صنفِ نازک بھی تو محسن ہے مسیحائی کی


ڈاکٹر عطیہ ظفر سید

آج چودہ فروری ہے۔ اس تاریخ کی یہاں یاد آوری پر سب قارئین کے اذہان میں یہ یقینا یہ خیال لپکا ہو گا کہ شاید میں یہاں ویلنٹائن ڈے کی مناسبت سے کچھ لکھنا چاہ رہی ہوں۔ ۔ جی ہاں یہاں محبت ہی کو زیرِ بحث لایا جائے گا لیکن یہ محبت ویلنٹائن ڈے سے منسوب محبت سے بھی کئی درجہ بلند مقام رکھتی ہے کیونکہ یہ انسانیت سے محبت رکھنے والی ان عظیم خواتین کا تذکرہ ہے کہ جنہوں نے مختلف ادوار میں اپنے اپنے معاشرے میں موجود دکھی انسانیت کے دکھوں کا مداوا کرنے کے لئے اٹھیں اورعورت ہونے کے باوجود اپنی ذہانت، اپنی محنت اور اپنی ہمت سے آگے بڑھ کر طب کے میدان کی تاریخ میں بحیثیت خواتین فتح و ظفر کے باب رقم کیے۔

چودہ فروری کو ان خواتین کا ذکر کرنے کا خیال اس لئے آیا کہ آج ہی کے دن ایک ایسی ہی باہمت خاتون ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی برسی منائی جاتی ہے کہ جنہیں خراج پیش کیے بغیر ہم پاکستان کے شعبہِ طب کی ان محسن خواتین کا ذکر مکمل نہیں کر سکتے جنہوں نے قیامِ پاکستان کے بعد کی پہلی دھائی میں اس پسماندہ معاشرے میں شعبہِ طب کو مستحکم و مربوط بنانے کے لئے اپنے قوتِ ارادی سے پیش قدمی کی۔ ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی سوانح سے آگاہ لوگ بخوبی جانتے ہیں کہ وہ فقط ایک باہمت خاتون نہیں بلکہ معجز نما خاتون تھیں۔

1930 ء میں صوبہ بہار کے ایک دور افتادہ گاؤں دیسنہ میں جنم لینے والی عطیہ خاتون۔ جو 13 سال کی عمر میں بیاہ دی گئی اور جو 1953 ء تک وہ بظاہرچار بچوں کو سنبھالے ہوئے فقط ایک سگھڑ خاتونِ خانہ تھیں جسے تعلیمی لحاظ سے فقط قرآن پڑھنا ہی آتا تھا اور واجبی سی اردو۔ توآخر کیا معجزہ رونما ہوا کہ اس نے اپنے شوہر کی بھرپور معاونت کے باعث پہلے میٹرک کیا اور پھر اگلے پانچ چھ سال میں میڈیکل کی تعلیم مکمل کر کے اپنی زندگی کو ایک بالکل نئی اور مستحکم نہج پر لا کھڑا کیا۔

اور پھر اسی نہج پر چلتے ہوئے ان کی اولاد کی صورت میں اس گھر سے مزید طب کے شعبے میں مزید آٹھ چراغ روشن ہوئے۔ اور یہ سلسلہ رکا نہیں اور اس گھرانے کا میرٹ ہی طب کی تعلیم ٹھہرا اور آج اس گھر کے ( بہویں، داماد، پوتے، پوتیاں ) پچاس کے قریب افرادطبی خدمات انجام دے رہے ہیں۔ بلاشبہ ڈاکٹروں کایہ گھرانہ ہمیشہ اپنے نوعیت کا منفرد اور یکتا گھرانہ رہے گا۔

ہم اس تحریر میں ڈاکٹر عطیہ ظفر سید کی زندگی کی کہانی بھی بیان کرنی ہے لیکن ساتھ میں شعبۂ طب کی تاریخ میں مختلف ادوار سے نمایاں مقام کی حامل خواتین کا تذکرہ کرنا ہے کہ جن کی کوششوں کے طفیل روئے زمین کے کسی نہ کسی خطے پرقافلۂ انسانی میں شامل دکھی اور بیمار انسانوں کے دکھوں کو بانٹنے والی کروبی صفت مسیحا خواتین میسر آئیں۔

