پلوامہ میں بہتا ہوا بھارتی خون مجھے پریشان کرتا ہے


کل بھارتی کشمیر میں اک فوجی بس پر حملے کی ذمہ داری نیٹ پر گردش کرتی ہوئی ایک ویڈیو کے مطابق جیشِ محمد نے قبول کی ہے۔ جیش محمد نے اس بارے میں کوئی تردیدی یا تصدیقی بیان آفیشلی جاری نہیں کیا ہے۔ جیش کے سالار، محترم مولانا مسعود اظہر صاحب ہیں اور سنہ 2000 میں جیش کو بنانے میں جناب مفتی نظام الدین شامزئی کا بھی بہت بھرپور کردار رہا تھا۔ بعد میں وہ بہرحال پچھتائے اور دیگر معاملات کے ساتھ، اپنے پہلے والے نظریات سے رجوع کرنے کی قیمت انہوں نے اپنی جان دے کر ادا کی۔

جیشِ محمد کی بنیاد اس وقت کی حرکت المجاہدین، جو پہلے حرکت الانصار تھی، کی زمین پر اٹھائی گئی تھی۔ حرکت المجاہدین کے تب کے امیر جناب مولانا فضل الرحمٰن خلیل تھے اور یہ تب کے زمان و مکاں کے تناظر میں کاسٹ اینڈ بینیفٹ کا سلسلہ تھا۔ جیشِ محمد نے حرکت کے مقابلے میں کم خرچ بالا نشین کی آپشن فراہم کی تھی۔

سنہ 2000-2001 میں جیش نے جب حرکت کے دفاتر پر قبضہ شروع کیا تو طرفین کے “مجاہدین” میں جھڑپیں بھی ہوئی تھیں اور جنوبی پنجاب کے اک شہر میں تو حرکت کے امیر کو حقیقت میں دوسری منزل سے “اُلار” کے نیچے گلی میں ڈائریکٹ ہی پھینک دیا گیا تھا۔ اس وقت کے آبزرورز کا خیال تھا کہ حرکت کے مجاہدین کو، کہ جن میں تقریبا تمام کے تمام پشتو بولنے والے تھے، شاید پاکستان کے مغربی بارڈر کے اس پار زیادہ بہتر طریقے سے استعمال کیا جا سکتا ہے، جبکہ جیش کے پنجابی اور جنوبی پنجابی ہمدردان کو بارڈر کے مشرقی سمت استعمال کرنا زیادہ فائدہ مند رہے گا۔

غیرروایتی جنگیں، غیرروایتی وار اور دفاع پر ہی چلتی ہیں۔ منظم ریاست کے اخلاقیات و سیاسیات کے مباحث بھلے جو مرضی ہوتے ہوں۔

جیش کے جب تھوڑے پاؤں جمے تو اس میں بھی وسائل، رقوم اور ٹویوٹا ہائ لکس، المعروف ویگو ڈالہ، کی آپسی تقسیم پر بھی اندرونی جھگڑے رہے جس کو اس وقت کے جانے پہچانے دیوبند علماء نے اپنے دوستوں کی مدد سے بااحسن و خوبی نبٹایا تھا۔ وگرنہ، جیش میں بھی وہی قصے دہرائے جاتے، جو جیش نے حرکت کے ساتھ بنائے تھے۔

ستمبر 2011 کے نیویارک میں حملوں کے بعد جب میرے وطن کی ریاست نے اپنی پالیسی بہت جلدی میں تبدیل کی تو جیش کے چند سرپھروں نے اپنی “محبتیں” القاعدہ اور پاکستانی طالبان کے ساتھ مل کر پاکستان پر بھی نچھاور کیں اور بالخصوص، کراچی میں ان کا نیٹ ورک گلی محلوں کی مساجد تک پھیل گیا۔ ریاستِ پاکستان نے بہت شدت کی جنگ کے بعد ان عناصر پر برتری حاصل کی اور اس جنگ کی شدت اس لیے بھی زیادہ تھی کہ یہ سایوں میں لڑی جانے والے Undeclared جنگ تھی۔

میری ریاست کے انٹیلیجنس اداروں نے جیش اور لشکرِ جھنگوی العالمی و دیگران کے ساتھ پچھلے 17 سال مسلسل جنگ لڑی ہے اور ریاست کے اہلکاروں کے ساتھ پرتشدد شدت پسندوں نے شدید سے بھی زیادہ بےرحمی کا سلوک کیا۔ ریاستی اہلکاروں کو زندہ بھی کاٹا گیا اور ان کو بہیمانہ طریقے سے قتل کرنے کے بعد ان کی لاشوں کی بھی بےحرمتی کی گئی۔

