لال حویلی کی خالہ فسادن


درویش کو اپنی منہ پھٹ اور بات دل میں نہ رکھنی والی عادت کا اعتراف ہے۔ جو بات ناقص ذہن میں سما جائے مصلحتوں کو نہ سمجھتے ہوئے کہہ دینے کا عادی ہوں۔ بچپن میں اکثر اساتذہ سے بھی اختلاف رہا، وجہ نزاع بات بے بات سوال پوچھنے اور استاد کی نقل کرنے یا رٹا لگانے کے بجائے اوٹ پٹانگ سوالات پوچھنا اور نصاب پر انحصار کے بجائے تشکیک کا مارا ذہن رہا۔ بہت بار مار کھائی سزا پر بغاوت بھی کی۔ ایک دفعہ تو پرائمری اسکول کی استانی صاحبہ جو ہماری پڑوسن بھی تھیں شکایت لے کر والدہ کے پاس بھی آ پہنچیں۔

کہتے ہیں چھٹتی نہیں یہ کافر منہ کو لگی ہوئی، ایسا ہی معاملہ ہے بڑا ہونے اور گھر بار کی ذمہ داری کے بعد بھی یہی چلن برقرار رہا۔ بلکہ اضافہ یہ ہوا کہ اب تو اندرونی جذبات چھپانا بھی مشکل ہو چکا، کسی سے خفگی چہرے سے ہی عیاں ہو جاتی ہے۔ حلقہ احباب بھی اسی باعث نہایت محدود ہے۔ مشکل سے ہفتہ ڈیڑھ لوگ برداشت کرتے ہیں اس کے بعد ہر کوئی اپنی راہ لیتا ہے۔ گنے چنے چند دوست ہیں جو سمجھوتا کر چکے اور ساتھ نبھاہ رہے ہیں، حالانکہ روک ٹوک ان سے بھی کرتا ہوں جو اکثر یہی ہوتی ہے پرائے معاملے میں ٹانگ کیوں اڑاتے ہو، اپنے دائرے سے نہ نکلو، کام سے کام رکھو، سرکاری ملازم ہو حلف کی پاسداری کرو ڈیوٹی پوری اور ایمانداری سے انجام دو۔ روٹین اپنی البتہ وہ بھی نہیں بدلتے کبھی ہنس کر تو کبھی جھڑک کر بات ٹال دیتے ہیں۔ یہ بتانے کی ضرورت اس وجہ سے پیش آئی چند دوستوں کا کہنا تھا آپ بہت سخت لکھتے ہیں، اخبار کی مجبوریاں بھی پیش نظر تھیں متواتر کئی کالم مسترد ہوئے اس لیے سوچا آج سے کچھ بے ضرر کہانیاں سنانے کی کوشش کروں۔

ہمارے مشرقی معاشرے میں ہر محلے کی سطح پر ایک ”فسادن خالہ“ کا کردار لازماً موجود ہوتا ہے۔ ”فسادن خالہ“ تنہا زندگی بسر کرنے والی زبان کی بے حد تیز طرار ایک ادھیڑ عمر عورت ہوتی ہے۔ اولاد کی نعمت سے قدرتی طور پر وہ محروم ہوتی ہے مگر اس کے باوجود اس کی ازدواجی زندگی اچھی بسر ہو رہی ہوتی ہے۔ ساس سسر یا نند نام دیور نام کی کسی مصیبت سے بھی پالا خدا کے فضل سے نہیں پڑتا۔ اس کے باوجود خدا کا شکر بجا لانے اور اکلوتے شوہر کی ذمہ داری کماحقہ نبھانے کے بجائے برتنوں کی اٹھاخ پٹاخ سے حویلی نما گھر گونجتا رہتا ہے۔

شوہر گھر آئے تو ہمیشہ اسے راحت کے بجائے سر پر دوپٹہ باندھے اور آس پڑوس کی شکایات کی پٹاری کھولے بیگم ملتی ہے۔ آخر کار ایک روز شوہر بے چارہ سنسان حویلی اور یکا و تنہا بیگم چھوڑ کر اگلا جہاں سدھار جاتا ہے۔ بقیہ زندگی گوشہ نشیں رہ کر سابقہ زندگی پر ندامت اور توبہ تائب کے بجائے فسادن خالہ اپنے دل میں حسد کی آگ پال لیتی ہے۔ اس کے بعد وہ چوکھٹ پر بیٹھ کر گزرنے والوں کو کوسنے اور طعنے دے کر سینہ ٹھنڈا کرتی ہے۔

محلے میں کوئی نیا گھر بن جائے یا نیا فرنیچر آ جائے، چوری ڈاکے یا رشوت کی کمائی کا فتوی اس پر لگاتے دیر نہیں کرتی۔ گاہے اس کے کان بھر دیے گاہے دوسری جانب لگائی بجھائی کر دی، غرض کسی کی خوشی اس سے برداشت نہیں ہوتی ”فسادن خالہ“ کا یہ مشن بن جاتا ہے کسی طرح وہ دوسرے ہنستے بستے گھرانوں میں بھی فساد کا بیج بو کر ان کی خانگی زندگی تباہ و برباد کر دے۔

