پائیدار ترقی کے مقاصد 2030 کا حصول اور این جی اوز پر پابندی


کسی بھی معاشرے کی خوشحالی کے لئے ضروری ہے کہ اُس کے تمام شعبوں کو ساتھ لے کر چلا جائے تا کہ معاشرے کو یقینی طور پر خوشحال بنایا جا سکے۔ دُنیا کے اعلیٰ دماغ رکھنے والے پالیسی میکرز نے ترقی پذیر ممالک کو خوشحال بنانے کے لئے پائیدا ر ترقی کے مقاصد 2030 کے اہداف مقرر کیے ہیں جن کے مقصد 2030 ء کے تحت ترقی پذیر ملکوں کو ترقی یافتہ بنانے کے لئے عملی طور پر کام کرنا ہے تا کہ 2030 ء تک دُنیا کے ترقی پذیر ممالک بھی ترقی یافتہ ممالک کی صف میں کھڑے ہو سکیں۔

ان دیرپا مقاصد میں ”ہرطرح کی غربت کا خاتمہ، خوراک، سلامتی اور بہتر غذائیت کا حصول، دیرپا زراعت کا فروغ، صحت مند زندگی کو یقینی بنانا، ہر عمر کے ہر فرد کی فلاح کو فروغ دینا، سب کی شمولیت اور برابری پر مبنی معیاری تعلیم کو یقینی بنانا، برابری کی سطح پر سیکھنے کے مواقع کو فروغ دینا، صنفی مساوات ممکن بنانا، تمام خواتین اور لڑکیوں کو با اختیار بنانا، سب کے لئے پانی اور سینی ٹیشن سہولیات کی دستیابی اور دیرپا انتظامیہ کی دیکھ بھال یقینی بنانا، باکفایت، قابل ِ اعتبار، دیرپا اور جدید توانائی تک عوام کی رسائی یقینی بنانا، سب کے لئے دیرپا اورعوام کی شمولیت پر مبنی معاشی افزائش، مکمل اور ثمر آور روزگار اور شائستہ کام کو فروغ دینا، آفات کے مقابلے کی صلاحیت رکھنے والے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، ملکوں کے اندر اور اُن کے درمیان عدم مساوات میں کمی لانا، شہروں اور انسانی آبادیوں کو محفوظ، دیرپا اور آفات کے مقابلے کی صلاحیت کو حامل بنانا، دیرپا تصرف اور پیداواری طریقے یقینی بنانا، آب و ہوا کی تبدیلی اور اُس کے اثرات سے نمٹنے کے لئے فوری اقدام کرنا، پائیدار ترقی کے لئے سمندروں اورآبی وسائل کو محفوظ اور دیرپا انداز میں استعمال کرنا، زمینی ماحولیاتی نظاموں کے تحفظ، اُن کی بحالی اور دیرپا استعمال کو فروغ دینا، جنگلات کو دیرپا انداز میں عمدہ طریقے سے استعمال کرنا، بڑھتے صحراؤں کی روک تھام کرنا، زمین کے انحطاط کی روک تھام کرنا اور حیاتیاتی تنوع میں آنے والی کمی کی روک تھام کرنا، عوام کو انصاف تک رسائی فراہم کرنا اور ہر سطح پر موثر، قابل احتساب اوربرابری کی شمولیت پر مبنی ادارے تعمیر کرنا، دیرپا ترقی کے لئے عالمی اشتراک عمل پر عمل درآمد اوراسے نئی قوت دینے کے طریقوں کو مستحکم کرنا۔ “ شامل ہیں۔

یاد رہے کہ ہمارے ملک کی بھی اخلاقی طور پر ایک کمٹمنٹ ہے کہ ہم اپنے ملک میں مندرجہ بالا تمام مسائل کو حل کر نے کے لئے ہر ممکن اقدامات اُٹھائیں گے۔ اچھی بات ہے کہ ملک میں اس حوالے سے اقدامات بھی کیے جا رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کچھ نامساعد حالات اور کچھ مفروضوں کی وجہ سے سابقہ اور موجودہ حکومت سماجی تنظیموں کے بغیر ہی ان اہداف کو پورا کرنے میں کوشاں ہے۔ حالانکہ تاریخ گواہ ہے کہ سماجی تنظیموں نے اس ضمن میں خاطر خواہ کردار ادا کیا ہے اور اُنہوں نے اس ضمن میں عوامی میں شعوری بیداری اور اپنی مدد آپ کے تحت ان اہداف کو پورا کرنے کے لئے جو سوچ پیدا کی ہے اُس کی وجہ سے کسی حد تک ان مسائل پر قابو پانے میں کامیاب بھی ہوئے ہیں۔