پاکستان میں تشدد سے جڑے معاملات کو دیکھنے والے تمام لوگ اچھی طرح جانتے ہیں کہ جیشِ محمد کے امیر محترم مولانا مسعود اظہر صاحب کہاں رہائش پذیر ہیں۔ میں شہر کا نام اس لیے بھی نہیں لوں گا کہ مجھے بمب کو لات مارنے کا کوئی شوق نہیں۔

بھارت کے 41 فوجی ایک ہی ہلے میں قتل ہو گئے۔ یہی فوجی اگر کسی جھڑپ میں مارے جاتے تو اس کے ڈائنامکس کچھ اور ہوتے۔ اب بھارت پلٹ کر جواب دے گا اور ضرور دے گا۔ ماضی قریب کا قریب ترین حوالہ 16 دسمبر 2014 کا اے پی ایس پشاور میں بچوں کا قتلِ عام ہے۔ یہ قتلِ عام تحریک طالبان پاکستان نے کیا جس کو فراہم کی جانے والی افغان اور بھارتی مدد کوئی ڈھکا چھپا راز نہیں۔ میرے پاس معلومات تو نہیں، مگر اک تخیل پر بنیاد کرتا اندازہ یہ بہرحال کہتا ہے کہ اے پی ایس کے وار کے بعد پاکستانی انٹیلیجنس اداروں نے افغانوں اور بھارتیوں کو یہ بہرحال ضرور کہا ہو گا کہ “جناب ایسے نہیں، اور اگر ایسے ہے، تو پھر ایسے ہی سہی!”

افغانوں اور بھارتیوں کو بھی شاید خود اے پی ایس واقعہ کی بربریت کا اتنا کُھلا اندازہ نہ تھا تو انہوں نے سوات سے تعلق رکھنے والے، ملا فضل اللہ سے بتدریج ہاتھ اٹھایا جو فضل اللہ کی اک ڈرون حملے میں ہلاکت کا سبب بنا (15 جون 2018)۔ خس کم، جہاں پاک!

مگر پلوامہ میں کیے جانے والے حملے کا اب جوابی وار کہاں ہو گا، کوئی نہیں جانتا۔ مجھے اک خوف بہرحال ہے کہ جوابی وار میں بھی عام پاکستانیوں کی اکثریت کھیت رہے گی۔ خون بہے گا، اور بقول گلزار کے، یہ دونوں بوڑھے ہوتے ہوئے بچے (بھارت اور پاکستان) اپنے پٹاخوں سے دل بہلاتے رہیں گے۔

میں بحثیت اک پاکستانی شہری، بھارتی افواج پر خود کش حملے کی شدید مذمت کرتا ہوں، بالکل ویسے جیسے کہ یہ حملہ، خدانخواستہ پاکستانی افواج پر ہوا ہوتا۔ میں کسی قسم کے بھی انفارمل ریاستی یا غیر ریاستی تشدد کے حق میں نہیں ہوں، مگر افواج کی ہلاکتیں اور شہادتیں، میدان جنگ میں ہوں تو اس کا حوالہ مختلف ہوتا ہے۔ یہ بہت برا ہوا ہے۔ نہیں ہونا چاہئیے تھا۔ الیکشنز کا سال ہے، اک شدت پسند بھارتی وزیراعظم اب جواب دیں گے۔ اور اک بدتر جواب دینا چاہیں گے۔

پاکستانی ریاست کے طاقتور حلقوں سے مسلسل شاکی پاکستانی گو کہ اس خیال سے تو خیر تاقیامت اتفاق نہیں کریں گے، مگر شاید پاکستانی ریاستی اہلکاروں نے اپنے بھارتی ہم منصبوں کو یہ بتا دیا ہو کہ جناب، یہ ہم نہیں تھے۔ یہ بھی عین ممکن ہے کہ وہ ہم منصب اپنی معلومات کی بنیاد پر یہ تسلیم بھی کرتے ہوں، مگر بڑھتے ہوئے عوامی دباؤ اور حکومتی احکامات پر انہیں کھلے عام، یا سایوں میں کچھ تحرک دکھانا پڑے۔ آہ، مگر خون بہے گا۔

نجانے یہ بوڑھے ہوتے ہوئے دونوں بچے، کب بڑے ہوں گے!


Facebook Comments - Accept Cookies to Enable FB Comments (See Footer).