نظر دوڑائیں تو اس قسم کے کردار ہمارے آس پاس ہر جگہ دکھائی دیں گے۔ ان کی ذہنی حالت کی وضاحت کے لیے پنجابی زبان کا محاورہ ہے ”نہ کھیلاں گے، نہ کھیلن دیاں گے“۔ ہماری سیاست میں بھی اس قسم کا ایک کردار راولپنڈی کی ”لال حویلی“ کے بقراط کی صورت موجود ہے۔ موصوف بھی کسی وقت ایک شاندار سیاسی کیریئر اور کسی حد تک عزت کے بھی مالک تھے۔ کئی بار وہ وزیر بھی رہ چکے لیکن اپنے کردار وعمل کی بدولت وہ بھی آج کل تنہائی کا شکار ہیں۔ انہوں نے بھی گردش ایام سے سمجھوتا کرنے کے بجائے اپنے دل میں حسد کی آگ پال لی ہے جس میں وہ خود تو جل ہی رہے ہیں مگر ان کی خواہش ہے کسی بھی طرح پورا نظام ہی تلپٹ ہوجائے۔ اسی لیے ہر وقت وہ سیاسی جماعتوں اور اداروں کے درمیان تصادم کے لیے اپنی صلاحیتیں صرف کرتے نظر آتے ہیں۔

جناب آج کل حکومتی جماعت تحریک انصاف کے اتحادی ہیں لیکن جس طرح پبلک اکاؤنٹ کمیٹی کی چیئرمینی کے معاملے پر وہ اسپیکر قومی اسمبلی کے خلاف شعلہ بدہن اور شعلہ بدست ہیں لگتا ہے وہ اس گھر کو بھی بستے دیکھنا نہیں چاہتے۔ ہاؤس کو چلانا اور اس کا ماحول پر امن رکھنا سب سے زیادہ حکومت کی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جبکہ ہمارے جیسے ملکوں میں اپوزیشن کی تمنا ہوتی ہے ایوان کا ماحول تلخ رہے، بلکہ دنگا فساد ہو تاکہ قانون سازی اور روٹین کے معاملات متاثر ہوں اور حکومت کی ناکامی کا تاثر ابھرے۔

سمجھ نہیں آتی PAC کی چیئرمین شپ آخر کیا چیز ہے جس کو اتنا بڑا مسئلہ بنایا جا رہا ہے۔ پچھلے چھ ماہ اسی تکرار کی نذر ہوئے کوئی ایک کمیٹی نہ بن پائی اور نہ ہی قانون سازی کی سمت کوئی پیشرفت ہوئی۔ روایت یہ رہی کہ اپوزیشن لیڈر مذکورہ کمیٹی کے چیئر پرسن ہوتے ہیں لہذا اپوزیشن کا مطالبہ تھا جب تک شہباز شریف کو اس کا چیئرمین نہیں لگایا جاتا ایوان کی کارروائی نہیں چلنے دی جائے گی۔ حکومت کافی وقت اڑی رہی کہ اپوزیشن لیڈر نیب کیسز میں مطلوب ہیں چنانچہ انہیں اس منصب پر بٹھانا مفادات کا ٹکراؤ ہوگا۔ حزب مخالف مگر اپنے مطالبے سے پیچھے نہ ہٹی اور قائد انقلاب کو کہنا پڑا کہ ایوان کی کارروائی چلانے کے لیے حکومت بادل نخواستہ انہیں قبول کرتی ہے۔

اب اچانک جانے کہاں مروڑ اٹھا، شیخ صاحب شہباز شریف کو اس منصب سے ہٹانے کے لیے اسپیکر قومی اسمبلی کو تڑیاں اور بصورت دیگر عدالت جانے کی دھمکیاں دے رہے ہیں۔ ان کا یہ بھی اصرار ہے کہ انہیں اس کام کے لیے عمران خان کی آشیرباد حاصل ہے اگر یہ سچ ہے تو پھر بات کچھ ایسی ہے کہ ”نانی نے خصم کیا برا کیا، کر کے چھوڑ دیا اور برا کیا“۔ درویش کو تحریک انصاف کی سیاست سے شدید اختلاف کے باوجود خواہش ہے کہ نظام چلتا رہے، قائد انقلاب کے مصاحبین بھی منتقم مزاج لوگ ہیں اور وہ مشورہ ماننے کا تردد بھی نہیں کرتے، پھر بھی کسی ذی فہم شخص کی ان تک رسائی ہے تو انہیں سمجھائے کہ شیخ صاحب کے پاس تو آج سے دس سال قبل جب کچھ نہ رہا تھا، اسی وقت انہوں نے سنبھال کر رکھ لی تھی تنہائی اور یہ وہ سلطنت ہے جس کے بادشاہ بھی وہ، وزیر بھی وہ اور فقیر بھی وہ۔

خدانخواستہ اگر حکومت ناکام ہوئی یا سسٹم کو کوئی خطرہ ہوا شیخ صاحب اپنا رومال جھاڑ کر کندھے پر رکھیں گے اور چلتے بنیں گے۔ خورشید شاہ صاحب کے مطابق اپوزیشن پنجے تیز کر بیٹھی ہے شہباز شریف کو زبردستی نکالا گیا تو ایوان کسی صورت نہیں چلے گا۔ قائد انقلاب کو سمجھنا چاہیے آخری عمر میں آ کر انہیں وہ نوکری ملی جس کی طلب میں ان کی عمر کے بائیس سال گزرے اور اسے یہ اپنی پہلی اور آخری باری سمجھیں۔ ان کو اس کرسی پر بٹھانے میں سیاسی مرغان باد نما کرداروں کا رول بھی واضح ہے اور یہ بھی یاد رکھیں ایسے لوگ تین چار پارٹیاں بدل کر ان تک پہنچے ہیں۔ ناکامی ہوئی خواہ کسی بھی وجہ سے ہوئی ایسے لوگ اپنی سمت اڑ جائیں گے ناکامی قائد انقلاب کے کھاتے میں ہی آئے گی۔


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).