ذرا این آر او دینے والوں کی اپنی اوقات تو دیکھیے!


یوں تو  علی زیب کی بے وفائی، کج روی، کم نگاہی اور بے توجہی ہمیشہ ہی زویہ کے لیے سوہانَ روح بنی رہتی تھی مگر اب تو زویہ اس کی بے نیازی کو اپنی تذلیل و تحقیر سمجھنے لگی تھی۔ زویہ جس قدر التفات برتتی، علی زیب کے رویے میں اتنا ہی اجتناب ہوتا۔ وہ جس قدر دل داری کرتی وہ اتنی ہی دل آزاری کرتا۔ وہ جس قدر قریب آتی وہ اسی قدر دور ہوتا جاتا۔ ادھر دلربائی تو ادھر دل دکھائی تھی۔ ادھر وفاداری تو ادھر بے وفائی تھی۔ ایک طرف اقرار، دوسری طرف انکار۔

اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ اب  علی زیب کو پانے کی شدید خواہش اس کے ا ندھےانتقام میں ڈھل ڈھل گئی۔ اس کی انا زخمی، جذبہ گھائل اور روح مجروح تھی۔ وہ  علی زیب سے رسمی راہ و رسم تو رکھے ہوئے تھی مگر کسی مناسب موقع کی تلاش میں تھی جس میں اگلا پچھلا سب حساب برابر کر سکے۔ اور یہ موقع اسے جلد ہی مل گیا۔ ایک د ن جب وہ بغل میں فائل دابے اس کے کمرے میں آئی تو اتفاق سے وہ اکیلا تھا۔ علی زیب فائل پر جھکا تھا کہ زویہ پھسلنے کی اداکاری کر کے اس کی آغوش میں آ گری۔  علی زیب کو کچھ سوچنے کا بھی وقت نہیں ملا۔

اس نے زویہ کو کاندھے سے پکڑ کر اٹھانے کی کوشش کی مگر اگلے ہی لمحے زویہ نے اپنا گریبان چاک اور بال پریشان کر کے چیخنا چلانا شروع کر دیا اور باہر کی طرف بھاگنے لگی۔  علی زیب اچانک تبدیل ہوتی صورت حال کو سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ زویہ نے اونچی آواز میں روتے ہوئے اس پر اس کی عزت پر حملہ کرنے کا الزام لگا دیا۔ دفتر کے سب لوگ جمع ہو گئے۔ زویہ کی ظاہری حالت اور  علی زیب کی خاموشی دیکھ کر ہر کوئی زویہ کو مظلوم اور  علی زیب کو ظالم اور زویہ کا مجرم سمجھ رہا تھا۔  علی زیب نے لاکھ صفائیاں دینے کی کوشش کی مگر لوگ اندھے نہیں تھے جو زویہ کی حالت دیکھ کر بھی  علی زیب کو بے گناہ سمجھتے۔ کچھ جذباتی اور ہتھ چھٹ نوجوانوں نے تو  علی زیب پر ہاتھ صاف کرنے کی بھی کوشش کی مگر کچھ سنجیدہ لوگوں نے بیچ بچاؤ کرا دیا۔

 آج کل جب پی ٹی آئی کے قائدین و کارکنان اور سب سے بڑھ کر عمران خان نواز شریف کو این آر او اور ڈیل یا ڈھیل نہ دینے کا بتکرار اعلان کرتے ہیں تو مجھے یہ واقعہ یاد آ جاتا ہے۔ این آر او، ڈیل اور ڈھیل کی حقیقت تو یہ ہے کہ کپتان کے سرپرست اور مربی نواز کو شروع دن سے این آر او دینے کے لیے کوشاں ہیں مگر نواز شریف کسی قیمت پر این آر او نہیں لینا چاہتے۔

اگر نواز شریف نے ڈیل کرنا ہی ہوتی تو اس اسی وقت کر لیتے جب ڈان لیکس کے بعد انہیں حکومت کی سلامتی کی ضمانت پر مستعفی ہونے کا پیغام د یا گیا تھا۔ اس کے بعد بھی بے شمار ایسے موقع آئے جب نواز شریف این آر او کر کے اپنا اقتدار، سیاست، ساکھ اور حکومت بچا سکتے تھے۔ سب جانتے ہیں کہ نواز شریف کے لیے بستر مرگ پر پڑی چند دن کی مہمان اپنی وفاشعار اہلیہ کو دیار غیر میں تڑپتا سسکتا چھوڑ کر سیدھا جیل جانا ان کی زندگی کا مشکل ترین فیصلہ تھا مگر انہوں کمال پامردی، استقامت اور اعلٰی حوصلگی سے درد و غم کا وہ ہمالیہ بھی سر کر لیا۔ جب

اقتدار، حکومت، سیاست، آزادی، ساکھ، بھرم، عزت سب کچھ ختم ہو گیا اور وہ ناکردہ جرم کی پاداش میں پس دیوار زنداں چلے گئے تو اب نواز شریف این آر او کس کے لیے مانگیں گے؟ مگر حکومت مصر ہے کہ نواز شریف این آر او مانگ رہے ہیں۔ البتہ نواز شریف نے عدالت سے ضرور رجوع کیا ہے تاکہ وہ ضمانت حاصل کر کے اپنا علاج کروا سکیں اور یہ ان کا قانونی حق ہے۔ جہاں تک حکومت سے ڈیل کرنے یا این آر او اور ڈھیل مانگنے کے سوال کا تعلق ہے تو وہ غالب کے اس شعر کی عملی تفسیر پیش کر رہے ہیں کہ

منت ناخدا نہیں منظور

چاہے اس کو خدا کہے کوئی

ذرا این آر او اور ڈھیل دینے والوں کا حدود اربعہ ملاحظہ کیجیے۔ جن کا اپنا چند روزہ اقتدار مقتدر طاقتوں کی خدمت گزاری، چاپلوسی، خوشامد اور غیر مشروط غلامی کی روش کا مرہون منت ہو، وہ کوتاہ قامت نواز شریف جیسے عزم و ہمت کے پہاڑ کو کیا دے سکتے ہیں؟ جنہیں گھر میں اہلیہ دوسری بار سالن نہیں دیتی، وہ بھی نواز شریف کو این آر او دینے اور نہ دینے کی بات کرتے ہیں۔ فردوسی نے کیا اچھا کہا تھا

کہ ملک عجم را کنند آرزو

تفو بر تو اے چرخِ گردان تفو​


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).