اور قومی مسائل پر حکومت کو سفارشات بھی پیش کی ہیں۔ لیکن گزشتہ کچھ برسوں سے سماجی تنظیموں کے خلاف ایک خاص قسم کی پابندی لگادی گئی ہے اور خاص طور پر ملک کے غیر ترقی یافتہ اضلاع (جن میں سے بیشتر کا تعلق عام طور پر جنوبی پنجاب سے ہے ) میں سماجی تنظیموں پر جو قدغن لگا دی گئی ہے کہ اُس کی وجہ سے سماجی تنظیموں اور اُن تنظیموں میں کام کرنے والے انسانی حقوق کے کارکنوں میں غیر یقینی کی کیفیت پائی جا رہی ہے۔

حالانکہ دیکھا جائے تو جنوبی پنجاب کی ترقی میں سماجی تنظیموں کا کردار بھی خاصا فعال رہا ہے۔ دوسری بات یہ کہ اتنی بڑی ورک فورس جو اس شعبے سے جڑی ہے اُسے اپنا مستقبل مخدوش نظر آرہا ہے۔ سوال یہ ہے کہ سوشل سائنس میں ماسٹر کرنے والے نوجوان جو اس شعبے میں قسمت آزمائی کر کے اپنا مستقبل بنانے کی تگ و دو کرتے ہیں اُن کے لئے کسی اور شعبے میں جگہ بنانا قدرے مشکل ہے۔ حیرت کی بات یہ ہے کہ ریاست کی طرف سے ایسے تمام طلباء کے لئے کوئی پالیسی مرتب نہیں کی جاتی۔ یہی وجہ ہے کہ سوشل سائنس کے تعلیم یافتہ نوجوانوں کی کثیر تعداد ان اضلاع میں بے روز گاری کا سامنا کررہی ہے۔

اگر سماجی تنظیموں کی کارکردگی کا جائزہ لیا جائے تو آپ حیران ہوں گے ملک کی بڑی اور عالمی سطح کی تنظیموں میں آپ کو ملک کے چھوٹے اضلاع سے سماجی کارکن کی بڑی تعداد نظر آئے گی اور اس کی وجہ بھی یہی ہے کہ 2005 کے زلزلے اور 2010 ء کے سیلاب کے بعد اُن متاثرہ علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوانوں نے سماجی تنظیموں سے آگاہی حاصل کی او ر اس شعبے سے وابستہ ہو گئے اسی طرح جنوبی پنجاب میں بھی قدرتی آفات کی تباہی کے بعد بڑی تعداد نے اس شعبے میں شمولیت اختیار کی۔

اب پالیسی بنانے والے حکومتی ادارے اور اراکین اگر اس پہلو سے سوچیں تو اُنہیں یقینا ادراک ہو گا کہ ان علاقوں کے پڑھے لکھے نوجوانوں کی کثیر تعداد جو اس شعبے سے جڑی ہے اُن کا مستقبل کیا ہو گا؟ اگر سوچا جائے کہ اس ورک فورس کو متبادل کیا روز گار دیا جائے تو شاید کسی حد تک اُن کا مسئلہ حل ہو لیکن ہمارے کبھی ایسا سوچا ہی نہیں گیا اور نہ ہی ریاست کی طرف سے مستقبل میں ایسی کوئی حکمت عملی بنتی دکھائی دیتی ہے تو اس ضمن میں بھرپور مطالبہ کیا جاتا ہے کہ سماجی تنظیموں کے حوالے سے ریاست کی طرف سے نرم پالیسی بنائی جائے۔

