پہلی نسلی جنگ


جنگ کے بارے میں مختلف دانشوروں کے ہاں مختلف نظریات پائے جاتے ہیں۔ کہا یہ جاتا ہے کہ دنیا میں ہر سو سال بعد جنگ ناگزیر ہے۔ اس طرح ایک اور نظریہ پیش کیا جاتا ہے کہ چونکہ انسان کی جبلت جھگڑالو اور خود غرض ہے لہذا وہ اپنے مفاد کے حصول کے لئے کسی بھی حد تک جاسکتا ہے۔

کائنات جب سے معرض وجود میں آئی ہے ہر دور میں کسی نہ کسی خطہ میں کسی نوعیت کی جنگ ضرور چل رہی ہوگی۔ جنگی ادوار کو پانچ ادوار میں تقسیم کیا گیا ہے۔ اور اکیسویں صدی میں پانچویں جنریشن وار چل رہی ہے۔

پہلی جنریشن وار زمانہ قدیم میں لڑی جانے والی جنگ تھی۔ اس جنگ کے تانے بانے روم اور یونان کے عہد سے ملتے ہیں۔ اس جنگ میں فوجیوں کی کثیر تعداد ہوا کرتی تھیں۔ اور وہ لائن اور کالم میں منظم ہوا کرتے تھے۔ فوجیں اپنے آپ کو قطار میں منظم کرتیں اور پھر کالم کی صورت میں آگے پیچھے ہوکر دشمن کے جانب بڑھا جاتا۔ ان جنگوں میں زیادہ تر تلوار اور نیزے استعمال ہوتے اور توڑے دار بندوق بھی بروئے کار لائے جاتے۔ ان پہلی جنریشن وار کے جنگوں میں ایک زیادہ کنٹرول ماحول پیدا کرنے کے لئے فوجی ثقافت تیار کی گئی تھی خاص طور پر سپاہیوں کے لئے لباس جو کہ ان کو باقی عوام سے منفرد رکھتا تھا۔

اور یہ ثقافت آج کل بھی دنیا کے اکثر فوجوں میں پائی جاتی ہے۔ لیکن اس جنریشن وار کا سب سے بڑا نقصان یہ تھا کہ بڑے پیمانے پر لوگ قتل ہوتے۔ ویسٹ فیلیا کے بعد اس جنریشن جنگ کو زیادہ ہوا ملی۔ ان جنگوں میں لاشوں کے انبار کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ انگریز سول جنگ ( 1642۔ 1651 ) جو عیسائی دینداروں کے ایک فرقہ (جو اس وقت کے پارلیمنٹ کے حامی تھے ) اور کیالیئرز (یعنی چارلس 1 کے حامیوں ) کے درمیان لڑی گئی اور ایک لاکھ ستائیس ہزار سے بھی زائد افراد لقمہ اجل بنے۔ اور آپ یہ سن کر دنگ رہ جائیں گے کہ سات سالہ جنگ (جس میں تقریبا اکثر یورپی ممالک شامل تھے ) نے اپنے اندر نو لاکھ سے بھی زائد افراد کو نگل لیا۔ اسی طرح نوعیت کی اور بھی جنگیں اقوام عالم میں لڑی گئیں۔

سپاہیوں کی افراط کی شرط اور کثیر تعداد ہلاکتوں کے ناگزیر ہونے پر اس جنریشن جنگ کو اختتام تک پہنچانے کی ٹھان لی۔ اور انیسویں صدی کے شروع ہوتے ہی امریکہ اور یورپی ممالک میں جدید ٹیکنالوجی نے بھی اپنا چہرہ دکھانا شروع کر دیا تھا اس کی ایک مثال رائفل کی درستگی اور تیز ہتھیار کے طور پر ابھرنا تھا۔ لہذا انیسویں صدی کے شروع میں ہی پہلی جنریشن وار کا انتقال ہو گیا تھا۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).