علمِ طب و جراحت کی تاریخ یقینا قافلہِ انسانی کے ارتقائی سفر کی تاریخ جتنی ہی قدیم ہو گی تاہم یہ فیصلہ کرنا بھی کچھ دشوار نہیں کہ عورتوں نے اس میدان میں کب سے قدم رکھا۔ تاریخ گواہی دیتی ہے کہ مصر میں قبلِ مسیح کی تہذیبوں میں بھی عورتیں بحیثیت مڈ وائف (دائی) سماجی خدمت گار رہی ہیں۔ لہذا صنفِ نازک بھی بہر طور ہمیشہ سے کارِ مسیحائی میں جزوی طور پر شامل رہی ہے۔ تاہم جدید طب کی دنیا میں پہلا نام جس نے جدید طب و جراحت میں باقاعدہ لیڈی ڈاکٹر کی ڈگری پائی، یہ نام ہمیں انیسویں صدی کی تیسری دھائی کے بعد سے ملنا شروع ہوتے ہیں۔ جیسا کہ ان اعداد و شمار سے ظاہر ہے۔

اگر ہم اوپر دیے گئے اعداد و شمار پر سرسری نگاہ ڈالیں تو یہ دکھائی دیتا ہے کہ اگر چہ یورپ میں اٹھارویں صدی کے وسط میں جرمنی کی ڈاکٹر دوروتھیا ارکسلیبن نے جدید طب کی پہلی خاتون ڈاکٹر ہونے کی سند پائی تاہم اسلامی دنیا کی خواتین میں ترکی میں ڈاکٹر صفیہ علی نے جنگِ بلقان اور پہلی جنگِ عظیم میں بطور ڈاکٹر خدمات انجام دیں اور جدید دور کی پہلی مسلمان خاتون ڈاکٹر کہلائیں۔

لیکن ہم یہاں بات کریں گے خطۂ ہند کی کہ جہاں ہندو مت کی جڑیں ایک قدامت پسند معاشرے کوپروان چڑھا چکی تھیں۔ عورت کے کردار کی آزادی تواہمات و رسومات کے قلعوں میں مقید تھی۔ یہاں کی عورت خواہ ہندو گھر کی تھی یا مسلمان گھر کی اس کے لئے یہ ایک بہت مشکل امر تھا کہ پسماندہ معاشرے کی پھیلائی گئی گھٹن کے مقابل اٹھ کھڑی ہو اور عورت کے لئے جدید تعلیم خصوصا شعبۂ طب سے وابستگی کی اہمیت کو اپنے عمل سے اجاگر کرے۔ اگرچہ یہ بہت کٹھن مرحلہ تھا لیکن ناممکن نہیں تھا لہذا ہم نے دیکھا کہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں بھی طب کے شعبے چند مثالی کردار انیسویں صدی کے ا ٓخر میں سامنے آگئے تھے۔

ان میں ایک نام پونا شہر سے تعلق رکھنے والی آنندی گوپال جوشی کا ہے جنہوں نے 1886 میں ڈاکٹری کی ڈگری لی۔ تاہم اس نام کے ساتھ دو اور نام ڈاکٹر کادمبنی گانگولی اورڈاکٹر چندرمکھی باسو (1860۔ 1944) کے ملتے ہیں جو ہندوستان اور پوری برطانوی سلطنت سے پہلی خواتین گریجویٹ تھیں۔ ڈاکٹرکادمبنی بوس کی پیدائش 1861 ء میں صوبہ بہار میں ہوئی۔ ان کے والد برہمو اسکول کے ہیڈ ماسٹراور سماجی کارکن تھے۔ کادمبنی کے روشن خیال والد نے انہیں ڈاکٹری کی تعلیم دلوائی۔

کادمبنی پہلی جنوب ایشیائی خاتون معالج تھیں جنہوں نے مغربی طب کی تعلیم و تربیت حاصل کی۔ کادمبنی بوس کی شادی 1883 ء میں آزادی نسواں کے علم بردار اور برہمو مصلح دوارکاناتھ گانگولی ہوئی۔ دونوں میاں بیوی نے مل کر ہندوستانی عوام اور خصوصاً مشرقی ہندوستانی خواتین کی فلاح و بہبود اور ان کی ترقی کے لیے خوب کام کیے۔