آپ دُنیا کے ترقی یافتہ ملکوں میں سماجی تنظیموں کی صورتحال دیکھ لیں آپ حیران ہو جائیں گے ترقی یافتہ ممالک نے ہمیشہ پائیدار ترقی کو برقرار رکھنے کے لئے سماجی تنظیموں کو ساتھ ملایا ہے اور اُنہوں نے انتہائی دلچسپی لیتے ہوئے اپنے فرائض سرانجام دیے ہیں بلکہ یہی جذبہ ہمارے ہاں سماجی کارکنوں میں بھی موجود رہا۔ آپ 2005 ء کے زلزلہ دیکھ لیں یا 2010 ء اور اس کے بعد سیلابوں کے ادوار دیکھ لیں۔ آپ کو سماجی اداروں اور اُن کے کارکنوں کا جذبہ کمال نظر آئے گا۔

سماجی اداروں کی شاید یہی خطا ہے کہ وہ سچ کو سچ کہتے ہیں جو وہ اپنی رپورٹس اور اپنے اشاعتی مواد میں کہتے ہیں جس سے شاید ریاست خائف ہو تی ہے۔ لیکن آپ کسی بھی ادارے کا اشاعتی مواد اُٹھا کر دیکھ لیں آپ کو واضح طور پر علم ہو گا کہ اگر سماجی اداروں نے کسی مسئلے کی نشاندہی کی ہے تو اُس کے حل کے لئے ریاست کو اپنی سفارشات کے ذریعے تجاویز بھی دی ہیں۔ اب ریاست ان تجاویز کو اہمیت دے یا نہ دے یہ ایک الگ بحث ہے۔

سماجی ادارے ریاست سے استدعا کرتے ہیں کہ آپ اُن کی نگرانی کا جو بھی معیار رکھنا چاہئیں رکھیں آپ اُن سے متعلق متعلقہ اداروں کو پابند کریں تو اُنہیں کوئی مضائقہ نہیں ہے ویسے ہر سال کوئی بھی سماجی تنظیم ہرسال اپنی سالانہ رپورٹ اور فنانشل رپورٹ متعلقہ اداروں کو جمع کرواتی ہے تو تب ہی جا کر اُنہیں اگلے سال کے لئے کام کرنے کا اجازت نامہ (Renewal) دیا جاتا ہے۔ اس کے علاوہ متعلقہ اداروں کے افراد گاہے بگاہے اُن سماجی تنظیموں سے رابطے میں بھی رہتے ہیں تو ایسی صورت میں اپنے ہی لوگوں پر اعتماد نہ کرنا بالاوجہ عذر ہے جسے ریاست کی طرف سے تراشا جا رہا ہے۔

نئے قوانین کے مطابق کسی بھی سماجی تنظیم کو اپنے ضلع سے رجسٹرڈ ہونے کے لئے بھی وزارت ِ داخلہ سے اجازت لینی ہو گی۔ اس میں کوئی مضائقہ نہیں ہے لیکن رجسٹریشن کا یہ عمل مہینوں بلکہ سالوں پر محیط ہے جس کی وجہ سے کسی بھی ضلع میں سماجی تنظیمیں رجسٹرڈ نہیں ہو رہی۔ باز گشت ہے کہ سال 2012 ء کے بعد کوئی بھی نئی سماجی تنظیم یا ادارہ رجسٹرڈ نہیں کیا گیا۔

تشویشناک صورتحال یہ ہے کہ عالمی تنظیموں کو تو این او سی جاری کر دیا جاتا ہے کہ وہ اپنا پروگرام اپنے منصوبے کے مطابق ملک بھر میں چلائیں لیکن جو مقامی سماجی تنظیمیں اُن عالمی تنظیموں سے پراجیکٹ لیتی ہیں تو اُنہیں پابند کر دیا جاتا ہے کہ وہ پالیسی کے مطابق متعلقہ اداروں سے این او سی سرٹیفیکٹ حاصل کر یں تب ہی وہ اُس پراجیکٹ کو متعلقہ ضلع میں نافذ کر سکتی ہیں لیکن جو پریکٹس چل رہی ہے کہ این او سی کے لئے درخواست دی جاتی ہے، پراجیکٹ کی کاپی بمعہ بجٹ جمع کروائی جاتی ہے لیکن اس کے باوجود این او سی کا سرٹیفیکٹ نہیں دیا جاتا۔ یہ صورتحال جنوبی

