اعتمادی و منطقی سوچ، نجات کا راستہ ہیں۔ خود انحصاری کی طرف آگے بڑھو۔ اندر کی آواز تمہاری رہنمائی کرے گی۔ یہ تمہیں راہ سجھائے گی۔ سچل کہتے ہیں کہ ”جسم گھرکی مانند ہے، جو دیکھنے میں خوبصورت ہے۔ یہ گھر بت خانہ ہے، جہاں خواہش و نظریوں کے جا بجا بت رکھے ہیں۔ اس بت خانے کو توڑ ڈالو۔ روح، سیپ میں بند موتی کی طرح ہے۔ روح کی خوبصورتی زیادہ پراثر ہے۔ ذات کی نفی سے عرفان عطا ہوتا ہے اور سمجھ کے بند دروازے کھلتے چلے جاتے ہیں۔ ہونے کی ضد، منوانے کی دھن تمام تر فساد کی جڑ ہے۔

رومی خود کو فطرت کا حصہ سمجھتا ہے۔ فطرت اسے ذات کے پرفریب راستوں پر چلنے سے روکتی ہے۔ اس لامحدود کر دیتی ہے۔ فطرت آزاد اور بے باک ہے۔ رومی کا کہنا ہے کہ ایک کہکشاں ہے جو اس کے ذہن میں گھوم رہی ہے۔

یہ ذہانت کا ارتقائی عمل ہے۔ جہاں خیال کی زرخیز زمین ہے۔ خیال، عمل کی آبیاری کرتا ہے۔ خیال سے ہی تصور جنم لیتا ہے اور یہ تصور حقیقت میں بدل جاتا ہے۔

شاعر کا احساس خود کو کبھی صبح کی دھند میں لپٹا ہوا محسوس کرتا ہے۔ تو کبھی شام کی مہکتی سانسوں کا ترجمان۔

کبھی ہوا کا معطر جھونکا بن کر درختوں کے اوپر تیرنے لگتا ہے۔ کبھی لہر جو چٹان سے ٹکراتی ہے۔ یہ بے خودی اسے خالق کائنات تک لے کر جاتی ہے۔

کانٹ ماورائی جمالیات کی بات کرتا ہے۔ کیونکہ حسن کا ہر پل غیرفانی احساس کا حامل ہے۔ انکشاف بذات خود معجزاتی محرک لئے ہوئے یے۔ انکشاف ذہن و روح کی شفافیت کا ردعمل ہے۔ شفافیت، راستہ روکتی نہیں بلکہ فطری توانائی کو راستہ دیتی ہے۔ ولیم ورڈزورتھ، ولیم بلیک، حافظ، شاہ لطیف۔ لفظ کی سچائی و قوت کے متعرف ہیں۔ جو ذہن کی وحدت سے جلا پاتے ہیں۔

سچل سرمست کے لیے عشق بے کنار حسن کا مظہر ہے۔ یہ خیال کو فکر کے لامحدود زاویے عطا کرتا ہے اور وجود کی وحدت کے ہنر سے بہرہ ورکرتا ہے۔ خوبصورتی کا مستقل سامنا ہو تو نظر کو پرکھ کر قرینہ مل جاتا ہے۔ یہ پرکھ فطرت کی زندگی کے گوناگوں پہلو سامنے لے کر آتی ہے، مگر محبت کی نظر دھیمی اور تنقید سے مبرا ہوتی ہے۔ تنقیدی طور پر جانچنا یا پرکھنا مشروط رویہ ہے، جو

محبت کو متضاد بناتا ہے۔ محبت غیر مشروط ہے، جس کے کئی روپ اور حوالے ہیں۔ جو مستقل توجہ کے طالب ہیں۔

رومی انسان کو انا کے حال سے باھر نکلنے کی راہ دکھاتا ہے۔

اے انسان! نکل باہر خواہش کے قید خانے سے۔

لے دے مار کلہاڑی زندان کو اور نکل کے دیکھ باہر

نیلا بے کراں آسماں وہ پرواز رقصاں بیخودی

سچل بھی فرماتے ہیں،

دوئی تجھ کو لے ڈوبے گی، مورکھ کرلے غور

دوئی مادیت پرستی کی دین ہے۔ مادیت پرستی نے آدم کی ہستی کی توھین سکہائی اور ہمیں روح کے خالص پن سے دور کردیا۔ انسان کو زمین پر گھسیٹنے سے انا کو تسکین ملنے لگی۔ اس کا بہتا خون انا کو اطمنیان کے چھینٹے مارنے لگا۔ اس کا زوال دلوں کو مسرت سے ہمکنار کرنے لگا۔ ہم بلھے شاہ، لطیف اور سچل کو بھول گئے۔ مادے کے جال میں الجھا انسان روح کے تقاضے سے منہ موڑ گیا اور خود فراموشی کے عالم کہیں گم ہے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).