ڈاکٹر آنندی گوپال جوشی ( 1865۔ 1887 ) کہ جن کی شادی نو سال کی عمر میں گوپال راؤسے ہوئی تھی۔ جب 14 سال کی عمر میں وہ ماں بنیں اور ان کی پہلی اولاد کی موت 10 دنوں میں ہو گئی تواس شدتِ غم کوکم کرنے کے لئے انہوں نے خود سے عہد کیا کہ وہ ایک دن ڈاکٹر بنیں گی اور اس طرح کی المناک اموات کو روکنے کی کوشش کریں گی۔ ان کے شوہرنے ان کی حوصلہ افزائی کی، ہر ممکن تعاون کیا۔ جبکہ اس گھٹن زدہ معاشرے میں ان پر خاصی تنقید بھی ہوئی تھی کہ ایک شادی شدہ ہندو عورت کسی بیرونی ملک (پنسلوانیا) جاکر ڈاکٹری کی تعلیم حاصل کرے۔

لیکن باہمت آنندی نے ان تنقیدوں کی ذرا بھی پروا نہیں کی اور 21 سال کی عمر میں وہ ڈاکٹر بن چکی تھیں۔ ڈگری مکمل کرنے کے بعد جب آنندی بھارت واپس لوٹیں۔ تو ان کی صحت گرنے لگی اور کچھ ہی دنوں میں وہ صرف بائیس برس کی عمر میں قضائے ناگہانی نے آن گھیرا۔ تاہم ان کا نام اپنے عہد کی مشاہیر خواتین میں سرِ فہرست رہے گا۔

ہم مزید اس خطے کی تاریخ کھنگالیں تو بنگال کے راج نندگاؤں میں ڈاکٹر زہرا بیگم قاضی ( 1912۔ 2007 ) کا بھی تذکرہ ملتا ہے جو کہ بنگال کی پہلی خاتون ڈاکٹر تھیں اور ان کے والد قاضی عبدالستار بھی ڈاکٹر اور سیاستدان تھے۔ 1935 ء میں ایم بی بی ایس کی ڈگری پانے والی وہ غا لباً خطہ ہند کی پہلی مسلمان لیڈی ڈاکٹر بھی تھیں۔ مزید اعلیٰ طبی تعلیم برطانیہ جا کر حاصل کی۔ وطن واپسی پر ڈھاکہ میڈیکل کالج اور ہسپتال سے وابستہ ہوئیں۔

بلاشبہ ایک صدی پہلے اس خطے کیتمام خواتین کے لئے ایسی باہمت اور ذہینخواتین ڈاکٹرز کا باقاعدہ اس شعبے کو اپنانا ایک فکری بیداری اور حریت کا پیام تھا۔ تاہم وقت کسی کا کبھی رک کر انتظار نہیں کرتا، وقت کی روانی اور تاریخ کی کہانی 1886 ء یا 1935 ء کی بہادر، باہمت، قابل اور ذہین خواتین تلک آ کر نہیں رکی بلکہ علم و آگہی کا سلسلہ جاری رہا۔ اس خطے کے روایتی اور قدامت پرست معاشرے کی عورت کے لئے سینہ بہ سینہ بیداری کے چراغوں کے جلنے کا عمل توانیسویں صدی کے آخرمیں آغاز پاچکاتھا لیکن ابھی تو اس میں مزید معجز نما چہرے نمودار ہونا باقی تھے۔

لہذا اس خطے کی خواتین میں علم دوستی اورآگہی و بیداری کی یہ کہانی چلتے چلتے اس باہمت خاتون تلک بھی آن پہنچی کہ جو اپنی ذہانت اور چٹان حوصلے کے باعث اس محبوس معاشرے کے لئے قدرت کا بہترین عطیہ ثابت ہوئیں۔ ۔ ڈاکٹر عطیہ ظفرسید، اپنے عہد کے افقِ طب پرابھرنے والا ایک جگماتا ستارہ اور ایک روایت پرست معاشرے میں شعور و آگہی کی لَو بکھیرنے والا ایک روشن ترین چراغ۔

بہت جی چاہ رہا ہے کہ آج ذرا مفصل ذکر ہو جائے اس دلیر، ذہین اور صاحبِ فکر خاتون کا جس کی 84 سالہ زندگی سے وابستہ تمام تر روشن پہلوؤں اگرچہ یہاں ان محدود سطور میں ناکافی ہو گا۔ تاہم ایک کوشش کی جائے گی کہ ڈاکٹر عطیہ ظفر کے ہدف ِ زندگی پانے کی کٹھن جدوجہدکچھ مختصر مگر بلیغ الفاظ میں پیش کرنے میں قلم بھی بلاغت سے رواں ہو سکے۔

مزید پڑھنے کے لیے اگلا صفحہ کا بٹن دبائیں


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).

صفحات: 1 2