پنجاب کے اضلاع میں تاحال موجود ہے۔ ایسی صورتحال میں کچھ سوال پیدا ہوتے ہیں کہ مقامی سماجی تنظیمیں کیسے کام کریں؟ یہ ایک سوالیہ نشان ہے؟ اُن کی داد رسی کون کرے گا؟ اُن کے لئے آسانیاں کون پیدا کرے گا؟ حکومت کیسے اُنہیں ریلیف دے گی؟ یہ وہ سوالات ہیں جس کی اُمید پر جنوبی پنجاب کے پڑھے لکھے طبقے نے موجودہ حکومت کو ووٹ دیا لیکن نتیجہ ڈھاک کے وہی تین پات۔ سماجی تنظیمیں بھی اسی خوش گمانی کا شکار تھیں کہ شاید اُن کی اس مشکل کو موجودہ حکومت سمجھ سکے۔

اس ضمن میں اگر حکومت سماجی تنظیموں کے راہنماؤں سے کوئی مشاور ت کرتی ہے تو براہ کرم جنوبی پنجاب سے سماجی تنظیموں کو ضرور شامل کریں تاکہ اُنہیں علم ہو سکے کہ ان علاقوں موجود اس شعبے سے وابستہ لوگوں کی کیا مشکلات ہیں اور اُنہیں کیسے دُور کیا جا سکتا ہے؟ ہو سکتا ہے کہ بڑے شہروں کی سماجی تنظیموں کو یہ مسائل در پیش نہ ہوں جس کی وجہ سے ریاست اس مسئلے سے آگاہ نہیں ہے جو کہ بہت اہم ہے لیکن چھوٹے اضلاع خاص طو ر پر جنوبی پنجاب کے اضلاع کی سماجی تنظیموں کے لئے یہ ایک اہم مسئلہ ہے اور جس کا وہ فوری طور پر حل چاہتی ہیں۔ اس ضمن میں تجویز دی جاتی ہے کہ سماجی تنظیم رجسٹرڈ کرنے کا طریقہ کار آپ جتنا مرضی سخت کر دیں لیکن اگر وہ ضلعی سطح پر ہو تو اس سے مقامی چھوٹی سماجی تنظیموں اپنے علاقے کے لوگوں کو مسائل کو حل کر سکیں گی۔

سماجی تنظیموں کے یہ خدشات موجودہ حکومت کو جلد دور کرنے کی ضرورت ہے تاکہ پائیدار ترقی کے اہداف 2030 کو ممکن بنایا جا سکے کیونکہ شنید ہے کہ موسموں کی بدلتی صورتحال (Climate Change) کی وجہ سے قدرتی آفات سے پوری دُنیا متاثر ہوگی۔ پھر چاہے صاف پانی کا مسئلہ ہو یا غربت کا خاتمہ۔ وہ ہمارا بھی اہم مسئلہ ہے۔ غرض وہ تمام اہداف جو پائیدار ترقی میں رکھے گئے یقینا ہمارے بھی وہی اہداف ہیں اس لئے ہمیں ہر صورت ان اہداف کو پورا کرنا ہے اور اس کے لئے سماجی تنظیمیں ایک موثر کردار ادا کر سکتی ہیں۔

اگر ہم صحیح معنوں میں کلین اینڈ گرین اور پولیو فری پاکستان دیکھنا چاہتے ہیں اور عام آدمی کو بنیادی ضروریات فراہم کرنا چاہتے ہیں تو ہمیں سماجی تنظیموں کی اہمیت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اب یہ فیصلہ ریاست کے ہاتھ میں کہ وہ واقعی پائیدار ترقی کے اہداف 2030 کے حصول کو ممکن بنائے اور سماجی تنظیموں کو ریلیف دے کر ملک کو ترقی یافتہ ملکوں کی فہرست میں شامل کر ے۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).